غربت کے خاتمے کیلئے قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانا ہوگا !!
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
عکاسی: وسیم نیاز
دنیا کو درپیش مسائل میں ایک بڑا مسئلہ غربت ہے جس کے خاتمے کیلئے عالمی سطح پراقدامات کیے جا رہے ہیں۔ غربت کو ایک اہم مسئلہ سمجھتے ہوئے 1992 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ تمام رکن ممالک نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی غربت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کا جائزہ لیں تو ان میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے جو 2030ء تک حاصل کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے ناطے پاکستان بھی اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کا پابند ہے۔ پاکستان میں غربت کی صورتحال کیا ہے ، حکومت اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے ،ملک سے غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’غربت کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق اعوان
(چیئرپرسن ، ڈیپارٹمنٹ آف
سوشل ورک، جامعہ پنجاب)
غربت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وسائل اور آبادی کا تناسب دیکھنا لازمی ہے۔ مالتھس کے نظریے کے مطابق آبادی کی ’’ایکسپونینشل گروتھ‘‘ہوتی ہے یعنی دو، چار، آٹھ کے پیٹرن میں جبکہ وسائل لکیر کی مانند ایک، دو، تین، چار کی طرح بڑھتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں وسائل اور آبادی کا تناسب تین طرح سے دیکھاجاسکتا ہے۔ پہلا یہ کہ آبادی اور وسائل برابر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ملک نے آبادی اور وسائل میں توازن برقرار رکھا ہے لیکن مالتھس کے مطابق یہ توازن زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسری صورت میں وسائل آبادی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر وسائل کو ٹھیک سے مینج نہ کیا اور آبادی میں اضافہ ہوتا رہے تو کچھ وقت کے بعد وسائل میں کمی کا رجحان پیدا ہو جائے گا۔ تیسری صورت میں آبادی، وسائل سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ غربت کی اصل وجہ وسائل کی کمی ہے یا آبادی کا بڑھنا؟ ہم جانتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ غربت کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان میں اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جن میں وسائل کا غلط استعمال،ریسورس موبلائزیشن کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔ وسائل کا مطلب قدرتی اور انسانی دونوں وسائل ہیں۔ پاکستان کے پاس ان دونوں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ ریسورس موبلائزیشن کا ہے۔ ہمارے پاس نوجوانوں کی صورت میں ایک بڑا ہیومن ریسورس موجود ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ورک فورس کا حصہ بھی ہے لہٰذا اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے اور غربت کا خاتمہ بھی کرنا ہے تو ہمیں اپنے انسانی وسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں نوجوانوں کو ہنر کی تعلیم دے کر اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ معاشرے میں اپنا بہتر کردار ادا کرسکیں ۔ نوجوانوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مواقع تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سروے کیے جائیں کہ کن ممالک میں کونسی سکلز کی ڈیمانڈ ہے اور پھر نوجوانوں کو اس کے مطابق تیار کرکے دنیا بھر میں بھیجا جائے۔ اگر ہم نے نوجوانوں پر توجہ نہ دی، انہیں ہنرمند نہ بنایا تو ہماری معیشت پر بوجھ بڑھے گا اور چند برس بعد ہمیں مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں قدرتی وسائل ڈھونڈنے اور ان کے درست استعمال کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل پر برابر توجہ دینی ہے۔ ہمیں مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے ہیں جو ہمارے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو ہمارے معاشرے کے تمام مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے ترقی کے نئے مواقع پیدا کریں۔ ہمارے ہاں ایسے ڈگری پروگرامز چل رہے ہیں جن کے بعد نوجوانوں کو بہتر روزگار نہیں ملتا لہٰذا جن پروگرامز کی مارکیٹ ڈیمانڈ کم ہے، ان پروگرامز کے طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر کی لازمی تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ اپنا بہتر روزگار کما سکیں۔ہنر کی یہ تعلیم مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ انہیں فوری روزگار یا پھر کاروبار کیلئے سیڈ گرانٹس اور حکومتی قرض جیسی سکیموں سے فائدہ مل سکے۔ ہر حکومت نوجوانوں کیلئے مختلف پروگرامز لاتی ہے، ہمیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو پائیدار ہوں۔ میرے نزدیک نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے حکومتی سطح پر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسے سافٹ ویئر ہاؤسز اور ادارے قائم کیے جائیں جو طلبہ کو عالمی مارکیٹ سے لنک کریں۔ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مخالف نہیں ہوں لیکن اس پروگرام نے خواتین کو متاثر کیا ہے۔ ایک خاتون جو روزگار کیلئے سفر کرتی تھی،اسے کام کے مواقع ملتے تھے، نیا تجربہ حاصل ہوتا تھا، لوگوں سے مل کر اس کا کتھارسز ہو جاتا تھا، اس کی ذہنی و جسمانی صحت بہتر ہوتی تھی، وہ خاتون اب اس پروگرام کی وجہ سے گھر بیٹھ گئی۔ اگر اس پروگرام کو خواتین کے کام کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو فائدہ ہوگا۔ بیمار یا عمر رسیدہ خواتین جو کام نہیں کرسکتی، انہیں امداد دی جائے، باقی خواتین کی امداد کو کام کرنے سے مشروط کیا جائے۔ بہت سارے ممالک میں جب ادویات کا استعمال بڑ ھا تو انہوں نے پالیسی سازی سے لائف سٹائل میں تبدیلی پر توجہ دی۔لوگوں کے وزن بڑھنے سے جب ان کی صلاحیت میں کمی آئی اور شعبہ صحت پر بوجھ بڑھ رہا ہے تو بعض ممالک نے ٹیکس کو لوگوں کے وزن کے ساتھ منسلک کر دیا۔اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے لوگوں کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک بہترین منصوبہ بندی اور عملدرآمد سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے، اسے ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین، ایف پی سی سی آئی)
دور حاضر میں عالمی سطح پر مہنگائی اور غربت کی ایک بڑی وجہ جنگیں ہیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں امریکا اور یورپ بھی بالواسطہ شریک ہیں جو اس کا خرچ بھی اٹھا رہے ہیں لہٰذا یہ جنگ یورپ کو مہنگی پڑ رہی ہے جس سے ان کے خزانے پر بوجھ بڑھا ہے جو تجارت کے ذریعے دوسرے ممالک کو منتقل ہورہا ہے۔ امریکا نے ٹیرف کا محاذ بھی کھول رکھا ہے۔ وہ اگر چین پر 100 فیصد ٹیرف لگاتا ہے تو چین کی پیداواری لاگت بڑھے گی جس کا اثر ہم پر بھی پڑے گا۔چین بڑی طاقت ہے جو اپنی عزت نفس کو قائم رکھنے کیلئے امریکا پر جوابی ٹیرف لگائے گا جو اس کے برابر ہی ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ چین کے پاس کتنی مالی طاقت ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ بچانے کیلئے قیمت کو کم سے کم سطح پر لے جائے،اس کیلئے چین کو اپنا منافع مزید کم کرنا ہوگا۔ یہ قوی امکان ہے کہ چین یہ بوجھ برداشت کر لے گا لیکن یورپ میں اتنی طاقت نہیں ہے لہٰذا نہ صرف ان کے مقامی لوگوں کے لیے بلکہ دنیا کیلئے بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کا اثر دوسرے ممالک اور پاکستان پر بھی ہوگا۔ اضافہ صرف لوگوں کے استعمال کی اشیاء میں ہی نہیں بلکہ انڈسٹری کیلئے درکار خام مال کی قیمت میں بھی ہوگا جس سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔ ہماری زرعی اجناس کیلئے بیج، کھادو کیڑے مار ادویات درکار ہوتی ہیں جو امپورٹ کی جاتی ہیں لہٰذا جب ان کی قیمت میں اضافہ ہوگا تو اجناس بھی مہنگی ہوںگی۔ مقامی سطح کی بات کریں تو حکومتی پالیسیاں مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام کاروبار پر بوجھ ڈالتا ہے۔ ڈبل ٹیکس، سپر ٹیکس سمیت مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ بوجھ عام آدمی کو منتقل ہوجاتا ہے جس سے اس کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور زندگی متاثر ہوتی ہے۔ عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اس وقت ایک بہترین اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے جس سے کاروبار کو سازگار ماحول ملے۔ ہمارے بینکوں کی شرح سود بہت زیادہ ہے۔ اسے 5 سے 6 فیصد ہونا چاہیے، اس سے مہنگائی میں کمی آئے گی۔ اسی طرح ٹیکس میں اضافہ کے بجائے نئے فائلرز بنائے جائیں اور ٹیکس کے نظام سے ہراسمنٹ ختم کی جائے۔ جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں،ا ن کیلئے آسانی پیدا کی جائے اور ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ ٹیکس سلیبز کے حساب خصوصی کارڈز جاری کیے جائیں اور زیادہ ٹیکس دینے والوں کو سرکاری محکموں میں پروٹوکول دیا جائے۔ ہمارے ٹیکسیشن کے نظام میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے، یقین ہے کہ حکومت اس پر کام کرے گی۔ تیل کی قیمتوں پر حکومت کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ 10 برس قبل ایک آسٹریلین کمپنی نے پاکستان میں سروے کرکے رپورٹ دی تھی کہ ہمارے لائن لاسز زیادہ ہیں۔ اگر بجلی کی بڑی تاروں کو اپ گریڈ کر دیا جائے تو پانچ ہزار میگا واٹ لائن لاسز کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضیاع کا بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اگر بجلی اور تیل کی قیمتوں پر توجہ دے جائے تو ٹرانسپورٹ کرایوں اور مارکیٹ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔ تیل پر بھی ٹیکس میں کمی لانی چاہیے۔ خبریں آرہی ہیں کہ پاکستان سے بھی تیل نکل آیا ہے، خدا کرے پاکستان اس میں خود کفیل ہو جائے اور ہماری تیل کی امپورٹ ختم ہو جائے۔
عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
17 اکتوبر 1992ء کو اقوام متحدہ کی جنرل میں قرارداد نمبر 47/196 منظور ہوئی جو غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے حوالے سے تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک 17 اکتوبر کو دنیا بھر میں ہر سال غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے درمیان مثبت ڈائیلاگ کا فروغ ہے کہ کس طرح لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ ایسے افراد جو تعلیم، صحت، سماجی اور معاشی انصاف سے محروم ہیں، ان کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے ہیں تاکہ وہ ایک بہتر زندگی گزار سکیں جہاں انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق میسر ہوں۔ ہر سال عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک یہ اعادہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں تسلسل کے ساتھ مثبت اورتعمیری پالیسیاں بناکر لوگوں کو سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، چھت و دیگر سہولیات دینے کیلئے وسائل پیدا کریں گے ۔ ہم نے بھی اس قرارداد پر دستخط کر رکھے ہیں لہٰذا جہاں دنیا عالمی سطح پر اقدامات اٹھا رہی ہے وہاں پاکستان کی حکومت ایسے اقدامات اٹھانے کی پابند ہے جن سے غریب آدمی کی زندگی کو آسان بنایا جائے گا، اس کی مشکلات کو کم کیا جائے گا،ا سے تعلیم اور صحت کی سہولیات دی جائیں گی تاکہ وہ ایک عام شہری کی طرح زندگی گزار سکے۔ غریب اور کم آمدنی والے افراد کی مدد، سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی اور پائیدار معاشی ترقی کے تسلسل سے پاکستان میں غربت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ دنیا کی 9 فیصد اور پاکستان کی 44.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پائیدار ترقی کے اہداف غربت کے خاتمے کے اقوام متحدہ کے غربت کا خاتمہ ایسے اقدامات عالمی سطح پر کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو پاکستان میں نوجوانوں کی سے اقدامات غریب افراد زندگی گزار میں اضافہ کی قیمتوں کی وجہ سے لوگوں کے لوگوں کی عالمی دن کے مطابق حوالے سے اضافہ ہو کی زندگی رہے ہیں کو بہتر ملک میں غربت کی کیلئے ا توجہ دی کیا گیا پر توجہ ہوتی ہے ہے اور ہیں جو فیصد ا اور ان کے لیے رہا ہے پر بھی کیا ہے رہی ہے
