خورشید رضوی ‘ ادب کی دنیا میں ایک مستند نام ہیں۔ ان کی‘ ایک خوشبودار کتاب نظر سے گزری ۔ نام تالیف تھا۔ مختلف خاکے‘ مضامین اور تراجم کا ایک جاندار مجموعہ۔ پڑھتا چلا گیا۔ تقریباً ایک شب کے جگ رتے میں یہ قیمتی تصنیف پڑھ ڈالی۔ اب عادت سی بن گئی ہے۔ کہ ہر کتاب کو دو سے تین بار پڑھتا ہوں ۔
کیونکہ صرف ایک بار پڑھنے سے کسی بھی تصنیف کو باریکی سے سمجھنا قدرے مشکل ہے۔ خورشید رضوی صاحب سے ملاقات آج تک نہیں ہو پائی۔ ویسے میں جن لوگوں کی نثر یا شاعری کو پسند کرتا ہوں۔ ان سے بہت کم ہی ملتا ہوں۔ اس عجیب عادت کا وجود صرف ایک وجہ سے ہے۔
جب آپ کسی بھی انسان کے کام کو بہتر پاتے ہیں۔ تو اس کی شخصیت کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ یہ تو طے ہے کہ انسان کی ذات‘ اس کے تخلیقی کام میں ابھر کر سامنے ضرور آتی ہے۔ مگر یہ ممکن ہے کہ وہ تخلیق کار‘ بحیثیت انسان‘ اپنی بلند پایہ تخلیق سے حد درجہ مختلف یا متضاد ہوں۔ اور پھر قاری نے جو خاکہ اس شخص کا بنایا ہوتا ہے، جس مسند پر اسے بٹھایا ہوتا ہے۔ اس کی ذات ‘ کہیں اس پیمانہ سے کم نہ ہو۔خورشید رضوی نے کمال تخلیقی کام کیا ہے جو واقعی پڑھنے والا بھی ہے۔ بلکہ حد درجہ توجہ سے قابل مطالعہ ہے۔
ناصر کاظمی: بہت مدت بعد 1960میں میرا عزیزدوست اسلم انصاری اور میں دولز ہاسٹل لاہور میں برابر برابر کمروں میں مقیم تھے۔ کہ اسلم کی ناصر کاظمی سے دوستی ہو گئی اور وہ اسلم کے پاس آنے جانے لگے۔ پہلی مرتبہ میں نے انھیں وہیں قریب سے دیکھا۔ موضوع سخن میر تقی میر تھے۔
ان کی بھاری بھرکم ’’کلیات‘‘ سامنے دھری تھی اور ناصر کاظمی محاسن کلام میر میں مستغرق ایک مخصوص مسکراہٹ اور از خودرفتگی کے ساتھ مسلسل گفتگو کر رہے تھے۔ ایسے موقع پر وہ سامع سے زیادہ شاید خود سے محو کلام رہا کرتے تھے۔ وہ میر کے اس سادہ و پر کارفن کی تہوں کی وضاحت میں مصروف تھے جس کو خوشبو کی طرح محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن مٹھی میں نہیں لیا جا سکتا۔اسی دوران انھوں نے ’’کلیات‘‘ اٹھا کر اپنا ایک پسندیدہ شعر نکالا اور عجیب سرمستی کے عالم میں پڑھا۔
گوندھ کے گویا پتی گل کی‘ وہ ترکیب بنائی ہے
رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں
وہ تادیر چمکتی ہوئی آنکھوں اور چھوٹے چھوٹے پر جوش جملوں سے اس شعر کے ایک ایک لفظ کی داد دیتے رہے۔ میران کا جنم جنم کا ساتھی معلوم ہوتا تھا اور وہ خود میر کا اوتار نظر آتے تھے۔
میں نے اس کو دیکھا:مجید امجد کے بارے میں درج ہے۔
میں نے اس کو دیکھا ہے
اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں
کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں
لے آیا ہے یوں بن پوچھے‘اپنے آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ
یہ سطور مجید امجد کی ایک نظم سے اقتباس کی گئی ہیں جو انھوںنے منٹو پر لکھی ہے۔ میںنے چونکہ منٹو کو نہیں دیکھا اور مجید امجد کو دیکھا ہے اس لیے ’’گردبھری حیرانی‘‘’’ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں‘‘ اور ’’عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ‘‘ کا ذکر آتا ہے تو میرے ذہن میں معاً ایک کہنہ سال عینک کے سفید شیشوں کے پس منظر میں مجید امجد کی اپنی شبیہ ابھر آتی ہے جس میں دور دیس سے آئے ہوئے ایک اجنبی ہنس کی سی خوفزدہ معصومیت کا تاثر ملتا تھا۔
1958کی بات ہے‘ میں گورنمنٹ کالج منٹگمری (اب ساہیوال ) میں سال سوم کا طالب علم تھا۔ شاعری کا جنون نیا نیا سر میں سمایا تھا۔ دیوان غالب اور آب حیات کے مطالعے کے بعد میںنے خاصی بزرگانہ قسم کی غزلیں کہنی شروع کر دیں اور کمال سادگی سے انھیں تنقیدی مجلسوں میں پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ نتیجہ یہ کہ یار لوگوں نے میرے خوب خوب پرزے اڑائے لیکن انھیں مجلس سے مجھے وہ فیض بھی حاصل ہوا جس کی یاد آج میرے لیے از حد قیمتی اور خوشگوار ہے یعنی مجید امجد سے ملاقات۔
