امریکی سلطنت کے زوال کی علامات
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
ڈونلڈ ٹرمپ نے رنگا رنگ وعدوں کے ذریعے وائٹ ہاوس میں داخلے کی راہ ہموار کی تھی اور پوری دنیا پر امریکہ کی سلطنت قائم کرنے کی خوشخبریاں سنائی تھیں لیکن اب اس نے صیہونیوں سے بھی زیادہ انتہاپسند مسخروں کی ٹیم اپنے گرد اکٹھی کر رکھی ہے اور آمرانہ انداز میں حکومت چلا رہا ہے۔ ٹرمپ نے بین الاقوامی سطح پر تمسخر آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ کانگریس میں ڈیموکریٹس کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ اپنے اتحادیوں، دوستوں اور حامیوں سے بھی توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے جس کے باعث کوئی بھی اس کی اطاعت کرنے پر راضی دکھائی نہیں دیتا جبکہ اقتصادی اور تجارتی میدان میں ہر ایک سے بھتہ وصول کرنے کی پالیسی نے سب کو امریکہ سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے اپنے حریف ممالک سے بھی آمرانہ رویوں کے باعث عالمی سطح پر ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مدمقابل قوتیں ایکدوسرے کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی سلامتی کو بھی نئی عالمی جنگ شروع ہونے جیسے شدید خطرے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کانگریس میں ڈیموکریٹس سے اندھے ٹکراو کے باعث بجٹ منظور نہیں ہو پایا اور حکومتی ادارے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور حکومت سے وابستہ بہت سے شعبے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس دوران بجٹ سے مربوط ایسے ادارے بھی معطل ہو کر رہ گئے ہیں جن کا براہ راست تعلق نومبر میں منعقد ہونے والے مڈٹرم الیکشن سے تھا۔ اس الیکشن کے نتیجے میں ایوان نمائندگان اور سینٹ میں سیٹوں کی تعداد میں ردوبدل کا امکان پایا جاتا ہے۔
سینکڑوں حکومتی اہلکاروں کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ دسیوں ہزار افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کے قریب قرضہ اور سات ٹریلین ڈالر کے قریب بجٹ میں خسارہ ہے جبکہ اقتصادی ترقی کم ہو گئی ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا سامنا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر ڈالر کی بجائے سونے کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور سونے کی عالمی قیمت ایک اونس کے بدلے 4300 ڈالر سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ مختلف ممالک اپنے ڈالر کے ذخائر کم کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوست اور حریف ممالک دونوں سے اقتصادی جنگ نے امریکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جبکہ چین اس سے پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے اور نپے تلے اقدامات کے ذریعے اپنی اقتصاد کو ترقی کی جانب لے جا رہا ہے۔
یوکرین جنگ میں روس کو کنٹرول اور کمزور کرنے کی پالیسی پوری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس کے الٹے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے اخراجات یورپ برداشت کر رہا ہے جبکہ اسلحہ فراہم کرنے کی ذمہ داری امریکہ کی بیمار معیشت پر ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو زیادہ مہلک ہتھیار بھی فراہم کیے لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔ لہذا آنے والے دنوں میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مذاکرات کو ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے جس میں محدود پیمانے پر معاہدے متوقع ہیں۔ ایسے ہی جیسے چینی صدر کی دھمکیوں کے بعد پسپائی اختیار کی تھی اور ایپک کے ایشیائی اجلاس میں چینی صدر سے ملاقات کو غنیمت جانا گیا تھا تاکہ کچھ حد تک چین کے اقتصادی اقدامات سے بچا جا سکے۔ امریکہ کے ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ 2008ء سے بھی زیادہ شدید اقتصادی بحران درپیش ہے۔
امریکہ کی سیاست اور معیشت ہمیشہ سے جنگوں کی آگ جلا کر اور دوسروں کی لوٹ مار کر کے قائم رہی ہے اور گذشتہ چند دہائیوں میں سینکڑوں جنگیں انجام پائی ہیں جن میں بڑے پیمانے پر انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال غزہ کی جنگ ہے جس نے ٹرمپ کو عالمی سیاست کی چوٹی سے زوال کی جانب کھینچا ہے۔ ٹرمپ نے خود کو درپیش تقریباً تمام بین الاقوامی ایشوز میں پسپائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوکرین جنگ روس کے لیے دلدل اور جال بننے کی بجائے یورپ کی معیشت تباہ ہونے اور ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ کی ناکامی کا باعث بن گئی ہے۔ اسی طرح چین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی انتہائی نقصان دہ پسپائی پر ختم ہوئی ہے اور اب یہ بات کی جا رہی ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ٹیکس عائد کرے گا۔
غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکہ کی کے ذریعے کی سلطنت کے خلاف کرنے کی ہے جبکہ گئے ہیں اور اس سے بھی رہا ہے ہوا ہے ہے اور
پڑھیں:
کراچی میں سرد موسم نے خسرہ کے وار تیز کر دیے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں سرد موسم کی آمد کے ساتھ ہی خسرہ کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور شہر کے سرکاری و نجی اسپتالوں میں روزانہ متعدد کم عمر بچے اس وبائی مرض کی علامات کے ساتھ لائے جا رہے ہیں۔ بخار، کھانسی، نزلہ، آنکھوں کی لالی اور جسم پر سرخ دانے—یہ تمام علامات اس انفیکشن کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں جس کی منتقلی نہایت تیزی سے بچوں کے درمیان ہوتی ہے۔
ماہرینِ اطفال نے والدین کو متنبہ کیا ہے کہ خسرہ کوئی معمولی مرض نہیں بلکہ ویکسین نہ لگنے کی صورت میں یہ نمونیا، دماغی سوزش، شدید دوروں (SSPE) اور بعض صورتوں میں جان لیوا پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے، سردی بڑھتے ہی وائرس سرگرم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچوں میں اس بیماری کا پھیلاؤ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ اطفال ڈاکٹر لیاقت علی نے بتایا کہ شہر کے مختلف اسپتالوں میں روزانہ درجنوں بچے خسرہ کی علامات کے ساتھ لائے جا رہے ہیں، اور موجودہ صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ والدین کو حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول پر لازمی عمل کرنا ہوگا، خسرہ کی نمایاں علامات میں نزلہ و کھانسی، تیز بخار، سرخ آنکھیں، منہ میں چھالے اور بعد ازاں چہرے سے شروع ہو کر پورے جسم پر پھیلنے والے دانے شامل ہوتے ہیں۔ یہ بیماری بالخصوص پانچ سال سے کم عمر بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر لیاقت علی نے کہا کہ ای پی آئی پروگرام کے تحت خسرہ سے بچاؤ کی دو مفت ویکسین فراہم کی جاتی ہیں، پہلی نو ماہ کی عمر میں اور دوسری ڈیڑھ سال کی عمر میں، اگرچہ ویکسین لگوانے کے باوجود بھی خسرہ ہو سکتا ہے، مگر بیماری کی شدت نہ ہونے کے برابر رہتی ہے اور پیچیدگیوں کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگے، اُن میں نمونیا، دماغی سوزش اور شدید دورے ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور بعض بچے ایس ایس پی ای جیسی مستقل ذہنی معذوری کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن اے کا ایک دوز خسرہ سے متاثرہ بچوں میں اموات کے خطرے کو نصف تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بیمار بچے کو فوری طور پر الگ رکھنا اور بروقت طبی امداد فراہم کرنا مرض کے پھیلاؤ اور پیچیدگیوں دونوں کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