WE News:
2025-10-19@05:42:53 GMT

’منہ میرا نہیں، بال ٹھاکرے کا بند کرواؤ‘

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

انڈیا کی ممتاز اداکارہ شبانہ اعظمی نے 18 ستمبر کو زندگی کے 75 برس پورے کر لیے ہیں۔ اس مناسبت سے بپا جشنِ رامش کی ویڈیو میں پرانی و نئی حسیناؤں کو ناچتے گاتے دیکھ کر والٹ وٹمن کے مجموعے ’گھاس کی پتیاں‘ میں شامل نظم ‘خوبصورت عورتیں’ کا خیال آیا جسے معروف شاعر قیوم نظر نے اردو میں منتقل کیا تھا:

WOMEN sit or move to and fro—some old, some young;

The young are beautiful—but the old are more beautiful than the young.

عورتیں بیٹھی ہیں یا محو خرام ناز ہیں، کچھ ڈھلتا سایہ ہیں تو کچھ اٹھتی بہار

خوب صورت ہیں بہت اٹھتی بہاریں، لیکن ان سے خوب تر ہے ڈھلتے سایوں کا نکھار

شبانہ اعظمی کی 75ویں سالگرہ سے اس نظم کے بعد مجھے ان کی والدہ اور تھیٹر اور فلم کی معروف اداکارہ شوکت کیفی کی کتاب ’یاد کی رہ گزر‘ کا خیال آیا جس میں شبانہ کی پیدائش سے پہلے کی عجب صورتِ حال کا بیان شامل ہے۔ ماں کی ممتا آڑے آئی نہیں تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کسی اور ہی خیال میں تھی۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ شبانہ کے والد اور معروف شاعر کیفی اعظمی کمیونسٹ پارٹی کے ہول ٹائمر تھے اور ان دنوں انڈر گراؤنڈ تھے۔ شوکت کے پاس وسیلہ روزگار نہیں تھا، اس لیے کمیونسٹ پارٹی نے انہیں ابارشن کروانے کا حکم صادر کیا کیونکہ اس کے خیال میں ان حالات میں بچے کی ذمہ داری اٹھانا ممکن نہیں تھا۔ شوکت کیفی کا پہلا بچہ خیام ایک سال کی عمر میں چل بسا تھا، اس لیے وہ ننھے مہمان کے دنیا میں آنے کی مشتاق تھیں سو انہیں پارٹی کے فیصلے سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس مسئلے پر پارٹی میٹنگ میں انہوں نے صاف صاف کہہ دیا: ‘یہ بچہ مجھے چاہیے اور جیسے بھی ہو میں اسے پالوں گی۔ مجھ سے بہت کچھ کہا گیا لیکن میں اپنی جگہ اڑ گئی تھی۔ اس میٹنگ میں صرف ہمارے دوست مہدی نے میرا ساتھ دیا۔ آخر پارٹی نے مجھے یہ بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی۔‘

پارٹی نے بڑی مہربانی کی جو یہ اجازت مرحمت فرمائی نہیں تو ہندی سنیما ایک عظیم فنکار سے محروم رہ جاتا، شوکت کیفی نے ننھی شبانہ کے بارے میں دیکھیں کس اسلوب میں لکھا ہے:

’رات کے پونے تین بجے شبانہ صاحبہ تشریف لے آئیں۔ اماں جان، کیفی، چھوٹی آپا وغیرہ سبھی موجود تھے۔ اماں جان نے چاول گیہوں تولنے والے ترازو میں شبانہ کو رکھ کر تولا۔ پونے آٹھ پونڈ کی تندرست پیاری بچی۔ باگو نے نہلا دھلا کر، کپڑے میں لپیٹ کر مجھے دکھایا، میں نے دیکھا، ایک پیاری سی بچی، بڑی بڑی آنکھیں، ننھا سا گلابی دہانہ، سر میں گھنے کالے بال، تندرست، گورا رنگ۔ خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اماں جان نے باگو کو کچھ روپے اور ایک ساڑی دی۔’