سید ضمیر جعفری: جعفری صاحب کے شعری مزاج کا ایک اور رخ جوان کے کمال فن کا آئینہ دار ہے لیکن جس پر نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے ’’ولایتی زعفران‘‘ یعنی منظوم تراجم ہیں جو انھوں نے انگریزی نظموں سے کیے۔ ’’مسز ولیم‘‘ جس کی عشوہ طرازیاں‘ جعفری صاحب کی عمر عزیز کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں‘ بنیادی طور پر اسی سلسلے کی نظم ہے۔
اس نظم کے بارے میں جعفری صاحب کا کہنا ہے کہ اگر میری نہیں ہو سکی تو اصل شاعر کی بھی نہیں رہی۔ یہ بات دراصل ’’ولایتی زعفران‘‘ کے بارے میں مجموعی طور پر بھی کہی جا سکتی ہے۔ یعنی جعفری صاحب کے ترجمے کی خوبی ہے کہ انھوںنے ان نظموں کو محض اپنی زبان ہی میں منتقل نہیں کیا بلکہ بڑی چابکدستی سے ان میں اپنے دیس کی آب و ہوا بھی گھول دی ہے۔ ’’اڑنگ بڑنگ‘‘ میں فون پر ہونے والی اوٹ پٹانگ گفتگو کے سلسلے میں ایک بدیسی شاعر کے خیالات کو یوں ’’ترجمایا ‘‘ ہے:
’’… کیا تم اپنی نیلی ٹوپی مانٹریال سے لائے ہو
یا چکوال سے لائے ہو
چاند گہن کی رات سنا ہے بنتو ڈھول بجاتی تھی
اللہ بخشے تیری بیوی قیمہ خوب پکاتی تھی
آدھا خود کھا جاتی تھی…‘‘
ڈاکٹر طہٰ حسین: سور بون میں طہٰ کی خصوصی توجہ فلسفہ اور اجتماعیات پر رہی ۔ علاوہ ازیں قدیم یونانی و رومی اور جدید فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ مصر کو یونانی تمدن سے آگاہ کرنے کے لیے اس نے تراجم کا کام شروع کیا۔ چنانچہ ’’Sophocles‘‘ کے بعض ڈراموں کو عربی کا جامہ پہنایا۔ اور ’’Racine‘‘ کے ڈرامے ’’Andromaque‘‘ نیز ’’Voltaire‘‘ کے ’’ Zadig ou la Destinee‘‘ کے ترجمے اور اس کے علاوہ بھی بعض تصانیف پیش کیں۔ طہٰ کی تصانیف مختلف علمی و ادبی موضوعات پر بہت کثیر التعداد ہیں جن کا مجمل سا تذکرہ بھی باعث طوالت ہو گا۔ باقاعدہ تصنیف و تالیف کے علاوہ اس نے صحافت اور سیاسی امور میں بھی حصہ لیا چنانچہ دستوری احرار پارٹی کے پرچے ’’ایساستہ‘‘ کا مدیر رہا۔
1924 میں جامعہ اہلیہ حکومت کی تحویل میں آ گئی اور طہٰ حین کلیہ الآداب میں عربی ادب کا استاد مقرر ہوا۔ طہٰ حسین کی طبیعت میں بے باکی کا عنصر بہت نمایاں ہے جس کی مثالیں اس کی زندگی میں جا بجا ملتی ہیں۔ اس بے با کی کا ایک مظاہرہ اس کی تصنیف ’’فی الشعر الجاہلی‘‘ کی صورت میں ہوا جو اس نے 1926 میں شایع کی۔ اس کتاب میں طہٰ نے ڈیکارٹ (Descartes) کا منہج فکر اختیار کیا یعنی پختہ اور غیر متزلزل یقین تک پہنچنے کے لیے ہر چیز پر شک کرنا۔ چنانچہ اس نے قدیم نظریات کو اضافی قرار دیتے ہوئے ان پر نظر ثانی کا جواز پیدا کیا۔
ادبی تنقید میں آزادی فکر کی دعوت دی اور آواز اٹھائی کہ قدماء کا ہر نظریہ ضروری نہیں کہ ہمارے نظریات سے زیادہ صائب ہو۔ اس تصنیف کا مختصر لب لباب یہ سمجھ لیجیے کہ طہٰ نے جاہلی شاعری کے بارے میں یہ رائے پیش کی کہ اس کا ایک بڑا حصہ بعد کے لوگوں کا من گھڑت ہے جسے بعض اغراض کے تحت قدیم شعراء سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ اس بات پر بہت سے نقاد بگڑ کھڑے ہوئے اور طہٰ کے خلاف ایک زبردست تحریر طوفان بپا ہوا۔
خورشید نے کمال مضامین لکھے ہیں۔ ان کا مطالعہ غور سے فرمائیے ۔ حقیقت میں یہ بیش قیمت تحریریں ہیں۔ پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیں۔ آخر میں‘ اقبال کے یہ اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں جو اس کتاب کے ایک حصے میں درج ہیں۔
