متحد عرب امارات پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کررہا:وزارت داخلہ کی سینیٹ کمیٹی کو آگاہی
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری نے سینیٹ کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا۔جبکہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان قریبی سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ یو اے ای مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک اور ترسیلات زر کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے، جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکینِ وطن رہتے اور کام کرتے ہیں۔تاہم، ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری نےسینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران بتایا کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پاکستانیوں کو ویزے جاری نہیں کر رہا۔
سلمان چوہدری کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور یو اے ای، پاکستانی پاسپورٹ پر پابندی عائد کرنے کے قریب تھے لیکن آخری لمحے پر رک گئے، انہوں نے خبردار کیا ’اگر پابندی لگا دی گئی تو اسے ہٹوانا بہت مشکل ہوگا۔جبکہ وزارت داخلہ کے مطابق فی الحال یو اے ای صرف نیلے پاسپورٹ اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ رکھنے والوں کو ویزے جاری کر رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کو ویزے جاری عرب امارات یو اے ای
پڑھیں:
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ریلوے پروجیکٹ پر کام جاری
غزہ جنگ بندی کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ’’امن ریلوے‘‘ پر کام میں تیزی آگئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ راہداری ایک عظیم ریلوے ٹریک کا حصہ ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک کا دیگر ممالک تک رسائی بھی آسان ہوجائے گی۔
اس راہداری میں ریلوے کے ساتھ ساتھ کمیونی کیشن کیبلز، پائپ لائنز اور توانائی کی ترسیلی لائنیں بھی شامل ہوں گی۔
اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور اسرائیل کے درمیان ریلوے منصوبے پر تعمیراتی بڑے پیمانے پر اور نہایت تیز رفتاری سے جاری ہے۔
Israeli Minister of Transport reveals the new supply route that bypasses Yemen's Red Sea Blockade.
Goods are shipped from India's Mundra Port to the UAE, and then transported to Israel through Saudi Arabia and Jordan via trucks. pic.twitter.com/JXC7zHSViX
ریلوے ٹریک کے متعدد حصوں پر انفراسٹرکچر تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں جب کہ کچھ بڑے حصے تعمیر ہوچکے ہیں۔
اس ریلوے ٹریک پر تیزی سے کام کی ایک وجہ یہ بھی بحیرہ احمر میں اسرائیل جانے والے جہازوں کو یمن میں حوثی نشانہ بنارہے ہیں۔
اس سے بچنے کے لیے اسرائیل نے ایک نیا روٹ مرتب کیا ہے۔ اب درآمدی اشیا بھارت کے مندرا پورٹ سے سمندر کے ذریعے متحدہ عرب امارات میں داخل ہوگا اور وہاں سے سعودی عرب اور اردن کے راستے بذریعہ ٹرک اسرائیلی بندرگاہ حیفہ پہنچے گا۔
اسرائیلی بندرگاہ سے ان درآمدی اشیا کو یورپ اور امریکا برآمد کیا جائے گا۔
اسرائیلی وزیرِ ٹرانسپورٹ میری ریگیو گزشتہ ہفتے وفد کے ہمراہ ایک خفیہ دورے پر ابوظہبی پہنچیں اور اسرائیلی وزارتِ ٹرانسپورٹ کی ایک تکنیکی ٹیم نے منصوبے کا معائنہ بھی کیا۔
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ یہ ہنگامی سفارتی کوششیں اس وقت تیز ہوئیں جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ فرانس اور ترکیہ ایک اور متبادل راہداری پر کام کر رہے ہیں جو اردن سے شام اور پھر لبنان کی بندرگاہ تک جائے گا۔
اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اسرائیل مکمل طور پر اس منصوبے سے باہر ہو جائے گا اور اسرائیل کو بڑے پیمانے پر معاشی اور سیاسی لحاظ سے شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے دوران نیتن یاہو حکومت نے سیاسی رابطے منجمد کر دیے تھے لیکن امارات نے بھارت، سعودی عرب اور اردن کے ساتھ بغیر اسرائیل کا انتظار کیے منصوبے پر کام جاری رکھا۔
Hebrew Channel 13 revealed footage of how Israel bypasses Yemen's Red Sea Blockade with the help of Arab countries — a land corridor for the delivery of cargo from the UAE to Haifa, via Saudi Arabia and Jordan. pic.twitter.com/ajrgl3eDfe
— The Cradle (@TheCradleMedia) February 1, 2024جس کے نتیجے میں ڈیزائن، راستے اور علاقائی معاہدوں پر کام بہت آگے بڑھ چکا ہے اور اب اسرائیل اس راہداری میں اپنی جگہ دوبارہ بنانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے کیونکہ منصوبہ اب اس کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔
اسرائیلی اور اماراتی حکام نے ایک مشترکہ انتظامی ادارہ قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو ٹرانزٹ، کنیکٹیویٹی اور ریلوے لائن کے باقی حصے کی تعمیر کی نگرانی کرے گا۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس راہداری سے مستقبل میں جلدی خراب ہونے والی اشیا چند گھنٹوں میں اسرائیل پہنچ سکیں گی بشرطیکہ سعودی عرب اور یو اے ای اس کی اجازت دیں۔
واضح رہے کہ یہ منصوبہ دراصل امریکا نے 2018 میں تجویز کیا تھا اور بعد ازاں اسے India–Middle East–Europe Economic Corridor (IMEC) کا حصہ بنایا گیا۔