فنکار کی حیثیت سے شبانہ اعظمی کی عظمت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن ‘یاد کی رہ گزر’ سے زندگی کے مختلف مراحل میں ان کی شخصیت کے بعض وہ پہلو منور ہوتے ہیں جو غالباً ان کے زیادہ تر چاہنے والوں کی نظر سے اوجھل رہے ہوں گے۔ ماں سے بڑھ کر معتبر راوی اور کون ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم ان کے بیانیے سے بیٹی کو جاننے کی کوشش کریں گے اور اس کے بعد باپ بیٹی کے رشتے پر بات ہوگی کیوں کہ اس کے بغیر شبانہ کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی لیکن اس سب سے پہلے ہم نے عصمت چغتائی کی انسان دوستی کا تذکرہ کرنا ہے۔

شوکت کیفی نے لکھا ہے کہ شبانہ کی پیدائش کے بعد کڑے وقت میں عصمت کے شوہر شاہد لطیف نے اپنی فلم کے لیے کیفی سے دو گیت لکھوا کر انہیں ایک ہزار روپے بھیجے تھے۔ عصمت چغتائی کے کردار پر وہ ان الفاظ میں روشنی ڈالتی ہیں: ‘عصمت آپا نے پہلے بھی، جب شبانہ ہونے والی تھی، میری بڑی مدد کی تھی۔ میں بے حد کمزور تھی۔ مجھے انہوں نے پندرہ دن اپنے گھر میں رکھا اور ڈاکٹر کو بلا کر مجھے طاقت کے انجکشن لگوائے تھے۔ عصمت آپا مجھے بہت یاد آتی ہیں۔ وہ کیفی اور مجھے بہت چاہتی تھیں۔ زندگی میں کئی بار انہوں نے ہماری بہت مدد کی ہے۔’

عصمت چغتائی کے بارے میں شوکت کیفی کے اس بیان سے میرے ذہن میں معروف فکشن نگار جیلانی بانو کے قلم سے عصمت چغتائی کے خاکے کا خیال آیا جو ممتاز ادبی جریدے سویرا (93) میں شائع ہوا تھا، اس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

‘دوپہر کو ایک خاتون آئیں، ایک چھوٹی سے بچی کو گود میں لے کر۔ وہ عصمت آپا کی پڑوسن تھیں، اولاد نہیں تھی، عصمت آپا نے ایک ہوم سے بچی دلوا دی تھی۔ عصمت آپا بڑی دیر تک اس بچی کو گود میں اٹھائے کھیلتی رہیں۔ شام کو ایک دبلی سی لڑکی ایک بڑا سا بیگ اٹھائے آئی۔

میں عصمت آپا کے کمرے میں گئی تو آپا منہ پر بال بکھیرے، گھٹنوں پر کپڑا پھیلائے کشیدہ کاری میں مصروف تھیں، میں تعجب کے مارے اچھل پڑی:’ آپا! آپ کو سینا آتا ہے۔‘

’کہاں آتا ہے! اچھے بھلے کپڑے کی ریڑھ مارتی ہوں۔ بیچاری بے سہارا لڑکی ہے۔ کپڑے سی کر لاتی ہے، میں اڑوس پڑوس میں بکوا دیتی ہوں، یہ آرڈر کا کام ہے۔ آج ہی دینا ہے، اس لیے اس کی مدد کر رہی ہوں۔’

اب ہم آجاتے ہیں ‘یاد کی رہ گزر’ کی طرف اور جانتے ہیں شوکت کیفی نے اس میں شبانہ کے بارے میں کیا کچھ لکھا ہے۔

کتاب میں پرتھوی تھیٹر کے لیے کام پر جاتی ماں کے کندھوں پر شبانہ سوار نظر آتی ہیں۔ میونسپل اسکول میں جانے سے ان کی جان جاتی تھی، اس لیے یہ مرحلہ بڑی مشکل سے طے ہوتا تھا۔ یہاں امتحان میں ہر مضمون میں انڈہ حاصل کرنے کے بعد انہیں کوئین میری ہائی اسکول میں داخل کروانے کے خیال نے جنم لیا تو اس کی بھاری فیس نے ڈرایا لیکن بیوی کی پریشانی کیفی اعظمی کے اس اعلان نے دور کر دی:

’تم اس کی فکر نہ کرو، اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے میں پیسے کماؤں گا۔ ‘

اس اسکول میں داخلے نے شبانہ کی زندگی کا رخ بدل دیا، پڑھائی لکھائی میں لیاقت سامنے آئی۔ اداکار بننے کی بنیاد بھی اس اسکول میں پڑی جہاں انہوں نے ڈراموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ ‘

شبانہ کے تین سال بعد شوکت کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ پہلا بیٹا اللہ کو پیارا ہوگیا تھا اس لیے اولاد نرینہ نے انہیں نہال کر دیا۔ بیٹی اور بیٹے سے محبت میں وہ توازن قائم کرنی کی کوشش کرتی تھیں لیکن گاہے پلڑا بیٹے کی طرف جھک جاتا تو شبانہ کو یہ احساس ستانے لگتا کہ بھائی کے ساتھ پیار دلار زیادہ ہے۔

ایک دفعہ صبح اسکول جانے کے وقت ماں نے شبانہ کی پلیٹ سے ٹوسٹ اٹھا کر بیٹے بابا اعظمی کو دے دیا کہ اس کی اسکول بس کے آنے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ شبانہ سے کہاکہ اس کے جانے میں ابھی وقت ہے ملازم ڈبل روٹی لے کر آجائے تو پھر وہ اسے ٹوسٹ بنا دیں گی۔ لیکن شبانہ نے رو رو کر برا حال کر لیا اور کھائے بغیر اسکول چلی گئیں۔ وہاں پہنچ کر بھی غصہ فرو نہ ہوا اور لیبارٹری میں جا کر نیلا تھوتھا کھا لیا۔ پرانا ہونے کی وجہ سے اس کا زہر بے اثر ہو گیا تھا سو ان کی جان بچ گئی۔ اپنی سہیلی پرنا کو شبانہ نے بتایا کہ ممی بھائی کو زیادہ چاہتی ہیں۔

اسی طرح ایک دفعہ ماں نے ڈانٹا تو شبانہ نے ٹرین کی پٹری پر چلنا شروع کر دیا وہ تو اسکول کے چپڑاسی نے گھسیٹ کر پٹری سے اتار کر جان بچائی۔

شبانہ کو گھر میں عسرت کا خیال تھا، سفید کینوس کے جوتے یونیفارم کا حصہ تھے جو بہت جلد پھٹ جاتے تھے۔ اس وجہ سے ماں ایک بار بیٹی پر پھٹ پڑی: اتنے بڑے کھبوڑے جیسے پیر ہیں کہ ہر تین مہینے میں جوتا پھٹ جاتا ہے۔ میں ہر تیسرے مہینے نیا جوتا کہاں سے لاؤں۔ ‘ماں کی اس سرزنش کا یہ اثر ہوا کہ شبانہ نے اگلی بار نئے جوتے کا تقاضا کرنے کی بجائے کن انگلی کے پاس جہاں سے جوتا پھٹا تھا وہاں گتے کا ٹکڑا چپکا کر گزارا کر لیا۔ یہ دیکھ کر ماں کا دل پسیج گیا اور انہوں نے جیسے تیسے کرکے بیٹی کو نیا جوتا دلا دیا۔

کتاب میں شبانہ کے پیدل چل کر کرایے میں سے پیسے بچا کر چنے اور مونگ پھلی خریدنے کا ذکر بھی ہے۔

میٹرک کے بعد کالج جانے میں تین ماہ کا وقفہ آیا تو شبانہ نے پیٹرول پمپ پر برو کافی بیچ کر ماہانہ 900 روپے کمائے اور ساری یافت ماں کے ہاتھ پر رکھ دی جو بیٹی کی شبانہ روز محنت پر حیران رہ گئیں۔ ان کے بقول ‘میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، یہ ننھا سا دل گھر کی غریبی سے کتنا متاثر ہے اور کیا کیا سوچتا ہے۔’