پڑھیں:
آئینی ترامیم، اصل فائدہ کس کا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-5
دنیا بھر میں ریاستوں اور ممالک کا نظم و نسق چلانے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ان کو پورے ملک کے خاص وعام پر یکساں نافذ کرکے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس دنیا ہی کا ایک ملک ہے لیکن اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس ملک میں قوانین، آئین، دستور سب کچھ ہے لیکن ان سب چیزوں کا استعمال ملک کا نظم ونسق چلانے کے بجائے اس نام پر چند لوگوں اور مخصوص طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے، پاکستان کے آئینی سفر میں جو بھیانک اندھے موڑ آئے ہیں اور محض ایک شخص یا چند افراد کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں وہ شاید دنیا میں کہیں پیش نہیں آئے۔ امریکا جیسا ملک بھی اپنی دوسو سالہ تاریخ میں اب تک 27 ترامیم کرسکا ہے لیکن پاکستان صرف 78 برس میں امریکا کے برابر آگیا ہے۔ اور 27 ترامیم کے ذریعہ 350 سے زیادہ شقیں تبدیل کردی گئی ہیں۔ اگر پاکستانی آئین کا تیاپانچا کرنے کا تجزیہ کیا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن موٹا موٹا تجزیہ کریں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ پاکستان کا آئین جس کو کہا اور مانا جاتا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ 1947 سے چھبیس برس تک کیا پاکستان سرزمین بے آئین رہا۔ کوئی 1956 اور 62 کے دساتیر کا بھی ذکر کرسکتا ہے لیکن صحیح معنوں میں جس کو دستور کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973 ہی کا دستور ہے۔
1973 کے متفقہ منظور کردہ آئین پاکستان میں اب تک 27 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے دور میں ہوئیں یعنی 73 سے 77 کے دوران سات ترامیم عمل میں آئیں۔ تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ آٹھ ترامیم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہوئیں اور اگر مسلم لیگ کو سامنے رکھیں تو اس کا ریکارڈ سب سے زیادہ نکلے گا۔ بہر حال ترتیب یوں ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی، حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم سے پہلے تک آئین پاکستان کی تین ترامیم، آٹھویں، سترہویں اور اٹھارہویں سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہیں، پہلی دو ترامیم کا تعلق تو غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا، آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کے لیے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کے لیے باعث تقویت کہا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اختلافات شدید ہیں اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے بعض اختیارات ہی کو ملکی نظام میں عدم توازن کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے، خصوصاً سندھ میں تعلیم، صحت اور بلدیات سے متعلق قوانین کے غلط استعمال نے نزاع پیدا کیا ہے۔ البتہ اٹھارہویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی بھی تصورکیا جاتا ہے۔ آئین میں ترامیم کب کب اور کیوں کی گئیں یہاں ان کا مختصر جائزہ لیا جارہا ہے۔ 1973 کے دستور کی منظوری کے بعد ایک سال سے کم مدت میں اس میں۔ پہلی ترمیم: 4 مئی 1974ء کو کی گئی آئین پاکستان میں اس پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی، اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ترمیم ہے جس نے پاکستان سے برطانیہ اور امریکا تک ہیجان برپا کردیا، اور آج تک اس ترمیم کو چھیڑنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہیں، لیکن مذہبی مسلکوں، لسانی اور علاقائی گروہوں اور سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کے باوجود قوم ختم نبوت کے مسئلے پر متفق ہوجاتی ہے اور ایسی کوشش کو ناکام بنادیتی ہے۔ اس لیے اس ترمیم کے تحفظ کے لیے کوئی ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں نہ اٹھے تو بھی قوم اس کا تحفظ کرتی ہے۔
