دنیا بھر میں آج ایڈز کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، ایک ایسا دن جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں، خاموشی اور خوف کو ختم کرنا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو اس بیماری سے نمٹنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔

اس مسئلے کی سنگینی صرف عالمی سطح تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں بھی صورتحال تشویش ناک ہے جہاں ایچ آئی وی کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جس کی خاص وجہ آگاہی کی کمی، ٹیسٹ کروانے سے گریز اور سماجی بدنامی ہے۔

میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر نوید اقبال اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”دنیا میں ہر سال لاکھوں افراد ایچ آئی وی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بروقت تشخیص اور مستقل علاج کے ذریعے اس وائرس کو مکمل کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔“

سوشل ورکر راؤ ریاض احمد اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”یہ عوامل نہ صرف علاج میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں بلکہ متاثرہ افراد کو معاشرتی طور پر تنہا بھی کر دیتے ہیں۔“

یہی وجہ ہے کہ ماہرین بارہا اس ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں کہ “ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد بیماری سے زیادہ معاشرتی رویّوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر مدثر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”سماجی تعصب، غلط اطلاعات اور نفسیاتی دباؤ اس بیماری کے خلاف جنگ کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔“

تاہم اس سب کے باوجود امید کی کرن موجود ہے، کیونکہ جدید دور میں علاج کے طریقوں اور ادویات نے بہت ترقی کی ہے۔ آج ”جدید ادویات اور مناسب نگہداشت کے ذریعے ایچ آئی وی پازیٹِو افراد مکمل صحت مند اور فعال زندگی گزار رہے ہیں۔“ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ بروقت تشخیص، درست معلومات اور سماجی تعاون سے اس بیماری کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایڈز جیسے موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف بیماری کو روکتا ہے بلکہ ایک صحت مند اور باشعور معاشرے کی تشکیل میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اہم ترین بات یہ ہے کہ ایڈز جیسے موذی مرض سے بچاؤ کے لیے آگاہی کا ہونا سب سے اہم اور ضروری ہے۔ مکمل معلومات، علاج اور مؤثر پالیسی ہی وبا کا رُخ موڑ سکتی ہے۔

ایڈز دراصل ایچ آئی وی وائرس کے حملے کا وہ آخری مرحلہ ہے جب جسم کا مدافعتی نظام اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ معمولی جراثیم بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس وائرس کا ابھی تک مکمل علاج دریافت نہیں ہو سکا، لیکن طاقتور ادویات اور باقاعدہ معائنوں کے ذریعے مریض برسوں تک صحت مند اور فعال زندگی گزار سکتے ہیں، یہی وہ حقیقت ہے جس سے اکثر لوگ ناواقف رہتے ہیں۔

خوف اس لیے بڑھ جاتا ہے کہ ایچ آئی وی کا نام سنتے ہی ذہن میں موت، گناہ اور سماجی بوجھ جیسے الفاظ ابھرتے ہیں، حالانکہ طبّی نقطۂ نظر سے یہ ایک وائرس ہے جسے دوسرے امراض کی طرح سائنسی اصولوں کے تحت سمجھ کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ غلط فہمیوں کی وجہ سے مریض بیماری سے کم اور معاشرے کے رویّوں سے زیادہ زخمی ہوتے ہیں، اسی لیے عالمی دن کا سب سے اہم پیغام ’’انسان کو نہیں، وائرس کو مسترد کیجیے‘‘ ہے۔

ایچ آئی وی کیسے پھیلتا ہے؟

ایچ آئی وی عموماً چار راستوں سے منتقل ہوتا ہے، غیر محفوظ جنسی تعلق، متاثرہ خون، آلودہ سرنج یا کسی ٹول کے استعمال سے، اور اگر علاج نہ ہو تو دوران حمل ماں سے بچے کو یا دودھ پلانے کے دوران یہ وائرس ٹرانسفر ہوسکتے ہیں۔

یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ وائرس ہاتھ ملانے، ساتھ کھانا کھانے، بغل گیر ہونے، بیت الخلا یا مشترکہ ٹوائلٹ کے استعمال کرنے، یا ہوا کے ذریعے ہرگز نہیں پھیلتا، لیکن بدقسمتی سے آج بھی بہت سے معاشروں میں یہی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور مضبوط عقائد کی طرح مانی جاتی ہیں۔

درست معلومات کی کمی کی وجہ سے بعض خاندان اپنے ہی مریض فرد کو بستر، برتن اور کمرا الگ رکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں، حالانکہ روزمرہ میل جول سے وائرس منتقل نہیں ہوتا۔ ایسے رویّے نہ صرف انسانی احترام کے منافی ہیں بلکہ مریض کو علاج سے دور اور ڈپریشن کے قریب لے جاتے ہیں۔

روک تھام: ذمہ داری اور اختیار

ایڈز سے بچاؤ کا سب سے پہلا قدم محتاط اور محفوظ رویّہ اختیار کرنا ہے۔ اس میں محفوظ اور رضامند جنسی تعلق رکھنا، کنڈوم کا صحیح استعمال اور ایک سے زیادہ شریکِ حیات رکھنے سے گریز کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ہر وہ شخص جو اس خطرے میں ہو سکتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ وقت پر خون کا ٹیسٹ کروائے، مشاورت لے اور اگر ضرورت ہو تو باقاعدہ علاج بھی شروع کرے۔ یہ اقدامات اپنی اور اپنے شریکِ حیات کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہیں۔

طبی مراکز میں خون کی سکریننگ، سرنج اور آلات کو مکمل جراثیم کش بنانا، انجیکشن لگانے اور جسم پر کَٹ لگانے جیسے، ٹیٹو، کان ناک چھیدنا وغیرہ جیسے عمل میں صاف اور نئی سوئیوں کا استعمال بنیادی اصول ہیں۔ کم آمدنی والے ممالک میں وسائل کی کمی، ادویات کی قلت اور ٹیسٹ سہولیات کی عدم دستیابی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کو بڑھا دیتی ہے، اس لیے عالمی ادارے مسلسل مالی اور تکنیکی مدد میں اضافے پر زور دے رہے ہیں۔

علاج، امید اور نئی پیش رفت

اگرچہ ایچ آئی وی کا مکمل خاتمہ فی الحال موجود نہیں، مگر اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کے باقاعدہ استعمال سے وائرس کو اس حد تک دبایا جا سکتا ہے کہ خون میں اس کا لیول نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ اس مرحلے پر نہ صرف مریض کی صحت بہتر ہو جاتی ہے بلکہ سائنسی شواہد بتاتے ہیں کہ وائرس کا دوسروں تک منتقل ہونے کا امکان بھی نہایت کم ہو جاتا ہے، جسے سادہ الفاظ میں ’’علاج ہی بچاؤ بھی ہے‘‘ کہا جا سکتا ہے۔

نئی تحقیق طویل اثر رکھنے والی ادویات، انجیکشن پر مبنی کورسز اور ایسے تحفظاتی طریقوں پر کام کر رہی ہے جو خاص طور پر نوجوانوں اور کمزور طبقات کے لیے زیادہ کارآمد ہوں۔

معاشرتی رویّے، خاموشی اور حقوقِ انسان

ایچ آئی وی کے ساتھ جینے والوں کے لیے سب سے بڑا بوجھ اکثر ان کے جسم کے اندر نہیں بلکہ معاشرے کے رویّوں میں چھپا ہوتا ہے۔ روزگار سے محرومی، علاج کے دوران بدسلوکی، خاندان کا رویہ، اور میڈیا میں سنسنی خیز انداز میں پیش کرنا جیسے عوامل مریض کو بار بار یہی پیغام دیتے ہیں کہ اس کی شناخت ایک انسان کے بجائے محض ایک وائرس سے جڑی ہوئی ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔

متعدد ممالک میں ہم جنس تعلقات، منشیات استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین اور نفرت کی فضا متاثرہ شخص کو زیرِ زمین دھکیل دیتی ہے، نتیجتاً وہ حفاظتی معلومات اور علاج سے دور رہتے ہیں اور بیماری تیزی سے پھیلتی ہے۔