شوکت کیفی نے شبانہ سے اپنے تعلق کے بارے میں ہی نہیں لکھا کیفی اعظمی سے بیٹی کے تعلقات کی کہانی بھی بیان کی ہے۔ بچپن میں شبانہ کو کیفی اپنے ساتھ مزدوروں کی بستی اور میٹنگوں میں لے جاتے تھے۔ انہیں ملنے اور ان کے ہاں رہنے کے لیے بڑے بڑے ادیب آتے تو انہیں دیکھنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی شبانہ کو برابر ملتا۔ اس لیے شوکت کے خیال میں ‘مجھے یقین ہے کہ آگے چل کر شبانہ کی جو شخصیت بنی اس میں گھر کے ایسے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہے۔’

سینٹ زیورس کالج سے گریجویشن کے بعد شبانہ نے مزید پڑھنے کی بجائے پونا فلم انسٹیٹیوٹ میں ایکٹنگ کورس کرنے کی خواہش ظاہر کی تو کیفی اس پر فوراً راضی ہوگئے اور بیٹی کو داخل کروانے لے گئے۔ پونا میں 2 سالہ کورس امتیازی حیثیت میں پاس کرلینے کے بعد انہوں نے 1974 میں شیام بینیگل کی فلم ‘انکور’ میں کام کرکے فلمی سفر کا کامیابی سے آغاز کیا۔

بیٹی کی بڑی بڑی خواہشات کا کیفی کو بڑا احترام تھا لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے بھی وہ جان جوکھم میں ڈال لیتے تھے۔ بستر سے لگ جانے کے بعد آخری بار وہ خود اٹھ کر گھر سے باہر گئے بھی تو بیٹی کی پسند کے گرم گرم سموسے لینے۔

شبانہ اعظمی کا بمبئی میں فٹ پاتھ اور جھونپڑ پٹی میں زیست کرنے والوں کے لیے قائم انجمن سے بھی تعلق رہا۔ ایک جھونپڑ پٹی کو سرکار نے مسمار کیا تو رہائشیوں کو متبادل جگہ دلانے کی خاطر شبانہ نے بھوک ہڑتال کردی۔ اس پر ماں کو بڑی تشویش ہوئی لیکن شبانہ نے اس کے بارے میں والد کو فون پر بتایا تو انہوں نے کہا ’بیسٹ آف لک کامریڈ۔’

صفدر ہاشمی بائیں بازو کے معروف سماجی کارکن اور لیکھک تھے۔ نکڑ ناٹک کے ذریعے عوام میں شعور کی بیداری ان کا زندگی کا مشن تھا۔ 1989 میں ایک نکڑ ناٹک کے دوران غنڈوں نے ان کو قتل کردیا تھا۔ اس ظلم صریح پر شبانہ اعظمی نے فلم فیسٹیول میں ببانگ دہل آواز اٹھا کر حکومتی ایوانوں کر جھنجوڑا: ‘ایک طرف تو یہ گورنمنٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے کلچرل ایکٹوسٹ صفدر ہاشمی کو جب برسر اقتدار پارٹی کے غنڈے جان سے مار دیتے ہیں تو اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی۔’

شبانہ کا یہ دلیرانہ مؤقف ماں کے لیے جہاں فکر کا باعث بنا وہیں کیفی بیٹی کی اس جرات رندانہ پر خوش ہوئے۔

کیفی اعظمی نے زندگی بھر فرقہ واریت اور نفرت کی سیاست پر تنقید کی۔ بابری مسجد کی شہادت نے انہیں آزردہ کیا۔ اس المیے پر نظم لکھی۔ فلم ‘نسیم’ میں اداکاری کی جس میں بابری مسجد کے انہدام سے پہلے کی خوف سے معمور فضا کو بڑی ہنرمندی سے فلمایا گیا ہے۔ دنگوں کی وجہ باہر کی مسموم فضا سے مسلم گھرانے کے بڑھتے اضطراب کی کہانی مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہے۔ کیفی نے فلم میں نسیم کے دادا کا کردار کیا ہے جو پوتی کو پرسوز لہجے میں بیتے دنوں کے قصے سناتے ہیں۔ نصابی تاریخ کے مقابلے میں متبادل تاریخ کا درس دیتے ہیں۔

ایک دن لڑکی اپنے دادا سے پوچھتی ہے:

‘دادا جان نسیم کا مطلب کیا ہوتا ہے؟’

