سپریم جوڈیشل کونسل آج اپنے اجلاس میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کے ساتھ ساتھ اِسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف شکایت کا بھی جائزہ لے گی۔

30 ستمبر کو جسٹس جہانگیری کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے رُکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ 18 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل اپنے اجلاس میں ججوں کے خلاف شکایات کا جائزہ لے گا۔

16 ستمبر کو اِسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رُکنی بینچ نے ایک عبوری حکمنامے کے ذریعے چیف جسٹس، سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں ایڈووکیٹ میاں داؤد کی درخواست پر اِسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کا فیصلہ معطل کردیا

جسٹس جہانگیری پر اِلزام تھا کہ اُنہوں نے اپنی قانون کی ڈِگری درست طریقے سے حاصل نہیں کی۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جب یہ حکمنامہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو 30 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رُکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں اِسلام آباد ہائیکورٹ کا حکمنامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے جسٹس جہانگیری کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اِس حکمنامے کی بنیاد سپریم کورٹ کا ایک پرانا حکمنامہ تھا جس کے مطابق کوئی جج کسی دوسرے جج کیخلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔

سپریم جوڈیشل کونسل

ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل آج جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست پر سماعت کرے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کا احتساب کرتا ہے اور ججوں کے خلاف شکایات کا یہ واحد فورم ہے۔

مزید پڑھیں: کیسے طے کرلیا گیا کہ جسٹس طارق محمود کی ڈگری جعلی ہے؟ ڈاکٹر ریاض نے سوالات اٹھا دیے

جس میں طریقۂ کار کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل اگر کسی جج کو مِس کنڈکٹ کا مرتکب پائے تو وہ صدر پاکستان کو اُن کو ہٹانے کی سفارش کرتی ہے جیسا کہ گزشتہ برس مارچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کیا گیا اور اُن کو اپنے عہدے سے ہٹایا گیا۔

آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل جو چیف جسٹس اور سینیئر ججز پر مشتمل ہوتی ہے، ججوں کو صرف یہی ادارہ ہٹا سکتا ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری پر کیا الزام ہے؟

جسٹس طارق محمود جہانگیری پر الزام ہے کہ اُنہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری اَن فیئر مینز یعنی غیر منصفانہ طریقے سے حاصل کی تھی، 16 ستمبر کو اِسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رُکنی بینچ نے اُنہیں ایک عبوری حکمنامے کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک کام سے روک دیا تھ۔

دوسری جانب 27 ستمبر کو کراچی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے اُن کی ڈگری غلط قرار دیتے ہوئے منسوخ کردی تھی، لیکن سندھ ہائیکورٹ کے بینچ نے 3 اکتوبر کو کراچی یونیورسٹی کا فیصلہ منسوخ کردیا جبکہ اِس فیصلے سے قبل 30 ستمبر کو سپریم کورٹ جسٹس جہانگیری کو بحال کر چکی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ اسلام آباد ہائیکورٹ ایل ایل بی جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس طارق محمود جہانگیری چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کراچی یونیورسٹی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ ایل ایل بی جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس طارق محمود جہانگیری چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ کراچی یونیورسٹی جسٹس طارق محمود جہانگیری ا سلام ا باد ہائیکورٹ کے سپریم جوڈیشل کونسل ا کراچی یونیورسٹی جسٹس جہانگیری سپریم کورٹ ستمبر کو کورٹ کے کے خلاف کی ڈگری

پڑھیں:

متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی، جسٹس مسرت

اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے چیف جسٹس سمیت متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے آرٹیکل 191 اے جوڈیشل کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آئینی بینچز کیلیے ججز نامزد کرے۔ 

جوڈیشل کمیشن پر یہ پابندی تو نہیں ہے اس نے کس جج کو نامزد کرنا ہے کسے نہیں،  8 رکنی بنچ جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ فل کورٹ بنائے۔ 

جسٹس امین الدین خان نے کہا اگر جوڈیشل کمیشن ایک جج کو آئینی بنچ کیلئے نامزد نہیں کرتا تو کیا ہم اسے شامل کرنے کیلئے آرڈر دے سکتے ہیں؟  جوڈیشل کمیشن کی کارروائی اسکا اندرونی معاملہ ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے اور جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے عابد زبیری سے کہا آپ فل کورٹ نہیں مانگ رہے، آپ تو کہہ رہے ہیں 16 ججز چاہئیں، فرض کریں جوڈیشل کمیشن کہہ دے ہمیں آئینی بنچز کیلئے  4 ججز کی ضرورت نہیں تو کیا وہ جج سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر جوڈیشل کمیشن کسی جج کو نامزد نہیں کرتا تو کیا سپریم کورٹ آئینی ذمہ داری ادا نہیں کرے گی؟

جسٹس محمد علی مظہر نے عابد زبیری سے کہا جسٹس عائشہ ملک کی آبزرویشن کے بعد آپ نے تو اپنے دلائل ہی تبدیل کردیے، پہلے آپکی دلیل تھی سپریم کورٹ کا یہ بنچ 8 ججوں کو شامل کرنے کیلئے جوڈیشل آرڈر کرے،اب آپ کہہ رہے ہیں جوڈیشل کمیشن کو ہدایت دی جائے۔

عابد زبیری نے کہا میری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل آرڈر کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ٹھیک ہے پھر تو جوڈیشل کمیشن والی بات ہی ختم ہو گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آئینی بنچز کی تشکیل کا معاملہ تو ججز آئینی کمیٹی اکثریت سے طے کرتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا چیف جسٹس پاکستان جب آئینی بنچ کیلئے نامزد نہیں ہیں تو انھیں معاملہ کیسے بھیجا جاسکتا ہے؟ 

جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر عدالت حکم نہیں دے سکتی پھر تو فل کورٹ بیٹھ ہی نہیں سکتی ،کمیشن اگر صرف پانچ ججز کو کہہ دے تو صرف پانچ ججز ہی بیٹھیں گے ۔عابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس ہفتہ کو طلب
  • اعلیٰ عدلیہ کے ضابطۂ اخلاق پر سپریم جوڈیشل کونسل میں اہم مشاورت متوقع
  • سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہفتہ کو طلب کر لیا گیا،چیف جسٹس صدارت کریں گے
  • جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کے کیس کی سماعت کرنے والا ڈویژن بینچ تبدیل
  • جسٹس  طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کے کیس کی سماعت کرنے والا ڈویژن بینچ تبدیل
  • جسٹس طارق محمود کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ تبدیل
  • جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کرنیوالا بنچ تبدیل
  • متاثرہ ججز نکال دیں تو بات پھر جسٹس امین الدین کے پاس آئے گی، جسٹس مسرت
  • 26ویں ترمیم؛ کیا جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟ جسٹس عائشہ ملک کے سخت سوالات