آگے چل کر اقتدار کو مضبوط کرنے اور عوام کے حقوق غصب کرنے والی ترامیم آنا شروع ہوگئیں ان میں آئین کی تیسری ترمیم بھی ہے جو 18 فروری 1975ء کو منظور ہوئی، اس ترمیم میں احتیاطی حراست کی مدت کو بڑھایا گیا۔ ’’preventive detention‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ یعنی حکومت ہی فیصلہ کرے گی کہ کون ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث یے۔ جو حکومت مخالف ہے وہ لاپتا کیا جاسکتا ہے۔ چوتھی ترمیم: 21 نومبر 1975 کو کی گئی جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔ پانچویں ترمیم: 5 ستمبر 1976 کو ہوئی اس کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالتوں کا اختیارِ سماعت وسیع کیا گیا۔ چھٹی ترمیم 22 دسمبر 1976 ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کی کوشش میں ساتویں ترمیم: 16 مئی 1977ء کو منظور کی گئی، اس کے ذریعہ وزیر اعظم کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ شاید یہ خوف کی نفسیات کی پہلی ترمیم تھی۔
ان سات ترامیم کے بعد 5 جولائی 1977 کو مضبوط کرسی، اور زیادہ اختیارات رکھنے والے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا اور گیارہ سالہ مارشل لا نے جگہ لے لی، لیکن بین الاقوامی برادری میں منہ دکھانے کے لیے نام نہاد جمہوریت تو لانا ہی تھی، چنانچہ غیر جماعتی انتخابات کروا کے اسمبلی بنائی گئی۔ اور اس اسمبلی سے آٹھویں ترمیم 11 نومبر 1985ء کو منظور کروائی گئی، اس موقع پر پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ ایک بار پھر نویں ترمیم کی ضرورت پڑی ملک بھر میں جنرل ضیا کو ان کا نظام مصطفی کا وعدہ یاد دلایا جارہا تھا تو 1985 ہی میں شریعہ لا کو ملک کے اعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔ یہ بات آج تک درجہ دینے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ دسویں ترمیم 29 مارچ 1987 کو منظور کی گئی جس کے تحت پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاسوں کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔
اس کے بعد کی ترامیم مسلم لیگی اور بے نظیر ادوار میں کی گئیں۔ گیارہویں ترمیم: 1989ء کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ اس کے بعد مخالفین کے خلاف استعمال کے لیے بارہویں ترمیم: 1991 میں منظور ہوئی جس کے تحت سنگین جرائم کے تیز ٹرائل کے لیے خصوصی عدالتیں تین سال کے لیے قائم کی گئیں۔ اور یہ خصوصی عدالتیں ان ترامیم کو منظور کرنے والوں سمیت سب کے لیے آج بھی مشکل بنی ہوئی ہیں۔
ایک بار پھر سیاسی نظام مقتدر قوتوں کے مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہوگیا تو تیرہویں ترمیم 1997 میں لائی گئی جس کے تحت صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیار ختم کیا گیا۔ پھر 3 جولائی1997 کو ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔ اور چودھویں ترمیم منظور کی گئی۔ قیام پاکستان کے اصل مقصد نفاذ اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے پندرہویں ترمیم 1998 کے ذریعہ شریعہ لا کو نافذ کرنے کے بل کو پاس نہیں کیا گیا۔ سولہویں ترمیم 1999ء کے ذریعہ کوٹا سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔ اس کام میں بھی عوام کی نمائندگی کے دعویدار اور کوٹا سسٹم کی مخالفت کی دعویدار ایم کیو ایم بھی شامل رہی۔
جنرل پرویز مشرف کو قوت دینے کے لیے سترہویں ترمیم 2003ء کے ذریعہ صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ بعد میں نیم جمہوری ڈرامے کے دوران اٹھارہویں ترمیم بھی آگئی 8 اپریل 2010ء کو منظور کردہ اس ترمیم میں NWFP کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔
(جاری ہے)