‘نسیم بیٹا صبح کی ہوا کو کہتے ہیں جو بہت خوبصورت ہوتی ہے تمہاری طرح’

6 دسمبر 1992 کو دادا کا انتقال ہو جاتا ہے، ادھر ان کا جنازہ اٹھتا ہے ادھر بابری مسجد کی شہادت کی خبر آتی ہے جس پر ایک کردار کہتا ہے:

‘جانے کا بہت صحیح وقت چنا ہے دادا جان’

زندگی کے آخری زمانے میں کیفی اعظمی کو گجرات کے فسادات کا گھاؤ لگا، شوکت کیفی لکھتی ہیں:

‘گھر میں بستر پر لیٹے کیفی صرف ٹی وی دیکھتے رہتے۔ منہ سے بولنے کی طاقت تو ان میں نہیں رہی تھی لیکن آنکھوں میں بے پناہ درد تھا، اپنے پیارے ملک میں ایک بار پھر ہندو مسلم فسادات دیکھ کر لرز گئے تھے۔’

شبانہ اعظمی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ احمد آباد گئیں لیکن گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے انہیں فسادات زدہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی اور کہا اب سب ٹھیک ہے لیکن اسی رات نرودا پاٹیا میں 25 افراد زندہ جلا دیے گئے۔ شبانہ نے اس واقعے کے بارے میں صاحب فراش باپ کو بتایا تو انہوں نے بیٹی کو گلے سے لگا کر کہاکہ ‘ہمت نہ ہارو اور اپنا کام کرتی رہو ایک دن تو ایسا آئے گا جب یہ پاگل پن دور ہو جائے گا۔’

افسوس یہ پاگل پن کیفی اعظمی کے بعد بہت زیادہ بڑھ گیا اور گجرات کے فسادات میں ملوث انتہا پسند نریندر مودی مسلسل تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے ہیں۔

صفدر ہاشمی ہوں یا کیفی اعظمی یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے معاشرے میں انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی غنڈہ گردی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس طرح کے کردار مجھے قرۃالعین حیدر کا یہ قول یاد دلاتے ہیں:

’کمیونزم کے اس اچانک غیر متوقع خاتمے پر ہندوستان میں بغلیں بجانے والوں کو یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ہماری کمیونسٹ پارٹیاں ہی مذہبی جنون اور فسادات کے خلاف مخلصانہ آواز اٹھاتی ہیں۔’

آخر میں کیفی اعظمی کا ایک بیان۔

شوکت کیفی نے لکھا ہے کہ بیماری میں بھی ان کے شوہر کی حس مزاح اپنا رنگ دکھاتی تھی۔

بمبئی میں پیٹ کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے ان سے کہا: کیفی صاحب ناک سے سانس لیجیے۔ منہ بند رکھیے۔ منہ بند رکھنے کا یہ پیغام جب شبانہ اعظمی نے ان تک پہنچایا تو وہ بولے:

‘منہ میرا نہیں، بال ٹھاکرے کا بند کرواؤ۔’

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews انتہا پسندی بھارت شبانہ اعظمی کیفی اعظمی محمودالحسن نریندر مودی وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انتہا پسندی بھارت کیفی اعظمی محمودالحسن وی نیوز کمیونسٹ پارٹی عصمت چغتائی کے بارے میں کیفی اعظمی اسکول میں عصمت ا پا نے انہیں شبانہ کو انہوں نے شبانہ کے شبانہ کی بیٹی کی کا خیال لکھا ہے بیٹی کو اس لیے اور ان کے بعد ہیں تو کے لیے

پڑھیں:

جیے جَلائے، مرے پَلائے

میری دادی جنھیں ہم امّاں کہتے تھے، بیشتر انسانوں میں پائی جانے والی دوغلے پن کی عادت پر رنجیدہ دل کے ساتھ اکثرکہا کرتی تھیں، ’’ جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ یعنی انسان زندہ جاوید لوگوں کی قدر نہیں کرتا، اُن کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں فوراً اُن کی ساری خوبیاں اس کو نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں، جس کا انسان بڑھ چڑھ کر پرچار بھی کرتا ہے۔

