کانگریس صدر نے کہا کہ 2019ء میں مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ میں کٹوتی کی، انفارمیشن کمشنروں کی میعاد اور تنخواہوں پر پابندی لگادی اور خودمختار نگران اداروں کو ماتحت اہلکاروں کیلئے کم کیا۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے مودی حکومت پر اطلاعات کے حق (آر ٹی آئی) ایکٹ 2005 کو "منظم طریقے سے کمزور" کرنے اور جمہوریت اور شہری حقوق کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے لکھا کہ 20 سال قبل کانگریس کی قیادت والی "یو پی اے حکومت" نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کی قیادت میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لئے "آر ٹی آئی ایکٹ" نافذ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 11 برسوں میں، مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ کو منظم طریقے سے کمزور کیا ہے، جس سے جمہوریت اور شہری حقوق کو نقصان پہنچا ہے۔

کانگریس صدر نے الزام لگایا کہ 2019ء میں مودی حکومت نے آر ٹی آئی ایکٹ میں کٹوتی کی، انفارمیشن کمشنروں کی میعاد اور تنخواہوں پر پابندی لگا دی اور خود مختار نگران اداروں کو ماتحت اہلکاروں کے لئے کم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 نے آر ٹی آئی کے مفاد عامہ کی دفعات کو کمزور کیا اور بدعنوانی کو چھپانے اور تحقیقات کو روکنے کے لئے رازداری کو ہتھیار بنایا۔ ملکارجن کھرگے نے یہ بھی کہا کہ سنٹرل انفارمیشن کمیشن طویل عرصے سے چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہا ہے، یہ اہم عہدہ گزشتہ 11 برسوں میں ساتویں مرتبہ خالی ہوا ہے اور کمیشن میں کل آٹھ اسامیاں 15 ماہ سے خالی پڑی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے اپیلوں کا عمل رک گیا ہے اور ہزاروں لوگوں کو انصاف سے محروم کر دیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: آر ٹی آئی ایکٹ نے آر ٹی آئی مودی حکومت کہا کہ

پڑھیں:

حکومت نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل اختیار سے متعلق قانون سازی مؤخر کر دی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار کو محدود کرنے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں ہو سکی اور حکومت نے قانون سازی مؤخر کردی۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیاہ ے کہ حکومتی نمائندے اب تک اپنے اس ابتدائی موقف سے پیچھے ہٹ چکے ہیں جس میں چیف جسٹس کے وسیع اختیار کو ریگولیٹ کرنے پر زور دیا جاتا تھا۔ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا کوئی باضابطہ حق تاحال موجود نہیں، جس نے قانونی حلقوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل نے عدالتی کارروائی کے دوران نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 175(E)(4) کے مطابق صرف وہ انٹرا کورٹ اپیلیں سنی جا سکتی ہیں جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہیں۔ مستقبل میں آئینی عدالت کے فیصلوں کے خلاف کوئی نئی اپیل دائر کرنے کا راستہ کھلا نہیں۔ یہ نقطہ عبادالرحمان لودھی ایڈووکیٹ نے بھی ایک علیحدہ مقدمے میں اٹھایا، جس سے اس معاملے کی پیچیدگی مزید نمایاں ہوگئی۔

ایک سرکاری اہلکار نے پس پردہ اعتراف کیا کہ عدالتی فیصلوں پر اپیل کا حق عملاً موجود نہیں، جب تک خود آئینی عدالت اپنے قواعد میں نئی گنجائش پیدا نہ کرے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے یہ حق متعین نہ کیا جائے۔

اسی طرح یہ بھی ابہام برقرار ہے کہ حکومت خود اس سمت میں کوئی قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ ماضی میں خصوصاً سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں موجودہ حکومتی اتحاد بینچ تشکیل دینے کے صوابدیدی اختیار پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔

اسی پس منظر میں پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 متعارف کرایا تھا، جس کے تحت عوامی مفاد کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا اصول پہلی بار شامل کیا گیا۔

اسی قانون کی توثیق کرنے والے جج جسٹس امین الدین خان اب آئینی عدالت میں بطور ماسٹر آف روسٹر خود بینچ تشکیل دے رہے ہیں، جس پر عدالتی مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں۔

ادھر انتظامی معاملات میں بھی تبدیلیاں جاری ہیں۔ ایک سینئر سرکاری افسر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کو جی–10 سیکٹر کی سابقہ عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ جنوری کے لیے طے کیا جا چکا ہے، تاہم ہائی کورٹ بار نے اس منتقلی کو فروری تک مؤخر کرنے کی درخواست پیش کی ہے۔ اس پر حتمی فیصلہ آنے میں چند ہفتے لگ سکتے ہیں، جبکہ وکلا برادری اس اقدام سے متعلق اپنے خدشات پہلے ہی ظاہر کر چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کی سندھ حکومت پر تنقید؛ جامعہ کراچی کی زمین اور ICCBS قانون پر شدید تحفظات
  • افغان دہشتگرد رحمان اللہ لکانوال امریکا کیسے پہنچا؟
  • کراچی میں وکلا کا احتجاج، کارونجھر پہاڑ کے تحفظ اور بقا کا مطالبہ
  • لیگل ایڈ ایکٹ 2019 پر عملدرآمد نہ ہونے کیخلاف درخواست پر حکومت سے جواب طلب
  • آئینی فرائض مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہیں، نریندر مودی
  • حکومت نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل اختیار سے متعلق قانون سازی مؤخر کر دی؟
  • کینیڈا میں خالصتان کیلیے تاریخی ریفرنڈم
  • کینیڈا میں خالصتان ریفرنڈم: 53 ہزار سکھوں نے ووٹ دے کر بھارتی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی
  • کینیڈا میں خالصتان کیلیے تاریخی ریفرنڈم، 53 ہزار سکھوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا
  • وفاقی اور صوبائی اینٹی ریپ قانون میں تضاد کس نے دیکھنا ہے؟ جسٹس عالیہ