انسانی حقوق کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک قانون اور سماجی لہجہ دونوں سطحوں پر امتیاز کم نہیں ہو گا، صرف طبی عمل کافی نہیں ہوگا۔

ایڈز کا عالمی دن 1988 سے ہر سال یکم دسمبر کو اس لیے منایا جا رہا ہے کہ دنیا کو یاد رہے کہ یہ وبا کسی ایک ملک، نسل یا طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ مشترکہ انسانی چیلنج ہے۔ ہر سال کا موضوع حکومتوں، ماہرینِ صحت اور شہریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ پچھلے برس کے دوران ہم نے کہاں پیش رفت کی اور کہاں لاپرواہی، نفرت، اجتناب یا خاموشی نے نقصان بڑھایا۔

2025 کے لیے ’’رکاوٹوں کو دور کرنا‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں، ایک عملی قدم بھی ہے۔ درست معلومات عام کرنا، سستے ٹیسٹ اور علاج کی فراہمی، کمزور طبقوں کے حقوق کا تحفظ، اور ہر سطح پر یہ تسلیم کرنا کہ ایچ آئی وی کے ساتھ جینے والا فرد سب سے پہلے ایک باعزت انسان ہے۔ اگر ہم معاشرے کے خوف کو سائنسی شعور، تعصب کو ہمدردی اور خاموشی کو مکالمے سے بدل دیں تو ممکن ہے آنے والی نسلیں ایڈز کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں، روزمرہ زندگی میں نہ جھیلیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کہتے ہیں کہ جا سکتا ہے ایچ آئی اور سماجی معاشرے کے ہیں بلکہ دیتے ہیں عالمی دن سے زیادہ کے ذریعے کے خلاف نہیں ہو کے لیے

پڑھیں:

زمین پر قبضہ کا معاملہ مجرم کی موت اور سزا سے ختم نہیں ہوتا، عدالت عظمیٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251201-01-13
اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس احسن اشتیاق ابراہیم نے 3 رکنی بینچ کی جانب سے فیصلہ تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ زمین پر قبضے کا تنازع ملزمان کی موت سے ختم نہیں ہوتا، پشاور ہائیکورٹ اس معاملے کا قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کرے۔ زمین پر غیر قانونی قبضہ ایک ایسا معاملہ ہے جو مجرمانہ سزا کے ساتھ ختم نہیں ہوتا کیونکہ اس کے سول نتائج جاری رہتے ہیں۔ اس لیے ملزم کی موت کے بعد بھی قبضہ بحال کرنے کی اپیل قابل سماعت ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 21 مارچ 2022 کو پشاور ہائیکورٹ کے ایبٹ آباد بینچ کے فیصلے کو جزوی طور پر ایک طرف رکھ دیا، اور متنازع اراضی پر قبضے کی بحالی کے سوال کی نئے سرے سے جانچ کا حکم دیا۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ 2005 کا ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو زمین مالکان کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک موثر طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ایڈز سے بچاؤ کا عالمی دن، صحت کی سہولیات ہر شہری تک پہنچائیں گے: وزیراعظم
  • ایڈز فری پاکستان کے لیے متحد ہونا ہوگا، ایڈز کے عالمی دن پر وزیراعظم شہباز شریف کا پیغام
  • اسلامی معاشرے کی تشکیل میں منبر کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، مولانا طارق جمیل
  • زمین پر قبضہ کا معاملہ مجرم کی موت اور سزا سے ختم نہیں ہوتا، عدالت عظمیٰ
  • عوامی صحت کیلیے ایڈز جیسے بڑے خطروں کا خاتمہ کرینگے، وزیراعظم
  • عالمی ادارہ صحت نے بانجھ پن پر پہلی عالمی ہدایات جاری کر دیں
  • دنیا بھر میں خسرہ سے اموات میں 88 فیصد کمی، مگر وائرس اب بھی خطرناک
  • وہ خطے جہاں خلائی اجسام گرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے
  • چولستان،اونٹوں میں پاسٹوریلا ملٹوسیڈا نامی وائرس کی تصدیق، فرانزک رپورٹ