ہر وقت اٹھتے بیٹھتے دنیا سے جانے والے کی خوبیاں بیان کرتے تھکتا نہیں،کہ اﷲ بخشے مرحوم میں فلاں خوبی تھی ،وہ یہ کرتے تھے ،وہ اپنے کردار اور اعلیٰ پائے کی خوبیوں کے باعث نہ صرف خاندان بلکہ پورے محلے کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔

قریبی جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اب مرحوم کی تعریف کرنے والے لوگ مرحوم کی زندگی میں ان کی کتنی قدر کرتے تھے،ان کا کتنا خیال رکھتے تھے۔مرحوم جب زندہ تھے تو انھوں نے کبھی اپنے خاندان کی تعریف نہیں کی تھی کہ وہ ان کا انتہائی خیال رکھتے ہیں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ مردے کے چہرے پر مکھن ملنے سے اس پر حسن نہیں آ جاتا۔

تعریف وہ جو زندہ انسان کی کی جائے، سوئے ہوئے بچے کا جتنا مرضی منہ چوم لیں،بچے کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے گھر والے اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

بڑے بڑے شاعروں اور فنکاروں کی یاد میں سیمینار کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ مرحوم انتہائی اعلیٰ پائے کی شخصیت تھے ،ان کے دنیا سے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔مگر ذرا سی تحقیق کرنے پر آشکار ہو جائے گا کہ مرحوم کی سیمیناروں میں بڑھ چڑھ کر تعریف کرنے والوں نے مرحوم سے جیتے جی سلام دعا لینا بھی گوارا نہیں کی تھی، کہ کہیں مرحوم اپنی کسمپرسی کے سبب ان سے مدد کا تقاضا نہ کر دیں۔

مرحوم کے بارے میں پتہ چلے گا کہ آخری وقت میں ان کے پاس دوا دارو کے پیسے تک نہ تھے اور وہ محلے کے بہت سے دکانداروں کے اس حد تک مقروض ہو چکے تھے کہ اب دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا تھا۔اب دکانداروں کو مرحوم کی خوبیوں نہیںاپنی ڈوبی ہوئی رقم سے غرض ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہو گی۔

 بنی نوع انسان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خطا کا پُتلا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مُنافِق بھی ہے جو اپنی کہی بات کو خود ہی باآسانی جھٹلانے میں کافی مہارت رکھتا ہے۔

خالق نے انسان کو خلق کرتے وقت بُلند مرتبہ و مقام عنایت فرمایا تھا لیکن افسوس وہ اس وقار کا تحفظ نہیں کرسکا اور اپنے پاؤں تلے اسے بیدردی سے روند ڈالا۔ جنت میں ابلیس کو حکمِ الٰہی تھا کہ انسان کو سجدہ کرو، مگر زمین پر اُتارے جانے کے بعد نجانے انسان نے ابلیس کی مریدی کیوں اختیارکر لی، ویسے اپنی شان و شوکت اور متانت و شخصی احترام پر ضرب کاری کرنے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

 ’’ ناقدری‘‘ انسان کی بیشمار بری عادتوں میں سے ایک ہے، انسان ہر اُس شے و فرد کی قدر نہیں کرتا جو اُسے بہ سَہولت میسر آ جائے۔ ایک بار ہاتھ سے نعمت چھوٹ جائے پھر خالی ہاتھوں کی خفت مٹانے میں انسان کی ڈھٹائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہ شرمندہ نظر آنے کے بجائے اُلٹا یہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ باقدر تھا اور باذوق بھی ساتھ زندگی سے جانے والی نعمتوں کے قصیدے پڑھنا بھی شروع کر دیتا ہے۔

انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں دِقّت پیش آتی ہے، دوسرے انسان کے اندر اُسے ہزاروں برائیاں نظر آجائیں گی مگر خود کی خامیوں پر آنکھیں موند لینا وہ زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مخالف دوسرا انسان ہے لیکن پردے پر سے منظر بدلتے اور ایک انسان کی زندگی کی فلم ختم ہوتے ہی دوسرا اُس کا سب سے بڑا مداح بن جاتا ہے۔

