ایف بی آئی کے الزامات مسترد، ایرانی سفیر نے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
ایرانی سفیر رضا امیر مقدم نے ڈائریکٹر ایف بی آئی کی جانب سے ان کا نام انتہائی مطلوب لسٹ میں ڈالنے کے فیصلے کو حقائق کے منافی قرار دیا اور لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا۔
نجی نیوز چینل کے مطابق ایک انٹرویو میں ایرانی سفیر رضا امیر مقدم سے نمائندے نے سوال کیا کہ ہم نے ایک بڑی پیش رفت دیکھی کہ ایف بی آئی نے آپ کے نام کے حوالے سے ایک فیصلہ جاری کیا اور اس پر پاکستان نے جو ردعمل دیا، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ’پاکستان نے اس حوالے سے ایک اچھا اور مضبوط مؤقف اختیار کیا جس پر ہم پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ کے بیان پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘۔
رضا امیر مقدم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکا کی یہ عادت ہے اور ایران میں ہزاروں افراد کے خلاف اس طرح (انتہائی مطلوب) کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ایف بی آئی کی جانب سے محض ایک الزام ہے۔
ایک پوچھے گئے سوال کہ ’کیا ایف بی آئی کے الزام سے آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے‘؟
ایرانی سفیر نے جواب دیا کہ ایف بی آئی کی جانب سے جس پر الزام لگایا جاتا ہے اس کے بعد جس کے خلاف الزام لگایا جاتا ہے وہ زیادہ مشہور ہوجاتا ہے لیکن اس کی حیثیت خراب نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ 16 جولائی 2025 کو امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم کو اپنی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ایف بی آئی نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ 2007 میں ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ رابرٹ اے باب لیونسن کے اغوا میں ملوث تھے، باب لیونسن ایران کے جزیرہ کِش سے لاپتا ہوگئے تھے۔
رضا امیری مقدم، جنہیں احمد امیرینیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ماضی میں ایران کی وزارتِ انٹیلی جنس و سلامتی (ایم او آئی ایس) کے آپریشنز یونٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور اس دوران انہوں نے یورپ بھر میں کام کرنے والے ایجنٹوں کی نگرانی کی، وہ اب اسلام آباد میں ایران کے اعلیٰ سفارتی نمائندے کے طور پر تعینات ہیں۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ایرانی سفیر ایف بی آئی میں ایران
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ، 13 سالہ بچے کو حقیقی والدین سے لے کر لے پالک والدین کے حوالے کرنے کا حکم
—فائل فوٹولاہور ہائی کورٹ نے بچوں کی حوالگی کے کیس کا فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے 13 سالہ بچے کو حقیقی والدین سے لے کر لے پالک والدین کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس فیصل زمان خان نے ارشد علی کی درخواست پر 8 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے لے پالک والدین سے بچے کی حوالگی حقیقی والدین کو دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی حوالگی کے کیس میں ان کی خواہش اور ذہنی کیفیت کو مقدم رکھا جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بچے کی رائے کو اہمیت دینا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے دوسری شادی، بچے کی حوالگی، ماں نے دوسرے شوہر کی مدد سے بیٹے کو مار ڈالا دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں ہی بچے کی کسٹڈی کی حق دار ہے، لاہور ہائیکورٹتحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں بچے نے لے پالک والدین کے ساتھ جانے کا بیان دیا، عدالت نے ایک ہفتے کے لیے بچے کو حقیقی والدین کے ساتھ بھیجا۔ بچے نے دوبارہ پیشی پر پھر لے پالک والدین کے ساتھ جانے کا بیان دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ بچے کی حوالگی کے کیس اصولی طور پر حقیقی والدین کو ترجیحی حق حاصل ہوتا ہے، حقیقی والدین نے اپنی مرضی سے پیدائش کے وقت بچہ اپنے بھائی کو دیا، لے پالک والدین نے 9 سال تک بچے کی پرورش کی، اس کی عمر 13 برس ہو چکی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حقیقی والد کی 3 شادیاں اور 13 بچے ہیں، اتنے بڑے خاندان میں بچے کو بھیجنا مناسب نہیں، حقیقی والدین یہ نہیں ثابت کر سکے کہ بچے کی بہتر پرورش نہیں ہوئی۔
عدالت نے کہا کہ بچہ بغیر کسی شکایت کے 9 سال تک گود لینے والے والدین کے ساتھ رہا، ایک صبح اچانک بچے پر بم گرایا گیا کہ وہ اصل والدین کے ساتھ نہیں رہ رہا،بچے کو اچانک اجنبی ماحول میں بھیج دینا اس کے مفاد میں نہیں۔
تحریری فیصلے کا کہنا ہے کہ بچے کے کیا جذبات ہوں گے جب پتہ چلا کہ یہ 6 بہنیں اور ایک بھائی اس کے اپنے نہیں، گھریلو تنازع کی بنیاد پر حقیقی والدین نے بچے کی حوالگی کا دعویٰ دائر کیا، موجودہ کیس میں بچے کی فلاح نہیں بلکہ گھریلو تنازع دعوے کی وجہ بنا۔
لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق بھائی نے پیدائش کے وقت اپنی مرضی سے بچہ انہیں دیا، حقیقی والدین کے مطابق بچے کو کچھ عرصے کے لیے بھائی کو دیا تھا، حقیقی والدین حوالگی کے عارضی ہونے کا ثبوت نہ دے سکے، حقیقی والدین بچے سے ملاقات کے لیے گارڈین کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