اسرائیل کے ہاتھوں غزہ جنگبندی معاہدے کی بار بار کی خلاف ورزیوں پر ایران کیجانب سے شدید مذمت
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بے گھر فلسطینی خاندان پر اپنی رہائشگاہ واپسی کے دوران حالیہ اسرائیلی حملے نیز رفح کراسنگ کو کھولنے سے متعلق عہد و پیمان کو پورا کرنے سے اسرائیل کے انکار سمیت قابض صیہونی رژیم کیجانب سے غزہ جنگبندی معاہدے کی بار بار کی خلاف ورزیوں کی بھی شدید مذمت کی ہے اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے قابض و سفاک صیہونی رژیم کے ہاتھوں غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی ایک مرتبہ پھر شدید مذمت کی ہے۔ اس بارے جاری ہونے والے بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمعیل بقائی نے ایک بے گھر فلسطینی خاندان کے، اپنی رہائش گاہ واپسی کے دوران اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کہ جس کے نتیجے میں 2 خواتین اور 7 بچوں سمیت 11 افراد شہید ہوئے ہیں، سمیت غزہ کی پٹی میں جنگ بندی سے متعلق معاہدے کی اسرائیل کی جانب سے بار بار کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب ہونے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قابض و سفاک صیہونی رژیم نے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے پر مبنی اپنے وعدے کو پورا کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، اسمعیل بقائی نے عہد و پیمان اور جنگ بندی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی جعلی اسرائیلی رژیم کی سیاہ تاریخ کا حوالہ دیا اور اس حوالے سے ضامن ممالک کی براہ راست ذمہ داری پر تاکید کی۔ انہوں نے عالمی برادری کی جانب سے قابض صیہونی رژیم کو کھلے جنگی جرائم روکنے، غزہ سے انخلاء اور غزہ کے عوام تک خوراک و ضروری سامان پہنچانے پر مجبور کرنے نیز مجرموں کو مزید جرائم کے ارتکاب سے روکنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی رژیم خلاف ورزیوں معاہدے کی
پڑھیں:
ایران: جوہری معاہدہ ختم، اب کسی پابندی کے پابند نہیں
ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب 2015 کے جوہری معاہدے کی کسی پابندی کا پابند نہیں رہا، کیونکہ معاہدے کی 10 سالہ مدت 18 اکتوبر 2025 کو ختم ہو چکی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے مطابق، معاہدے کی تمام شقیں، بشمول یورینیم افزودگی اور دیگر جوہری سرگرمیوں پر لگائی گئی حدود، اب غیر مؤثر ہو چکی ہیں۔
یہ تاریخی معاہدہ ایران اور عالمی طاقتوں (امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین) کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے پابندیوں میں نرمی حاصل کی تھی۔ تاہم 2018 میں امریکا کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد یہ معاہدہ بتدریج کمزور ہوتا گیا۔
حالیہ مہینوں میں اقوامِ متحدہ کی بعض پابندیاں دوبارہ نافذ کی گئیں، جنہیں ایران نے مسترد کر دیا ہے۔ تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور شہری مقاصد کے لیے ہے، جبکہ مغربی طاقتیں اسے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش سمجھتی ہیں۔
ایران نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے اس کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے گئے، جن پر عالمی اداروں نے کوئی مؤثر ردعمل نہیں دیا، جس کے باعث وہ اب آئی اے ای اے (بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی) سے تعاون محدود کر رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو خط میں کہا کہ معاہدے کی مدت مکمل ہو چکی ہے، لہٰذا نئی پابندیاں اب بے معنی ہیں۔ ایران نے ایک بار پھر سفارتکاری سے وابستگی کا اظہار کیا ہے، مگر یورپی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایران دوبارہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے۔