یہ دنیا جادوئی نگری ہے جہاں کب، کون کیا بن جائے کسی کو پہلے سے کان و کان خبر نہیں ہوتی ہے، آج کوئی کسی کردارکو نبھا رہا ہے تو کل وہ کس روپ کو اختیار کر لے گا یہ صرف وہی جانتا ہے، یہاں ایک جسم میں کئی شخصیتیں موجود ہیں۔

انسان اکثر اوقات رنگ بدلنے میں گِرگٹ کو بھی مات دے دیتا ہے، ساری بات مطلب اور ترجیحات کی ہے، جب کوئی فرد ضرورت بن جائے پھر ماضی میں اُس کے متعلق انسان کی منفی رائے اچانک مثبت جذبات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

یہ سب سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ میں نے بذاتِ خود اپنے اردگرد متعدد بار امّاں کا کہا یہ جملہ ’’جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اورکئی دفع تو انسانوں کی اس حوالے سے کھلم کھلا منافقت پر میرا سر بری طرح چکرایا ہے۔

زندگی بھر جس فرد کو صبح شام لعن طعن کیا وہ مرتے ہی فرشتہ صفت کیسے بن جاتا ہے، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ زندگی رہتے کسی انسان کی اُس کے سامنے تعریف کر دی جائے تو وہ خوش ہوگا اور تعریف کرنے والے کو اُسے خوشی دینے کا اجر بھی حاصل ہوسکے گا جب کہ مرنے کے بعد اُس کے نام پر تاج محل ہی کیوں نہ تعمیر کروا دیا جائے یا دوسرے کسی قسم کا بھی چونچلا پن زندگی میں اُس انسان پر ڈھائی زیادتیوں کو مٹا نہیں سکتا ہے۔

 کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے، ہرکسی میں کم و بیش خامیاں پائی جاتی ہیں، ہمیں دوسروں کی خامیوں کو درگزرکرنا چاہیے تاکہ سامنے والا ہماری باری میں بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ عیب جوئی سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے بلکہ احساسات مجروح ہوتے ہیں، شکوے جنم لیتے ہیں اور آپسی رشتوں میں دوریاں آ جاتی ہیں۔

بات اگر معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تحفظ کی ہو تو اُس کے لیے اصلاح کا راستہ کُھلا ہے۔ کسی فرد کے اندر کوئی نامناسب عادت نظر آئے تو طریقے سے تنہائی میں اُسے سمجھایا جاسکتا ہے، صحیح اور غلط کے نتائج بتلا کر راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے۔

انسانی زندگی چند گھڑیوں کا مجموعہ ہے، کب کس کا دوسرے جہان سے بلاوا آ جائے اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر جائے پھر پیچھے والے صرف پچھتاتے رہ جائیں اس سے بہتر ہے ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کو اُن کی زندگی میں ہی اُن کا جائز مقام دیں۔

اخلاقی اعتبار سے انسان پر فرض ہے کہ وہ دوسرے انسان کی قدرکرے، اُس میں موجود خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور اُس کو اپنا مخالف سمجھنے کے بجائے ساتھی تصورکرے۔ ایک معاشرہ صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ تبھی بنتا ہے جب وہاں سب انسان یگانگت کے ساتھ زندگی گزاریں اور اپنے آپسی رشتوں کو ناقدری کی بھینٹ چڑھانے سے گریزکریں۔

متعلقہ مضامین

  • امن معاہدے کے اثرات
  • یونیورسٹی آف نبراسکا
  • سب سے اہم رشتہ
  • جیے جَلائے، مرے پَلائے
  • جنگ بندی میرا کام ہے، پاک افغان کشیدگی بھی آسانی سے ختم کرا دوں گا؛ صدر ٹرمپ
  • تالیف
  • شبانہ اعظمی میرا اسٹیج ڈراما دیکھ کر رو پڑی تھیں، تعریفوں کے پل باندھ دیے، مدیحہ شاہ
  • ٹرمپ کا ہیرو کون؟
  • بیوی نے مجھے ایک ’بابا‘ کے لیے چھوڑ دیا، یووراج سنگھ کے والد یوگراج سنگھ کا انکشاف