شامی صدر نے روس سے بشارالاسد کی حوالگی کا مطالبہ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شامی وزارتِ خارجہ میں شعبہ روس و مشرقی یورپ کے نائب ڈائریکٹر اشہد صلیبی نے کہا ہے کہ صدر احمد الشرع نے روسی ہم منصب پیوٹن سے ملاقات کے دوران مفرور بشار الاسد کی حوالگی کا واضح مطالبہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس نے شام میں عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے واضح سمجھ بوجھ اور مثبت رویہ ظاہر کیا ہے۔صدر الشرع کا روس کا یہ دورہ تمام ممالک کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کی بحالی کے عزم کی توثیق کے لیے تھا۔ شام اب اپنی خارجہ پالیسی کی ازسرِنو تشکیل کی طرف جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے قومی مفادات کے مطابق ہو۔ انہوں نے کہا کہ دمشق دنیا کے تمام ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ نئی سیاسی قیادت روس کے معاملے میں شفاف طرزِ عمل اپنانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور شامی عوام کو تمام پیش رفتوں سے باخبر رکھنے پر زور دے رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں دمشق اور ماسکو کے درمیان ہونے والے تمام معاہدوں کو ازسرِنو مرتب کیا جائے گا تاکہ وہ شامی عوام کے اعلیٰ ترین مفاد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے بتایا کہ فریقین کے درمیان مذاکرات میں مطلوب افراد اور زیرِ التوا معاملات کے لیے نئی قانونی فریم ورک کی تیاری، اور بین الاقوامی سطح پر شام کے موقف کی حمایت شامل تھی۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں ماسکو کے ساتھ رابطہ اور ہم آہنگی جاری رہے گی تاکہ شام کا بین الاقوامی کردار مضبوط ہو اور اس کے تزویراتی مفادات کو تقویت ملے۔ یاد رہے کہ صدر احمد الشرع بدھ کے روز روسی دارالحکومت ماسکو پہنچے تھے، جہاں انہوں نے صدر پیوٹن سے دوطرفہ تعلقات، علاقائی و عالمی پیش رفت، سیاسی و اقتصادی تعاون، اور شام کی تعمیر نو سے متعلق معاملات پر گفتگو کی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر نے سنگین الزامات پر خود کو حکام کے حوالے کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اور بعد ازاں ان کے سخت ناقد بننے والے جان بولٹن نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزامات میں خود کو حکام کے حوالے کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جان بولٹن پر جمعرات کو فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ وہ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے تیسرے نمایاں ناقد ہیں جنہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے یہ اقدامات وفاقی اداروں کی غیرجانبداری سے جڑی دہائیوں پرانی روایات سے انحراف تصور کیے جا رہے ہیں۔
جان بولٹن جب گرین بیلٹ، میری لینڈ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پہنچے تو انہوں نے صحافیوں سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عینی شاہدین کے مطابق انہیں امریکی مارشل سروس کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا گیا، جہاں انہوں نے باضابطہ طور پر خود کو حکام کے حوالے کیا۔
استغاثہ کے مطابق بولٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی تیاری کے دوران دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حساس معلومات شیئر کیں۔ ان معلومات میں انٹیلی جنس بریفنگ کے نوٹس اور اعلیٰ سرکاری و غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات شامل تھیں۔
بولٹن نے اپنے بیان میں کہا ’’میں اپنے قانونی طرزِ عمل کا دفاع کرنے اور ٹرمپ کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔‘‘
بولٹن کے وکیل ایبی لوول نے مؤقف اختیار کیا کہ بولٹن نے کوئی بھی معلومات غیر قانونی طور پر شیئر یا محفوظ نہیں کیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بارہا کہا تھا کہ وہ اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران ہونے والی قانونی تحقیقات کا بدلہ لیں گے۔
انہوں نے اپنی اٹارنی جنرل پام بونڈی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کریں، جن میں سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور نیو یارک اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز شامل تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک پراسیکیوٹر کو بھی برطرف کر دیا جس پر وہ ’’سست روی‘‘ کا الزام لگاتے تھے۔
جان بولٹن، جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں، بعد میں ان کے سخت مخالف بن گئے۔ اپنی یادداشتوں میں بولٹن نے ٹرمپ کو ’’صدر بننے کے ناقابل شخص‘‘ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ جان بولٹن کے خلاف 2022 میں تحقیقات شروع ہوئیں، جو ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے کی بات ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انصاف کے اندر یہ کیس کافی مضبوط سمجھا جا رہا ہے۔
فردِ جرم میں بولٹن پر آٹھ الزامات قومی دفاعی معلومات کے غلط استعمال اور دس الزامات ان کے غیر قانونی تحفظ سے متعلق لگائے گئے ہیں، جو سب جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر الزام پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ عدالت یہ فیصلہ مختلف قانونی عوامل کی بنیاد پر کرے گی۔
استغاثہ کے مطابق بولٹن اور ان کے دو رشتہ داروں، جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، کے درمیان چیٹس میں اس بات پر گفتگو ہوئی کہ کتاب میں کس معلومات کا استعمال کیا جائے۔ بولٹن نے انہیں اپنے ’’ایڈیٹرز‘‘ قرار دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رشتہ دار بولٹن کی بیوی اور بیٹی ہیں۔
جب وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے اس مقدمے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ ’’وہ ایک برا شخص ہے۔‘‘