مودی کے دور میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خوفناک اضافہ، مذہبی ہم آہنگی خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
بھارت میں مودی حکومت کی تیسری مدت کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ستمبر کے ایک ماہ میں مختلف ریاستوں سے 6 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جو اقلیتوں کی عدمِ تحفظ اور سماجی تقسیم کی گہری ہوتی خلیج کو ظاہر کرتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مودی حکومت کی تیسری مدت میں مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔
ستمبر 2025 کے دوران مختلف ریاستوں مدھیہ پردیش، اتر پردیش، گجرات، اترا کھنڈ اور بہار، سے کم از کم 6 واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے، جو اس رجحان کے پھیلاؤ اور اقلیتوں کی بڑھتی ہوئی غیر محفوظ حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستانی وزیراعظم ہاؤس میں دیوالی کی تقریب، نریندر مودی کو کچھ سیکھنا چاہیے، بھارتی اپنے ہی وزیراعظم پر پھٹ پڑے
مدھیہ پردیش کے ضلع مندسور میں 16 ستمبر کو 35 سالہ مسلم شہری آصف بابو ملتانی کو مبینہ طور پر گاؤ رکھشکوں نے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ وہ راجستھان سے مویشی خرید کر واپس آ رہے تھے، تاہم پولیس کو ان کے پاس کوئی گائے نہیں ملی۔
اتر پردیش کے ضلع ہاپڑ میں 19 ستمبر کو ایک مسلم خاندان پر حملہ کیا گیا، جب کہ علی گڑھ میں ایک امامِ مسجد مصطفیٰ کو مذہبی نعرہ لگانے سے انکار پر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
گجرات کے علاقے گودھرا میں ایک نوجوان ذاکر جھابھا کو مبینہ طور پر پولیس اسٹیشن کے اندر مارا پیٹا گیا، جس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
اتراکھنڈ کے ضلع اودھم سنگھ نگر میں ’آئی لو محمد‘ کے عنوان سے نکالی گئی ریلی کو پولیس نے اجازت نہ ہونے کے بہانے روک دیا، جس کے بعد متعدد شرکا کو حراست میں لے لیا گیا۔
مزید پڑھیں: مودی اور آر ایس ایس کا گٹھ جوڑ انتہا پسندی کی جڑ، ریاستی وزیر کو قتل کی دھمکیاں
اسی روز بہار کے ضلع مدھوبنی میں مذہبی جلوس کے دوران اونچی آواز میں موسیقی بجانے پر تنازعہ ہوا، جس میں ایک مسلمان شہری محمد ابراہیم پر حملہ کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ واقعات محض مقامی تنازعات نہیں بلکہ بھارت میں مذہبی رواداری کے لیے ایک خطرناک علامت ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور سیاسی ماحول دونوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر کثرت پسندی کے علمبردار ملک میں اقلیتوں کے خلاف اس نوعیت کے واقعات حکومت اور معاشرے دونوں کے لیے ایک سخت امتحان ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اتر پردیش بھارت مودی مودی حکومت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اتر پردیش بھارت مودی حکومت کے خلاف کے ضلع
پڑھیں:
مسلمانوں کی تدفین کے لئے جگہ نہیں! حکومت کا صاف انکار
ٹوکیو (انٹرنیشنل ڈیسک) جاپان میں حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو تدفین کے لیے نئی زمین الاٹ کرنے سے صاف طور پر انکار کردیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان کی حکومت کے اس سخت فیصلے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کے لئے متبادل راستہ اختیار کرناہوگا۔
رپورٹس کے مطابق حکومتی افسران نے کہا ہے کہ ملک میں پہلے سے ہی جگہ کی کمی ہے اور شہروں میں آبادی کے اضافے سے مزید مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
جاپان میں مسلم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تقریباً 2 لاکھ مسلمان رہتے ہیں جن کی آبادی میں گرزتے سال کے ساتھ بڑا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں زیادہ تر مہاجر مزدور ہیں جو ٹیکنالوجی تجارت اور تعلیم کے شعبہ میں اہم تعاون کر رہے ہیں۔
مگر جب تدفین کا معاملہ آتا ہے تو جگہ کی قلت کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ جاپان میں روایتی طور پر لاشوں کو جلا دیا جاتا ہے، مگر مسلمانوں میں لاشوں کو دفن کیا جاتا ہے، جس کے لیے قبرستان کی ضرورت پڑتی ہے۔
حکومت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو قبرستان کے لیے نئی زمین الاٹ نہیں کی جائے گی، میتوں کو ہوائی جہاز سے ان کے آبائی ملک بھیجنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلہ سے وہاں بسنے والے غریب مسلم خاندانوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
واضح رہے کہ جاپان میں بزرگوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے قبرستانوں پر پہلے سے ہی دباؤ ہے۔ ٹوکیو اور اوساکا جیسے شہروں میں ہر انچ زمین سونے کی قیمت پر فروخت ہوتی ہے۔
مسلم طبقہ کئی سالوں سے قبرستان کا مطالبہ کر رہا ہے مگر اب حکومت نے واضح طور پر زمین دینے سے انکار کردیا ہے، ماہرین کا ماننا ہے کہ اس فیصلہ سے مائیگریشن پالیسیوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