Islam Times:
2025-10-20@20:41:25 GMT

امریکی سلطنت کے زوال کی علامات

اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT

امریکی سلطنت کے زوال کی علامات

اسلام ٹائمز: غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے رنگا رنگ وعدوں کے ذریعے وائٹ ہاوس میں داخلے کی راہ ہموار کی تھی اور پوری دنیا پر امریکہ کی سلطنت قائم کرنے کی خوشخبریاں سنائی تھیں لیکن اب اس نے صیہونیوں سے بھی زیادہ انتہاپسند مسخروں کی ٹیم اپنے گرد اکٹھی کر رکھی ہے اور آمرانہ انداز میں حکومت چلا رہا ہے۔ ٹرمپ نے بین الاقوامی سطح پر تمسخر آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ کانگریس میں ڈیموکریٹس کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ اپنے اتحادیوں، دوستوں اور حامیوں سے بھی توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے جس کے باعث کوئی بھی اس کی اطاعت کرنے پر راضی دکھائی نہیں دیتا جبکہ اقتصادی اور تجارتی میدان میں ہر ایک سے بھتہ وصول کرنے کی پالیسی نے سب کو امریکہ سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔
 
امریکہ کی جانب سے اپنے حریف ممالک سے بھی آمرانہ رویوں کے باعث عالمی سطح پر ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مدمقابل قوتیں ایکدوسرے کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی سلامتی کو بھی نئی عالمی جنگ شروع ہونے جیسے شدید خطرے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کانگریس میں ڈیموکریٹس سے اندھے ٹکراو کے باعث بجٹ منظور نہیں ہو پایا اور حکومتی ادارے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور حکومت سے وابستہ بہت سے شعبے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس دوران بجٹ سے مربوط ایسے ادارے بھی معطل ہو کر رہ گئے ہیں جن کا براہ راست تعلق نومبر میں منعقد ہونے والے مڈٹرم الیکشن سے تھا۔ اس الیکشن کے نتیجے میں ایوان نمائندگان اور سینٹ میں سیٹوں کی تعداد میں ردوبدل کا امکان پایا جاتا ہے۔
 
سینکڑوں حکومتی اہلکاروں کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ دسیوں ہزار افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کے قریب قرضہ اور سات ٹریلین ڈالر کے قریب بجٹ میں خسارہ ہے جبکہ اقتصادی ترقی کم ہو گئی ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا سامنا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر ڈالر کی بجائے سونے کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور سونے کی عالمی قیمت ایک اونس کے بدلے 4300 ڈالر سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ مختلف ممالک اپنے ڈالر کے ذخائر کم کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوست اور حریف ممالک دونوں سے اقتصادی جنگ نے امریکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جبکہ چین اس سے پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے اور نپے تلے اقدامات کے ذریعے اپنی اقتصاد کو ترقی کی جانب لے جا رہا ہے۔
 
یوکرین جنگ میں روس کو کنٹرول اور کمزور کرنے کی پالیسی پوری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس کے الٹے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے اخراجات یورپ برداشت کر رہا ہے جبکہ اسلحہ فراہم کرنے کی ذمہ داری امریکہ کی بیمار معیشت پر ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو زیادہ مہلک ہتھیار بھی فراہم کیے لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔ لہذا آنے والے دنوں میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مذاکرات کو ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے جس میں محدود پیمانے پر معاہدے متوقع ہیں۔ ایسے ہی جیسے چینی صدر کی دھمکیوں کے بعد پسپائی اختیار کی تھی اور ایپک کے ایشیائی اجلاس میں چینی صدر سے ملاقات کو غنیمت جانا گیا تھا تاکہ کچھ حد تک چین کے اقتصادی اقدامات سے بچا جا سکے۔ امریکہ کے ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ 2008ء سے بھی زیادہ شدید اقتصادی بحران درپیش ہے۔
 