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
سوز بھی رخصت ہوا‘ جاتی رہی تاثیر بھی
مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج
میں پشیماں ہوں‘ پشیماں ہے میری تدبیر بھی
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے بارے میں کا ایک
پڑھیں:
جیے جَلائے، مرے پَلائے
میری دادی جنھیں ہم امّاں کہتے تھے، بیشتر انسانوں میں پائی جانے والی دوغلے پن کی عادت پر رنجیدہ دل کے ساتھ اکثرکہا کرتی تھیں، ’’ جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ یعنی انسان زندہ جاوید لوگوں کی قدر نہیں کرتا، اُن کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں فوراً اُن کی ساری خوبیاں اس کو نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں، جس کا انسان بڑھ چڑھ کر پرچار بھی کرتا ہے۔
ہر وقت اٹھتے بیٹھتے دنیا سے جانے والے کی خوبیاں بیان کرتے تھکتا نہیں،کہ اﷲ بخشے مرحوم میں فلاں خوبی تھی ،وہ یہ کرتے تھے ،وہ اپنے کردار اور اعلیٰ پائے کی خوبیوں کے باعث نہ صرف خاندان بلکہ پورے محلے کی ہر دل عزیز شخصیت تھے۔
قریبی جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اب مرحوم کی تعریف کرنے والے لوگ مرحوم کی زندگی میں ان کی کتنی قدر کرتے تھے،ان کا کتنا خیال رکھتے تھے۔مرحوم جب زندہ تھے تو انھوں نے کبھی اپنے خاندان کی تعریف نہیں کی تھی کہ وہ ان کا انتہائی خیال رکھتے ہیں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ مردے کے چہرے پر مکھن ملنے سے اس پر حسن نہیں آ جاتا۔
تعریف وہ جو زندہ انسان کی کی جائے، سوئے ہوئے بچے کا جتنا مرضی منہ چوم لیں،بچے کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس کے گھر والے اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
بڑے بڑے شاعروں اور فنکاروں کی یاد میں سیمینار کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ مرحوم انتہائی اعلیٰ پائے کی شخصیت تھے ،ان کے دنیا سے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے وہ صدیوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔مگر ذرا سی تحقیق کرنے پر آشکار ہو جائے گا کہ مرحوم کی سیمیناروں میں بڑھ چڑھ کر تعریف کرنے والوں نے مرحوم سے جیتے جی سلام دعا لینا بھی گوارا نہیں کی تھی، کہ کہیں مرحوم اپنی کسمپرسی کے سبب ان سے مدد کا تقاضا نہ کر دیں۔
مرحوم کے بارے میں پتہ چلے گا کہ آخری وقت میں ان کے پاس دوا دارو کے پیسے تک نہ تھے اور وہ محلے کے بہت سے دکانداروں کے اس حد تک مقروض ہو چکے تھے کہ اب دکانداروں نے ادھار دینا بند کر دیا تھا۔اب دکانداروں کو مرحوم کی خوبیوں نہیںاپنی ڈوبی ہوئی رقم سے غرض ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہو گی۔
بنی نوع انسان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خطا کا پُتلا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ مُنافِق بھی ہے جو اپنی کہی بات کو خود ہی باآسانی جھٹلانے میں کافی مہارت رکھتا ہے۔
خالق نے انسان کو خلق کرتے وقت بُلند مرتبہ و مقام عنایت فرمایا تھا لیکن افسوس وہ اس وقار کا تحفظ نہیں کرسکا اور اپنے پاؤں تلے اسے بیدردی سے روند ڈالا۔ جنت میں ابلیس کو حکمِ الٰہی تھا کہ انسان کو سجدہ کرو، مگر زمین پر اُتارے جانے کے بعد نجانے انسان نے ابلیس کی مریدی کیوں اختیارکر لی، ویسے اپنی شان و شوکت اور متانت و شخصی احترام پر ضرب کاری کرنے میں انسان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
