اسلام آباد ہائیکورٹ میں متنازع ٹویٹس کیس کی سماعت، شفاف ٹرائل پر وکلا کے تحفظات
اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کی ٹرائل کورٹ کے آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس اعظم خان نے کیس کی کارروائی کی، جبکہ ایمان مزاری، ہادی علی چٹھہ، ممبران اسلام آباد بار کونسل راجا علیم عباسی، ظفر کھوکھر اور متعدد وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران ریاست علی آزاد نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹرائل شفاف طریقے سے نہیں چل رہا اور گواہوں کے بیانات ملزمان کی غیر موجودگی میں ریکارڈ کیے گئے، جو منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ فئیر ٹرائل کا حق نہیں دے رہی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 24 نومبر کو کیا کارروائی ہوئی؟ جس پر ہادی علی چٹھہ نے بتایا کہ انہوں نے درخواست دی تھی کہ گواہوں کے بیانات ملزمان کی موجودگی میں ریکارڈ کیے جائیں لیکن درخواست مسترد کر دی گئی۔
وکلا نے مؤقف اپنایا کہ ایک روزہ استثنا کی صورت میں ٹرائل آگے نہیں بڑھ سکتا، جبکہ مستقل استثنا میں پلیڈر کی حاضری کے ساتھ کارروائی جاری رہ سکتی ہے۔ اس پر جسٹس اعظم خان نے کہا کہ وکلا قانون سے بتائیں کہ ایک دن کی استثنا میں ٹرائل کیوں نہیں چل سکتا۔
درخواست گزار وکلا نے ٹرائل کورٹ کی کارروائی روکنے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے کہا کہ معاملہ دیکھ لیا جائے گا اور اس حوالے سے آرڈر جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے متنازع ٹویٹ کیس میں ہادی علی چٹھہ کی بریت کی درخواست مسترد
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے معروف وکیل ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف متنازع ٹویٹ کیس میں ہادی علی چٹھہ کی بریت کی درخواست مسترد کر دی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ احکامات جاری کیے۔ کیس کے سلسلے میں استغاثہ نے تمام گواہان پر جرح مکمل کر لی ہے اور معاملہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
عدالت نے اسٹیٹ کونسل کو 342 کا سوال نامہ فراہم کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اگر ملزمان جواب نہ دیں تو ان کے جواب دینے کے لیے استغاثہ خود ذمہ دار ہوگا۔
عدالت نے استغاثہ کو ہدایت کی کہ وہ 4 دسمبر تک 342 کا سوال نامہ جمع کروائے، اور اسی بنیاد پر کیس کی اگلی سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
یہ کیس اس وقت اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ دونوں فریقین کے دلائل اور استغاثہ کے ثبوت آخری مراحل میں ہیں، اور آئندہ سماعت میں فیصلہ کا امکان ہے۔