Jasarat News:
2025-12-01@14:33:18 GMT

جنگِ آزادی 1857 اور تلخ حقائق

اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن سے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ لیکن بالآخر ثابت ہوا کہ عراق کے پاس ایسے ہتھیار نہیں تھے۔ اس صورتِ حال کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اچانک پینترا بدلا اور فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ ہمارے اقدام کو صحیح قرار دے گی۔ ٹونی بلیئر نے یہ بات اس طرح کہی جیسے مستقبل میں تاریخ نویسی کا کام انہی کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ اپنی جارحیت کے بارے میں جو چاہیں گے لکھ سکیں گے۔ ایسا نہ ہوتا تو ٹونی بلیئر کو معلوم ہوتا کہ تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔ وہ دودھ اور پانی کو الگ کردیتی ہے، بلکہ حال کے دکھ ماضی کی تلخیوں کو بھی زندہ کردیتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی سے وابستہ کیا ہے کہ مسلمان یورپی طاقتوں کے نوآبادیاتی تجربات کو بھی یاد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

مسلمانوں کا ایک بہت ہی بڑا تلخ نوآبادیاتی تجربہ 1857ء کی جنگِ آزادی ہے۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو اس جنگ ِآزادی سے دور رکھنے کے لیے یقین دلایا کہ اگر وہ مجاہدینِ آزادی سے دور رہا تو اس کی بادشاہت اور مراعات کو کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ لیکن انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے کیے گئے عہد کو پورا نہ کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے شہزادوں کے سر کاٹ کر بہادر شاہ ظفر کو تحفے کے طور پر بھیجے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان میں مرنے اور دفن بھی نہ ہونے دیا۔ دنیا کی عظیم الشان سلطنت کا مالک رنگون کے ایک کمرے میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگیا اور گمنامی میں مرگیا۔ اس بے بسی اور کسمپرسی کا اظہار بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں ہوا ہے جس کی علامت اُس کا یہ شعر ہے ۔

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

لیکن بہادر شاہ ظفر کا ذاتی المیہ 1857ء کی جنگ آزادی کا محض ایک فیصد ہے۔ انگریزوں نے جنگ آزادی کو غدر اور بغاوت کا نام دیا، حالانکہ انگریزوں کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ جنگِ آزادی زیادہ سے زیادہ ’’خانہ جنگی‘‘ کہلانے کی مستحق تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا، اور ہندو ہی نہیں مسلمان بھی انگریزوں کی ’’رعیت‘‘ تھے، اور رعیت حکمرانوں سے ناراض ہو تو اس کو قتل عام اور نسل کشی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس سے بات چیت کی جاتی ہے، مذاکرات کا اہتمام کیا جاتا ہے، رعایا کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے اور اسے مطمئن کرکے ’’زیادہ وفادار‘‘ بنایا جاتا ہے۔ اس کی مثال برطانیہ اور آئرلینڈ کی جنگ ِآزادی لڑنے والی تنظیم شین فین کے تعلقات ہیں۔ شین فین نے کئی دہائیوں تک مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی، مگر برطانیہ نے آئرلینڈ کو قتل گاہ میں تبدیل نہیں کیا، بلکہ بالآخر اس نے شین فین کے ساتھ مذاکرات کیے اور پُرامن بقائے باہمی کی صورت نکالی۔ لیکن1857ء کی جنگِ آزادی کی ہولناکی اتنی بڑھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنگِ آزادی کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابوں کے مطابق چند روز کے اندر صرف دِلّی میں 27 ہزار افراد شہید کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ہندوستان میں تقریباً 52 ہزار علماء کو شہید کیا گیا۔ انگریزوں کے فوجیوں پر طاقت اور انتقام کا بھوت اس طرح سوار تھا کہ صرف مسلمان ہونا بھی جرم بن گیا تھا۔ انگریزوں کے فوجی لوگوں کو پکڑتے اور پوچھتے ہندو ہو یا مسلمان؟ جیسے ہی یہ معلوم ہوتا کہ پکڑا جانے والا مسلمان ہے تو اسے قتل کردیا جاتا۔ انگریزوں کا ایک زخمی فوجی دِلّی کے ایک محلے میں داخل ہوا اور اس نے ایک گھر کے زنان خانے میںگھسنے کی کوشش کی۔ اہلِ خانہ نے اسے ایسا کرنے سے روکا، اور صرف اتنی مزاحمت پورے محلے کا سنگین جرم بن گئی۔ محلے کے تمام مردوں کو جمع کرکے جمنا کے کنارے لے جایا گیا اور کہا گیا کہ جو جمنا کے پانی کی طرف بھاگ کر جان بچا سکتا ہے بھاگ جائے، اور جو نہیں بھاگ سکتا مرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کی ریت خونِ مسلم سے تربتر ہوگئی۔ جن لوگوں نے بھاگ کر جمنا میں چھلانگ لگائی وہ جمنا میں ڈوب کر مرگئے۔ جنگِ آزادی نے انگریزوں کی اخلاقیات اور نفسیات کو کتنا پست کردیا تھا اس کا اندازہ انگریز مصنف باس ورتھ اسمتھ کے اس اقتباس سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ باس ورتھ لکھتا ہے:

