بی جے پی کی جاگیردارانہ ذہنیت اقلیتوں کے خلاف جرائم میں اضافے کی وجہ ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
ذرائع کے مطابق کانگریس کے صدر نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2013ء سے 2023ء کے درمیان دلتوں کے خلاف جرائم میں 46فیصد اور آدیواسیوں کے خلاف جرائم میں 91فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت حکومت ایک جاگیردارانہ ذہنیت کو پروان چڑھا رہی ہے جس سے پسماندہ برادریوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق کانگریس کے صدر نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2013ء سے 2023ء کے درمیان دلتوں کے خلاف جرائم میں 46فیصد اور آدیواسیوں کے خلاف جرائم میں 91فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں حالیہ واقعات کا حوالہ دیا جن میں رائے بریلی میں ایک دلت شخص ہری اوم والمیکی کا پیٹ پیٹ قتل، ہریانہ کے ایک آئی پی ایس افسر کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر امتیای سلوک، جس نے بعد میں خودکشی کر لی، چیف جسٹس آف انڈیا بی آرگوائی پر حملہ اور راجستھان میں بزرگ دلت خاتون کملا دیوی رائیگر پر مظالم شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ الگ تھلگ واقعات نہیں بلکہ آر ایس ایس۔ بی جے پی کی جاگیردارانہ ذہنیت کا ایک خطرناک مظہر ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی سیاست سے مساوات، انصاف اور بھائی چارے کی آئین کی ضمانتوں کو خطرہ ہے اور حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کھرگے نے کہا کہ بھارت میں کسی انتہا پسند نظریے کے تحت نہیں بلکہ آئین کے تحت حکومت کی جانی چاہیے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے خلاف جرائم میں کہا کہ
پڑھیں:
کیا پاکستان ’لیو ان ریلیشن شپس‘ پُرتشدد جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں؟
پاکستان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی اپیل پر 7 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ اس نوٹ میں جسٹس علی باقر نے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ظاہر جعفر کو سنائی گئی سزائے موت قانون اور شواہد کے مطابق ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی لکھا کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان لیو اِن ریلیشن شپ نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم کیس: مجرم کی سزا موت برقرار، دوسرے کیس میں سزا عمر قید میں تبدیل
جسٹس علی باقر نجفی کے مطابق ’لیونگ (لیو اِن) ریلیشن شپ‘ کا تصور معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور نوجوان نسل کو نور مقدم قتل جیسے واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
اس اضافی نوٹ کے بعد ایک نیا سوال شدت سے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا واقعی لیو اِن ریلیشن شپ جرائم میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، یا پھر یہ ایک سماجی و اخلاقی رائے ہے جسے جرم کے ساتھ براہِ راست نہیں جوڑا جا سکتا؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حافظ احسان احمد کھوکھر نے کہا کہ اس کیس میں جو جرم کیا گیا ہے، وہ اپنی جگہ ایک واضح اور مکمل جرم ہے، اور اسے قانون کے مطابق ہی دیکھا جانا چاہیے۔ کسی بھی طرح کی دوستی، رہائش، تعلق یا میل جول چاہے وہ اچھا سمجھا جائے یا برا جرم کی نوعیت کو کم نہیں کرتا اور نہ ہی ملزم کی ذمہ داری کم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی اپیل مسترد، جسٹس باقر نجفی کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا
ان کا کہنا تھا کہ ہر فرد پر اخلاقی ذمہ داری ضرور ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات سے بچیں جو بگاڑ یا غلط راستے کی طرف لے جائیں، خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جو اسلامی اصولوں کے مطابق چلتا ہو۔
حافظ احسان احمد کھوکھر نے مزید کہا کہ عدالت 2 افراد کے آپس کے تعلق یا پس منظر کا ذکر تو کر سکتی ہے، لیکن ایسے عوامل کو استعمال کر کے جرم کو ہلکا نہیں کیا جا سکتا۔ جرم کی ذمہ داری صرف اس عمل اور نیت سے پیدا ہوتی ہے جس کے ساتھ جرم کیا گیا ہو، کسی کے طرزِ زندگی یا ذاتی فیصلوں سے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی نوٹ، رائے یا مشاہدہ جو یہ تاثر دے کہ متاثرہ لڑکی کا تعلق جرم کی نوعیت پر اثر ڈالتا ہے، انتہائی احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ نہ یہ جرم کی سنگینی کو کم کرتا ہے اور نہ ہی سزا کو بدل سکتا ہے۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن فرزانہ باری کا کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد کا تعلق تعلقات کی نوعیت سے نہیں بلکہ اس ذہنیت سے ہے جس میں مرد خود کو عورت پر مکمل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اسے اپنے تشدد پر جوابدہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس میں کب کیا ہوا؟
سائیکولوجسٹ سحرش افتخار کہتی ہیں کہ انسانی رویے اور جرائم کے اسباب بہت پیچیدہ ہوتے ہیں اور انہیں صرف ذاتی تعلقات یا طرزِ زندگی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ نوجوانوں کے تعلقات کی نوعیت میں ثقافتی، سماجی اور نفسیاتی عوامل شامل ہوتے ہیں، اور ہر تعلق کو جرم کی طرف مائل کرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا۔
سحرش افتخار کے مطابق معاشرتی اور اخلاقی تربیت اہم ہے، مگر قانونی اور نفسیاتی اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ جرم کے ارتکاب کو سائیکولوجیکل اور قانونی بنیادوں پر سمجھا جائے۔
انہوں نے زور دیا کہ جرائم کے اسباب میں خاندانی ماحول، ذہنی صحت، سماجی دباؤ، اور فرد کی شخصی خصوصیات زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں، نہ کہ صرف کسی لیونگ ریلیشن شپ کا ہونا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مقدمات میں یہ اہم ہے کہ معاشرہ اور میڈیا ذاتی تعلقات کو جرم کے مترادف نہ سمجھیں، کیونکہ اس سے نوجوانوں میں خوف، شرمندگی اور غیر ضروری دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ قانون کی ذمہ داری یہ ہے کہ جرم کو اس کی سنگینی کے مطابق دیکھا جائے، اور نفسیاتی پہلوؤں سے یہ سمجھا جائے کہ فرد نے کیوں ایسا عمل کیا، جبکہ کسی نجی تعلق کو جرم کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس علی باقر نجفی سحرش افتخار لیونگ ریلیشن شپ نور مقدم کیس