کیا گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال اسموگ کی شدت واقعی میں کم ہوگئی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
پنجاب میں رواں برس اسموگ پر قابو پانے کے لیے سرکاری سطح پر متعدد انتظامی اور تکنیکی اقدامات کیے گئے جن کے نتیجے میں فضائی آلودگی کی صورتحال میں کچھ بہتر ی رپورٹ ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق حکومت کے بڑے دعووں کی تصدیق شفاف مانیٹرنگ کے بغیر ممکن نہیں۔
ملکی سطح پر بھی فضائی آلودگی اور اسموگ کی صورتحال تشویشناک ہے، خصوصاً بڑے شہری مراکز جیسے لاہور، فیصل آباد، کراچی اور پشاور میں ایئر کوالٹی انڈیکس اکثر خطرناک سطحوں تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اسموگ کا خاتمہ، گرین اسٹیکر کے بغیر گاڑیاں سڑکوں پر نہیں چل سکیں گی
سندھ اور خیبر پختونخوا میں صنعتی اخراج، غیر معیاری ایندھن اور تیز رفتار شہری پھیلاؤ فضائی آلودگی کے بنیادی محرک ہیں، جبکہ بلوچستان میں نگرانی اور مانیٹرنگ کے نظام کی کمی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں یکساں قومی ماحولیاتی پالیسی، صوبوں کے درمیان مربوط کارروائی اور وفاقی سطح پر مضبوط ریگولیشن کے بغیر اسموگ کے مسئلے کو مستقل طور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتِ پنجاب کے مطابق اس سال فصلوں کی باقیات جلانے کی روک تھام کے لیے سخت مہم چلائی گئی، صنعتی اخراج کی مسلسل چیکنگ کی گئی، ٹریفک مینجمنٹ بہتر بنایا گیا اور انسپیکشن ٹیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب اسمبلی: اسموگ اور موسمی بیماریوں کے تدارک سے متعلق قرارداد منظور
حکام کا کہنا ہے کہ خاص طور پر کھیت جلانے کے واقعات میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں کمی ریکارڈ ہوئی ہے، جس سے اسموگ کی شدت کم کرنے میں مدد ملی۔ تاہم ماہرین اس حکومتی موقف سے مکمل اتفاق نہیں کرتے۔ کراچی اربن لیب کے ڈائریکٹر محمد توحید کے مطابق اگرچہ رواں برس کچھ اقدامات مؤثر ثابت ہوئے ہیں، لیکن اسموگ میں 60 سے 70 فیصد کمی جیسے بڑے دعوے زمینی حقیقت سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کئی مقامات پر ایئر مانیٹرنگ کا نظام شفاف نہیں رہا، کچھ اسٹیشن بند رہے اور کچھ اقدامات نے صرف وقتی یا مخصوص علاقوں میں بہتر ی دکھائی۔ البتہ کھیت جلانے میں کمی یقینی طور پر ایک مثبت تبدیلی ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم کی خرابی یا غیر فعال رہنے سے ڈیٹا کی درستگی متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے حکومتی رپورٹس اور اصل صورتحال میں فرق پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق زمینی سطح پر کچھ علاقوں میں بہتری ضرور دیکھی گئی، مگر یہ بہتری شہری ٹریفک کے بہاؤ میں وقتی بہتری، مخصوص دنوں میں صنعتی سرگرمیوں میں کمی یا موسمی حالات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر فضائی آلودگی کے بنیادی ذرائع جیسے بھاری ٹریفک، غیر منظم صنعتوں کا دھواں اور تعمیراتی سرگرمیوں کا گردوغبار پر مستقل اور نظامی سطح کی پابندیاں نافذ نہ کی جائیں تو ایسی بہتری دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب حکومت کا اسموگ سے نمٹنے کے لیے بڑا فیصلہ، مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیل
اسی حوالے سے ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر سائرہ ندیم نے بھی اسموگ کی صورتحال پر احتیاط برتنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سال بہتر ہوا ضرور ہے، لیکن یہ بہتری مکمل نظامی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ جزوی اقدامات کا اثر ہے۔ اگر صنعتی اخراج کے معیار پر سختی، شہری سطح پر بہتر ٹریفک پلاننگ اور ایئر کوالٹی ڈیٹا کی شفافیت یقینی نہ بنائی گئی تو یہ بہتری عارضی ثابت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں کئی صنعتوں پر اخراج کے معیار پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا، نگرانی کا عمل بھی اکثر کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے۔ ان کے مطابق ایک مربوط اور سائنسی بنیادوں پر قائم ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، ناقص ایندھن استعمال کرنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی، اور شہروں میں سبزہ بڑھانے جیسے اقدامات کے بغیر فضائی آلودگی میں حقیقی کمی ممکن نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: فضائی آلودگی دنیا میں قبل از وقت اموات کی دوسری بڑی وجہ، تحقیق