’’بعض افسر رومی بربریت کے جوش میں اصرار کررہے تھے کہ دلّی شہر کو جو ہندوستان کا سرمایۂ افتخار اور اس کا دارالحکومت تھا… ڈھاکر زمین کے برابر کردیا جائے اور زمین کو شور زار بنادیا جائے۔ دوسرے اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہبی جنون میں اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جامع مسجد کو جو دنیا کی شاندار ترین اور نفیس ترین عمارتوں میں سے ایک تھی، کھدوا دیا جائے یا کم از کم اس کے کلس پر صلیب نصب کرکے اسے گرجے میں تبدیل کرایا جائے۔‘‘
باس ورتھ کے مطابق بعض انگریزوں نے دہلی میں ہل چلوانے کی تجویز دی۔ بڑی تعداد میں مساجد کو بارکوں میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں کتے رکھے جاتے اور خنزیر ذبح کیے جاتے۔ دہلی کے باہر دیگر شہر اور دیہات بھی انگریزوں کی درندگی سے نہ بچے۔ یہ مسلمانوں کی مزاحمت اور حکمت عملی تھی کہ وہ اپنا وجود بچانے میں کامیاب رہے، ورنہ انگریزوں نے نسل کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ انگریزوں کا دور ظلم وجبر اور ریاستی دہشت گردی کا دور تھا جس میں مسلمانوں کے خاتمے کی کوشش کی گئی۔ یہ یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے ہولوکاسٹ سے بھی بڑا ہولوکاسٹ تھا جس میں ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔

ان حقائق کے باوجود برطانیہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے جمہوریت کی ماں ہے۔ انسانی حقوق کے منشور میگناکارٹا کا مرکز ہے۔ تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ فکر وتدبر کا استعارہ ہے۔ ڈپلومیسی کا مینارہ ہے، اور ان کا وزیراعظم پانچ برس میں چھ لاکھ مسلمانوں کو نگل جانے والی جارحیت ایجاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تاریخ ہمارے اقدام کو سراہے گی، اس کا جواز پیش کرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اگر مغربی دنیا کے خلاف گواہ بن کر کھڑی ہوگئی تو اہلِ مغرب صدیوں تک کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
لیکن 1857ء کی جنگِ آزادی میں صرف منفی پہلو ہی نہیں ہیں۔ اس جنگ ِآزادی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو غلامی کی نفسیات کا اسیر ہونے سے بچالیا اور برصغیر کے مسلمان اس جنگ کے صرف 80 سال بعد اس قابل ہوگئے کہ وہ برصغیر میں ایک آزاد وطن کے قیام کے لیے ایک عظیم الشان تحریک برپا کرسکیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا جس بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا اسے جذب کرنا آسان نہ تھا، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے اسے جذب کرکے دکھادیا، اور ثابت کیا کہ وہ انتہائی منفی تجربوں سے بلند ہوکر سوچ اور عمل کرسکتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو تحریکِ پاکستان کبھی بھی پُرامن نہیں ہوسکتی تھی۔

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر 1857ء کی جنگ کہ تاریخ کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

