مقبوضہ کشمیر میں مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائیاں تیز، مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
ذرائٰع کے مطابق بھارتی پولیس نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سرینگر میں نام نہاد دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے بہانے درجنوں مساجد اور مدارس میں گھس کر ان کا معائنہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض حکام نے مساجد اور مدارس سمیت مذہبی اداروں کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ذرائٰع کے مطابق بھارتی پولیس نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سرینگر میں نام نہاد دہشت گردی کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے بہانے درجنوں مساجد اور مدارس میں گھس کر ان کا معائنہ کیا۔چھاپوں کے دوران ڈیجیٹل آلات، دستاویزات اور دیگر مواد کا معائنہ کیا گیا۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات بنیاد پرستی سے نمٹنے اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ کارروائیاں کشمیریوں کے لیے ایک نئی تبدیلی کا اشارہ ہیں۔ مساجدکی کمیٹیوں اور مدرسوں کے بورڈز کو خدشہ ہے کہ یہ کارروائیاں اداروں پر جبری قبضے یا ان کو بند کرانے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں جس سے نہ صرف مذہبی آزادی بلکہ کمیونٹی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مقبوضہ علاقے میں حالات معمول کے مطابق ہونے اور جمہوری فضا قائم ہونے کے دعوئوں کے بالکل برعکس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات مذہبی اور شہری حقوق کے تحفظ کے بجائے مذہبی معاملات میں مداخلت کی عکاسی کرتے ہیں جہاں مذہبی اور شہری اداروں کو کمیونٹی کے اثاثوں کی بجائے سکیورٹی کے لئے خطرات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کشمیریوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائیوں کو بند نہ کیا گیا تو اسے مذہبی آزادی مزید سلب ہو گی، عبادات اور اجتماع کی آزادی ختم ہو گی اور بھارت کے خلاف لوگوں کی نفرت مزید بڑھ جائے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مساجد اور مدارس کے خلاف
پڑھیں:
نئی دہلی میں جامعہ ہمدرد اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے اشتراک سے دو روزہ قومی سیمینار
اجتماع میں ملک کی متعدد جامعات، مدارس اور تحقیقی اداروں سے آئے ہوئے ماہرین نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، معاشی محرومی، خواتین کی تعلیم، مدارس کی عصری ضروریات جیسے موضوعات پر مقالات پیش کئے۔ اسلام ٹائمز۔ نئی دہلی کے سینٹر فار ریسرچ آن مدرسہ ایجوکیشن، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ہمدرد اور اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے اشتراک سے "ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش تعلیمی و معاشی چیلنجز اور ان کا حل" کے عنوان پر دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد ہمدرد کنونشن سینٹر میں ہوا۔ سیمینار کے افتتاحی اجلاس کا آغاز بی اے سال دوم کے طالب علم اوصاف ایاز کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور صدارت کے فرائض کرنل طاہر مصطفی نے انجام دئے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کلیدی خطبہ اُن کی غیر موجودگی میں شمیم اختر قاسمی نے پیش کیا۔ کرنل طاہر مصطفی نے مسلمانان ہند کو درپیش تعلیمی و معاشی چیلنجز کا حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ جواب دینے پر زور دیا۔
دو دن جاری رہنے والے اس علمی اجتماع میں ملک کی متعدد جامعات، مدارس اور تحقیقی اداروں سے آئے ہوئے ماہرین نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، معاشی محرومی، خواتین کی تعلیم، مدارس کی عصری ضروریات، اسلامی مالیات، زکوٰۃ کے اجتماعی نظام اور سرکاری اسکیموں تک مسلمانوں کی رسائی جیسے موضوعات پر مقالات پیش کئے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر بصیر احمد خان (سابق پرو وائس چانسلر IGNOU) نے کی جبکہ سیمینار کی رپورٹ ڈاکٹر وارث مظہری (ڈائریکٹر سیمینار) نے پیش کی۔
سیمینار کی مختلف علمی نشستوں میں مقالہ نگاروں نے تعلیم اور معاش کے حوالے سے مسلمانوں کو درپیش چیلنجز پر بحث کرتے ہوئے اس پہلو پر زور دیا کہ اس حوالے سے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر چیلنجز درپیش ہیں، جن کے تدارک کے لئے مختلف سطحوں پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ مقررین نے کہا کہ موثر حکمت عملی اور منصوبہ بند اجتماعی کوششوں کے بغیر ان چیلنجز سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔ اختتامی کلمات صدر شعبہ ڈاکٹر ارشد حسین نے ادا کئے اور جنید خواجہ نے شکریہ ادا کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر نجم السحر نے انجام دئے۔