ڈاکٹر سائرہ ندیم کے مطابق مانیٹرنگ ڈیٹا کی شفافیت نہ صرف حکومت کے دعووں کی تصدیق کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ ماحولیاتی پالیسیوں کی سمت متعین کرنے میں بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
واضح رہے، ماہرین کے مطابق اسموگ جیسے دیرینہ مسئلے میں مستقل بہتری کے لیے صرف چند موسمی اقدامات کافی نہیں۔ شفاف ڈیٹا، دیرپا پالیسیاں، مؤثر صنعتی نگرانی اور شہروں کی طویل مدتی ماحولیاتی منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Smog اسموگ پنجاب فضائی آلودگی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسموگ فضائی آلودگی فضائی آلودگی کے مطابق اسموگ کی کے بغیر کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی کیساتھ جیل مینوئل کے مطابق سلوک ہو رہا ہے: ملک محمد احمد خان
لاہور(آئی این پی )سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ جیل قانون کے مطابق ہے،نواز ،شہباز شریف،آصف زرداری کیساتھ بھی یہی ہوا،قانون سازی کو مزید بہتر بنانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن مل کر کام کریں۔ ان خیالات کاظہار انہوں نے جمعہ کو میڈیا سے گفتگو میں کیا ۔ملک محمد احمد خان نے کہا کہ جیل مینوئل کے ساتھ کون ٹریٹ نہیں ہوا ان میں نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی شامل ہیں، اگر کوئی جیل کے باہر جا کر ہلڑ بازی کرے گا تو غلط ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ہماری لیڈرشپ کے ساتھ بھی جیل مینوئل کے مطابق سلوک ہوا، پی ٹی آئی نے ملکی اثاثوں اور املاک کو جلایا اور آج کہتی ہے کہ سیاسی حالات بہت مشکل ہیں، گزشتہ حکومت کیلئے بھی سیاسی حالات مشکل بنا دئیے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایسے جرائم ہیں کہ آپ (پی ٹی آئی) نے شہدا کے مجسمے اور ریڈیو پاکستان کو جلایا، میں ایسے کام کروں گا تو مجرم ہوں گا اور کوئی اور کرے گا تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا؟۔ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی کارکردگی نمایاں رہی ہے، کارروائی میں حکومتی ارکان نے بھرپور حصہ لیا، حکومت اور اپوزیشن دونوں نے قانون سازی کے عمل میں بھرپور حصہ لیا، عوامی مسائل پرموثر قانون سازی ہماری ذمہ داری ہے، اپوزیشن کا کردار بھی لائق تحسین ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کہے گی کہ اسمبلی کو چلنے نہیں دیں گے تو کیوں نہیں چلنے دیں گے؟ اسمبلی کو جھگڑے کا اکھاڑا بنایا جائے گا تو کیسے چلے گا؟ ایوان کے اندر آ کر اگر کسی نے زیادتی کی تو میں روکوں گا، ہم نے یہاں پر ایوان میں مارشل لا بھی دیکھے ہیں۔ملک محمد احمد خان نے کہا کہ اپوزیشن کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی، درخواست ہے کہ ان اسمبلیوں کو گالی اور احتجاج کا مرکز نہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا مرکز ہے اسے مضبوط کرنا ہوگا، اپوزیشن اور حکومت کو مکالمے کا راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے، پارلیمانی روایات کا احترام سب پر لازم ہے، اپوزیشن ممبرز بھی نظام کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ صاف ستھرا پنجاب اپنی نوعیت کا بڑا پروگرام ہے، ماربل فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی اموات زیادہ ہوتی تھیں، جب ماربل کو کاٹا جاتا تھا تو اس کی دھول سے مہلک بیماری ہوتی تھیں، اس مسئلے کا حل بھی پنجاب اسمبلی میں نکالا گیا۔