صنعا، عظیم الشان ملین مارچ، فلسطین اور لبنان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم

ریلی، انصار اللہ کے رہنما سید عبدالملک الحوثی کی اپیل پر اور برطانیہ کے قبضے سے آزادی کے اٹھاون سالہ جشن (30 نومبر) کے موقع پر نکالی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ یمن کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام نے لاکھوں کی شرکت کے ساتھ منعقد ہونیوالی والی ریلی میں شرکت کی۔ ریلی کا عنوان تھا "آزادی ہمارا انتخاب ہے، اور قابض طاقت کا انجام زوال اور تباہی ہے"۔ شرکا نے جہاد و مزاحمت کے راستے کو جاری رکھنے اور فلسطین و لبنان کی حمایت پر زور دیا۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی شعبے کی رپورٹ کے مطابق یمن کے مختلف طبقوں کے عوام نے اس عظیم الشان احتجاجی مارچ میں بھرپور شرکت کی۔ واضح رہے کہ یہ ریلی، انصار اللہ کے رہنما سید عبدالملک الحوثی کی اپیل پر اور برطانیہ کے قبضے سے آزادی کے اٹھاون سالہ جشن (30 نومبر) کے موقع پر نکالی گئی۔

ریلی کے اعلامیے کا متن درج ذیل ہے:
ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام کے پرچم کو اٹھانے اور جہاد جاری رکھنے کا سلسلہ وہی ہے جو ہمارے بزرگوں، انصار کے اسلاف اور معزز باپ دادا نے جاری رکھا تھا۔ ہم اپنے پختہ عزم، ثابت قدمی اور دشمنوں و ان کے فوجی و سیکیورٹی وسائل کے مقابلے کی اگلی مرحلے کی جنگ کے لیے انتہائی بلند آمادگی پر تاکید کرتے ہیں، چاہے وہ سرکاری سرگرمیوں کے ذریعے ہو، عوامی شرکت یا عام رضاکارانہ بسیج کے ذریعے۔ ہم کبھی بھی اپنے برحق اور منصفانہ مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی فلسطین، لبنان اور دنیا کی دیگر مظلوم قوموں کو تنہا چھوڑیں گے۔

ہمارا ملک 30 نومبر (برطانوی استعمار سے آزادی کا دن) اس لیے مناتا ہے کہ دنیا کے تمام ظالموں اور ان کے کارندوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ہر قسم کے قبضے و استعمار کا انجام زوال اور نابودی ہے، چاہے جتنا وقت لگ جائے، یہ انجام یقینی ہے، ہم تمام مظلوم قوموں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر اقوام میں ارادہ موجود ہو اور وہ خدا پر بھروسہ رکھیں، تو وہ عظیم فتوحات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یاد رہے کہ 30 نومبر وہ دن ہے جب یمن نے 129 سالہ برطانوی استعمار کے قبضے سے آزادی حاصل کی اور غیر ملکی قابضین کو ملک سے نکال باہر کیا، یہ ایک ایسا دن ہے جو شہدا کے خون اور عوامی مزاحمت کی بدولت رقم ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں میٹرو بس حادثے کا شکار، سروس معطل کردی گئی
  • اظہارِ رائے کی آزادی کا مطلب جھوٹی خبریں پھیلانا نہیں، فیک نیوز پر کریک ڈاؤن ہوگا، وزیر داخلہ
  • مقبوضہ کشمیر میں مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائیاں تیز، مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق
  • 27ویں آئینیترمیم  پرا قوام  متحدہ  کو تشویش  بے جا‘ ہائی  کمشنر  کا بناں  زمینی  حقائق  کا عکاس  نہیں  : پاکستان  
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر انسانی حقوق کمشنر کا بیان زمینی حقائق کا عکاس نہیں‘ دفتر خارجہ
  • صنعا، عظیم الشان ملین مارچ، فلسطین اور لبنان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم
  • پاکستان میں آئینی ترامیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں: وولکر ترک
  • ہری پور ضمنی انتخابات کے حوالے سے بے بنیاد الزامات غیر ضروری اور حقائق کے منافی ہیں، الیکشن کمیشن
  • اللّٰہ کا شکر ہے کہ ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں: وزیراعظم آزاد کشمیر