امریکہ کی سیاست اور معیشت ہمیشہ سے جنگوں کی آگ جلا کر اور دوسروں کی لوٹ مار کر کے قائم رہی ہے اور گذشتہ چند دہائیوں میں سینکڑوں جنگیں انجام پائی ہیں جن میں بڑے پیمانے پر انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال غزہ کی جنگ ہے جس نے ٹرمپ کو عالمی سیاست کی چوٹی سے زوال کی جانب کھینچا ہے۔ ٹرمپ نے خود کو درپیش تقریباً تمام بین الاقوامی ایشوز میں پسپائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوکرین جنگ روس کے لیے دلدل اور جال بننے کی بجائے یورپ کی معیشت تباہ ہونے اور ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ کی ناکامی کا باعث بن گئی ہے۔ اسی طرح چین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی انتہائی نقصان دہ پسپائی پر ختم ہوئی ہے اور اب یہ بات کی جا رہی ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ٹیکس عائد کرے گا۔
 
غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ کی کے ذریعے کی سلطنت کے خلاف کرنے کی ہے جبکہ گئے ہیں اور اس سے بھی رہا ہے ہوا ہے ہے اور

پڑھیں:

ڈرگ ڈیلر کہنے پر کولمبیا کے صدر نے ٹرمپ کو کھری کھری سنا دیں

ڈرگ ڈیلر کہنے پر کولمبیا کے صدر نے ٹرمپ کو کھری کھری سنا دیں ، انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ تمہیں کولمبیا کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، تمہیں انسانیت سیکھنے کیلئے ون ہنڈریڈ ائرز آف سولی ٹیوڈ نامی کتاب پڑھنی چاہئے ،میں تمھاری طرح کاروبار میں نہیں پڑا، میں منشیات ڈیلر تو کیا ایک بزنس مین بھی نہیں ہوں، میرے دل میں دولت کی کوئی ہوس نہیں ہے، میں ایک سوشلسٹ ہوں اور انسانیت اور سب سے زیادہ زندگی کا احترام کرتا ہوں، وہ زندگی جسے تمہارے تیل نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق کولمبیا کے صدر گوستاوو پیٹرو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ امریکا نے کارابین کے علاقے میں ایک حملے کے دوران کولمبیا کے ایک ماہی گیر کو قتل کیا، حالانکہ امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کشتی جو ایلخاندرو کی تھی، منشیات لے کر جا رہی تھی۔

جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے کولمبیا کی امداد میں کٹوتی اور نئی ٹریفز عائد کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کولمبیا نے منشیات کی پیداوار پر قابو پانے میں ناکامی کے باوجود امریکہ سے امداد حاصل کی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس امداد کو روک دیا جائے۔

یاد رہے کہ یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب ٹرمپ نے کولمبیا پر منشیات کی پیداوار پر قابو پانے میں ناکامی کا الزام عائد کیا اور پیٹرو کو ”غیر قانونی منشیات کے تاجر“ قرار دیا۔

کولمبیا کو اس وقت امریکا سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد مل رہی ہے، لیکن ٹرمپ کے حالیہ بیان اور امداد میں کٹوتیوں کی دھمکی کے بعد یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ کولمبیا میں امریکی امداد پر انحصار کرنے والے مختلف منصوبوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اور دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑ آ سکتا ہے۔

کولمبیا کی حکومت اور امریکی انتظامیہ دونوں ہی اس معاملے پر مزید ردعمل دینے کے لیے تیار ہیں، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ دونوں ممالک اس تنازعے کو کس طرح حل کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ٹرمپ پر ایک اور قاتلانہ حملے کی کوشش؟
  • ڈرگ ڈیلر کہنے پر کولمبیا کے صدر نے ٹرمپ کو کھری کھری سنا دیں
  • غزہ میں ٹرمپ کا جنگبندی منصوبہ اسرائیلی رژیم کے ہاتھوں ناکام ہو گا، امریکی ماہر
  • منشیات امریکا سمگل کرنے والی آبدوز تباہ، ٹرمپ کا 25000 امریکیوں کو موت سے بچانے کا دعویٰ
  • ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت
  • امن معاہدے کے اثرات
  • امریکہ۔سعودی عرب دفاعی معاہدے کے پس منظر میں، ریاض کا چاہتا ہے؟
  • ٹرمپ زیلنسکی ملاقات ناخوشگوار رہی، ذرائع
  • روس کے خلاف جنگ میں یوکرین امریکی ٹوما ہاک میزائل کیوں چاہتا ہے؟