اسلام آباد:

حکومت کی جانب سے ایک بار پھر شوگر ملز کے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے جب کہ کاشتکار نظر انداز ہو رہے ہیں۔

وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی کی قائمہ  برائے غذائی تحفظ  کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ شوگر ملوں پر کرشنگ شروع کرنے کے حوالے سے دباؤ نہیں ڈالیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جس مل کو جب مناسب لگے وہ کرشنگ شروع کر سکتی ہے۔ ملز نومبر کے پہلے ہفتے چلائیں یا 20 نومبر کو یہ ان کی مرضی ہے۔ پچھلے سال گنے کی 400 سے 700 روپے فی من قیمت تھی۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت ہم گنے کی قیمت فکس نہیں کر سکتے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں یکم نومبر تک گنے کی فصل تیار ہو جائے گی۔ شوگر ملز کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم لیٹ ملیں چلائیں، جس ان کی ریکوری اچھی ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت اور شوگر ملز کے درمیان نومبر کے پہلے ہفتے کرشنگ کا معاہدہ ہوا تھا، جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر غذائی تحفظ رانا تنویر نے دستخط کیے تھے۔

وفاقی حکومت نے مکمل طور پر شوگر ملز کے مفاد کو تحفظ دے دیا تھا جب  کہ لیٹ کرشنگ شروع ہونے سے گنے کے کاشتکاروں کو ہمیشہ بھاری نقصان ہوتا ہے۔ لیٹ کرشنگ شروع ہونے سے کاشتکار اگلی فصل بھی بروقت نہیں اُگا سکتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شوگر ملز کے

پڑھیں:

خیبر پختون خوا میں گورنر راج؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اس وقت وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک بڑا ٹکراؤ خیبر پختون خوا حکومت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بقول وفاقی حکومت خیبر پختون خوا حکومت اور دہشت گردوں کے درمیان باہمی گٹھ جوڑ ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کی سرپرستی سے خود کو علٰیحدہ نہ کیا تو صوبے میں گورنر راج لگانے کا آپشن موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگانے کا آئینی اور قانونی اختیار ہے؟ بہت سے قانونی ماہرین کے بقول وفاقی حکومت کسی صوبے میں زبردستی گورنر راج نہیں لگا سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ عمل نہ صرف عدالت میں چیلنج ہوگا بلکہ اس کا فیصلہ بھی حکومت کے خلاف آئے گا۔ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کہ بیش تر اقدامات ریاست مخالف ہیں۔ بنیادی مسئلہ افغانستان کے ساتھ ہے۔ وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ موجودہ افغان حکومت براہ راست پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہے اور تمام تر ڈپلومیسی میں ناکامی کے بعد حکومت کے پاس واحد راستہ طاقت کا استعمال ہے۔ لیکن اس کے برعکس صوبائی حکومت فوجی آپریشن کی مخالف ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ فوجی آپریشن آخری آپشن ہونا چاہیے اور اس سے پہلے معاملات کو سیاسی سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر حل ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے صوبائی اسمبلی میں ارکان اسمبلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں سمیت میڈیا کے ساتھ امن جرگہ طلب کر کے وفاقی حکومت کی مشکلات بڑھا دی ہیں کیونکہ جرگے کے مشترکہ علامیہ میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بند کمروں میں بیٹھ کر سیکورٹی پالیسی ترتیب دینے کی حکمت عملی ختم کی جائے اور اس معاملے میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں لے کر فیصلے کیے جائیں۔ وفاقی حکومت او اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے ممکن ہے کہ گورنر راج کی باتیں بھی اسی دباؤ کی سیاست کا حصہ ہو۔ اس وقت وفاقی حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا کہ کشیدگی صرف صوبائی حکومت پیدا کر رہی ہے درست نہیں بلکہ اس کھیل میں خود وفاقی حکومت بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ جب سیاسی جماعتوں یا حکومتوں کو راستہ نہیں دیا جائے گا تو یقینی طور پر اس کے نتیجے میں انتشار اور ٹکراؤ کی سیاست جنم لیتی ہے۔ وفاقی حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جو بھی سیکورٹی پالیسی صوبائی سطح پر اختیار کی جائے گی اس میں صوبائی حکومت کی شمولیت یقینی ہونی چاہیے۔ اگر اس صوبے میں وفاقی حکومت کو فوجی آپریشن کرنا ہے یا افغانستان کے حوالے سے جو بھی حکمت عملی اختیار کرنی ہے اس میں صوبائی حکومت کو نظر انداز کیا گیا تو اس سے مسائل اور زیادہ گمبھیر ہو جائیں گے اور اس کے خلاف ایک بڑا رد عمل بھی آ سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ صوبائی امن جرگے میں جو فیصلہ کیا گیا تھا اس میں پی ٹی آئی شامل نہیں تھی بلکہ تمام صوبائی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس لیے اگر صوبے کی تمام جماعتوں کو نظر انداز کر کے فوجی آپریشن کیا جاتا ہے تو یہ مزید ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت شامل کچھ افراد چاہتے ہیں کہ صوبے میں گورنر راج بھی لگے اور صوبائی حکومت کو دیوار سے لگایا جائے۔ کیونکہ وفاقی حکومت کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جتنا زیادہ ٹکڑا ہو پیدا ہوگا اتنا ہی سیاسی فائدہ موجودہ حکمرانوں کو ہوگا۔ حکومت یہ بات بھی پیش نظر رکھے کہ اب پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اور جے یو آئی بھی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ ہم 27 ویں ترمیم کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر ہمیں اس کے لیے ضرورت پڑی تو ہم ایک بڑی تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن فوجی آپریشن کی بھی مخالفت کر چکے ہیں۔ اسی طرح اے این پی بھی وفاقی حکومت کے خلاف نظر آتی ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کا تمام صوبائی جماعتوں سے ٹکراؤ کا پیدا ہونا خود اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ وفاقی وزرا جب براہ راست صوبے میں گورنر راج کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت مسائل کے حل میں کتنی سنجیدہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان افغانستان کے تعلقات میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں اور تمام تر سیاسی اور ڈپلومیسی حکمت عملی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں ہے تو اسے صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا اور نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ تمام صوبائی جماعتوں سمیت قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لینا ہی اتفاق رائے کی پالیسی کو ترتیب دے سکے گا۔ گورنر راج سے وفاق اور صوبے کے درمیان تلخیاں پیدا ہوں گی اور اس کا رد عمل بھی شدید ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے اور جب ہم اس جماعت کو دہشت گرد جماعت کے طور پر پیش کریں گے تو اس جماعت کا رد عمل بھی سامنے آئے گا جو پہلے سے جاری دہشت گردی کی جنگ میں مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ وزیر اعلیٰ نے اب تک جتنے بھی سیاسی اور قانونی راستے اختیار کیے ہیں اس میں وفاقی حکومت کا رویہ مفاہمت سے زیادہ ٹکرا کر نظر آتا ہے جو حالات کو خرابی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف جنگ یا فوجی آپریشن کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت اور ان کے وزیروں کو چاہیے کہ وہ صوبائی معاملات میں اس حد تک مداخلت نہ کریں یا وہ لب و لہجہ اختیار نہ کریں جو فریقین کو دوسرے کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دے۔ بنیادی طور پر تو حکومت پر زیادہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تحمل اور بردباری کے ساتھ سیاسی مسائل کا حل تلاش کرے۔ حکومت کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ابھی خیبر پختون خوا کے لوگ ووٹ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر تبدیلی چاہتے ہیں۔ لیکن اگر لوگوں کا ووٹ کی سیاست سے اعتبار اُٹھ جائے یا عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جائے تو اس کا رد عمل بہت بڑے انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے لوگوں کو دیوار سے لگانے کے بجائے ان کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا ہی حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ گورنر راج پر صرف پی ٹی آئی کو اعتراض نہیں ہے بلکہ دیگر جماعتیں جن میں جے یو آئی اور اے این پی شامل ہیں ان کے بقول گورنر راج مسئلے کا حل نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سیاسی ایڈونچر کے حامی ہیں اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی کے پی کے کی حکومت کے بارے میں سخت رد عمل دیا اور ان کو قبول نہ کرنے کے بیانات یا تقریروں نے بھی ماحول کو خراب کیا ہے۔ اس لیے حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ دونوں کو اپنے موجودہ طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خود پی ٹی آئی کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مزاحمت کی سیاست میں ریڈ لائن کو کراس نہیں ہونا چاہیے اور جو ریاست کے مفادات ہیں اس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا یا اس پر سیاست کرنا بھی قومی خدمت نہیں ہے۔

اداریہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، سہیل آفریدی
  • سیلاب سے معاشی نقصان مجموعی قومی پیداوار کے 9.5فیصد سے تجاوز کر چکا: مصدق ملک
  • پابندی سخت، قیمتیں آسمان پر—ہیلمٹ مارکیٹ میں منافع خوروں کا راج
  • چینی کے ہول سیل ریٹ میں کمی آگئی
  • فیصل آباد: حکومت کی سخت پابندی نے ہیلمٹ فروشوں کی چاندی کردی
  • شوگرملز مالکان جان بوجھ کر کرشنگ کا آغاز نہیں کررہے ہیں،کامریڈ اقبال
  • وفاقی حکومت کی جانب سے ای مارکنگ کے تمام سوفٹ ویئرز سندھ کے حوالے
  •  حکومت کی جانب سے پتنگ بازی کی مشروط اجازت، اسمبلی میں ملا جلا ردعمل
  • این ایف سی اجلاس: خیبر پختونخوا کے مفادات کے بھرپور اور مؤثر دفاع کا فیصلہ
  • خیبر پختون خوا میں گورنر راج؟