’’ ناقدری‘‘ انسان کی بیشمار بری عادتوں میں سے ایک ہے، انسان ہر اُس شے و فرد کی قدر نہیں کرتا جو اُسے بہ سَہولت میسر آ جائے۔ ایک بار ہاتھ سے نعمت چھوٹ جائے پھر خالی ہاتھوں کی خفت مٹانے میں انسان کی ڈھٹائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، وہ شرمندہ نظر آنے کے بجائے اُلٹا یہ ظاہرکرتا ہے کہ وہ باقدر تھا اور باذوق بھی ساتھ زندگی سے جانے والی نعمتوں کے قصیدے پڑھنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
انسان کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے میں دِقّت پیش آتی ہے، دوسرے انسان کے اندر اُسے ہزاروں برائیاں نظر آجائیں گی مگر خود کی خامیوں پر آنکھیں موند لینا وہ زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مخالف دوسرا انسان ہے لیکن پردے پر سے منظر بدلتے اور ایک انسان کی زندگی کی فلم ختم ہوتے ہی دوسرا اُس کا سب سے بڑا مداح بن جاتا ہے۔
یہ دنیا جادوئی نگری ہے جہاں کب، کون کیا بن جائے کسی کو پہلے سے کان و کان خبر نہیں ہوتی ہے، آج کوئی کسی کردارکو نبھا رہا ہے تو کل وہ کس روپ کو اختیار کر لے گا یہ صرف وہی جانتا ہے، یہاں ایک جسم میں کئی شخصیتیں موجود ہیں۔
انسان اکثر اوقات رنگ بدلنے میں گِرگٹ کو بھی مات دے دیتا ہے، ساری بات مطلب اور ترجیحات کی ہے، جب کوئی فرد ضرورت بن جائے پھر ماضی میں اُس کے متعلق انسان کی منفی رائے اچانک مثبت جذبات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
یہ سب سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ میں نے بذاتِ خود اپنے اردگرد متعدد بار امّاں کا کہا یہ جملہ ’’جیے جَلائے، مرے پَلائے‘‘ سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اورکئی دفع تو انسانوں کی اس حوالے سے کھلم کھلا منافقت پر میرا سر بری طرح چکرایا ہے۔
زندگی بھر جس فرد کو صبح شام لعن طعن کیا وہ مرتے ہی فرشتہ صفت کیسے بن جاتا ہے، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ زندگی رہتے کسی انسان کی اُس کے سامنے تعریف کر دی جائے تو وہ خوش ہوگا اور تعریف کرنے والے کو اُسے خوشی دینے کا اجر بھی حاصل ہوسکے گا جب کہ مرنے کے بعد اُس کے نام پر تاج محل ہی کیوں نہ تعمیر کروا دیا جائے یا دوسرے کسی قسم کا بھی چونچلا پن زندگی میں اُس انسان پر ڈھائی زیادتیوں کو مٹا نہیں سکتا ہے۔
کوئی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا ہے، ہرکسی میں کم و بیش خامیاں پائی جاتی ہیں، ہمیں دوسروں کی خامیوں کو درگزرکرنا چاہیے تاکہ سامنے والا ہماری باری میں بھی اپنا ہاتھ ہلکا رکھے۔ عیب جوئی سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے بلکہ احساسات مجروح ہوتے ہیں، شکوے جنم لیتے ہیں اور آپسی رشتوں میں دوریاں آ جاتی ہیں۔
بات اگر معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تحفظ کی ہو تو اُس کے لیے اصلاح کا راستہ کُھلا ہے۔ کسی فرد کے اندر کوئی نامناسب عادت نظر آئے تو طریقے سے تنہائی میں اُسے سمجھایا جاسکتا ہے، صحیح اور غلط کے نتائج بتلا کر راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے۔
انسانی زندگی چند گھڑیوں کا مجموعہ ہے، کب کس کا دوسرے جہان سے بلاوا آ جائے اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر جائے پھر پیچھے والے صرف پچھتاتے رہ جائیں اس سے بہتر ہے ہم اپنے اردگرد موجود لوگوں کو اُن کی زندگی میں ہی اُن کا جائز مقام دیں۔
اخلاقی اعتبار سے انسان پر فرض ہے کہ وہ دوسرے انسان کی قدرکرے، اُس میں موجود خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرے اور اُس کو اپنا مخالف سمجھنے کے بجائے ساتھی تصورکرے۔ ایک معاشرہ صحیح معنوں میں انسانی معاشرہ تبھی بنتا ہے جب وہاں سب انسان یگانگت کے ساتھ زندگی گزاریں اور اپنے آپسی رشتوں کو ناقدری کی بھینٹ چڑھانے سے گریزکریں۔