افغانستان میں بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
جو حضرات پاکستان کے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کیا انہیں افغانستان میں بھارت کے اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا آزار دکھائی دے رہا ہے؟
بھارت افغان تعلقات کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے: پاکستان دشمنی۔
بھارت صرف یہ چاہتا ہے پاکستان کو بیچ میں سینڈ وچ بنا لیا جائے۔ ایک طرف مشرق میں بھارت ہو اور دوسری جانب مغرب میں افغانستان میں ایک پاکستان مخالف حکومت ہو اور پاکستان کو دونوں اطراف سے انگیج کر لیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان ہی ریاست ہیں‘
بھارت کا یہ کھیل پہلے دن سے جاری ہے تقسیم ہندوستان کے وقت صوبہ سرحد نے بھارت کی بجائے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو کانگریس ہی کی ایما پر ایک طرف پشتونستان کا نعرہ بلند کیا گیا اور دوسری جانب افغانستان سے رابطے کیے گئے کہ وہ شمال مغربی سرحدی صوبے پر اپنا حق جتائے۔
ڈیورنڈ لائن کے بیانیے کا ایک سیاق سباق یہ بھی ہے چنانچہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے پہلے مرحلے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ ( جو بعد میں اگر چہ واپس لے لیا گیا۔)
ایک طویل عرصہ بھارت نے افغانستان سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے رکھے۔ پاکستان مخالف تحریکیں چلیں اوور بھارت اور افغان حکومتوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا کھیل چلتا رہا۔
بھارت کی سہولت کاری سے افغان وزیر اعظم ہاشم خان کی سرپرستی میں پشتون زلمے قائم ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ زلمے گڑ بڑ پھیلائے گی اور افغان فوج پاکستان پر حملہ کر دے گی۔
بھارت میں افغانستان کے سفیر سردار نجیب اللہ تھے۔ انہوں نے کہا بس آج کل میں قبائلی عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی مرکزی اسمبلی کا انتخاب کر کے حکومت قائم کر لیں گے۔
افغان وزیر اعظم داؤد خان نے تو پاکستان میں بغاوت کے لیے باقاعدہ ایک وزارت قائم کی اور اس معاملے میں ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم ہوتے بھی اس کا قلمدان خود سنبھالا۔
مزید پڑھیے: بیت اللہ سے
قیام پاکستانن کے ابتدائی دنوں میں بھارت کی قیادت جو یہ کہہ رہی تھی کہ پاکستان جلد ہی ختم ہو جائے گا اور پھر سے بھارت میں شامل ہو جائے گا تو اس منصوبے میں صرف بھارت کی قیادت شامل نہیں تھی، افغان قیادت بھی اس کے ساتھ تھی۔ آپ اسے بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کہہ سکتے ہیں۔
پاکستانن کا اسٹریٹجک ڈیپتھ کا تصور صرف یہ تھا کہ بھارت اس منصوبے میں کامیاب نہ ہو۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ پاکستان نے افغانستان پر قبضہ کرنا تھا یا اس نے بھارتی حملے کے جواب میں افغانستان کی تزویراتی گہرائی میں جا کر جواب دینا تھا۔ یہ تصور صرف اتنا تھا کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت رہے ۔
پاکستان کے ایک جانب 2912 کلومیٹر پرر بھارت بیٹھا ہے۔ اور دوسری جانب 2640 کلومیٹر پر افغانستان بیٹھا ہے۔ اگر دونوں طرف دشمنی ہو تو پاکستان سینڈوچ بن جاتا ہے۔ اسی چیز سے بچنے کے لیے پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی لیکن جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو پاکستان نے بھی کھل کر جوابی کارروائی کر دی۔
اس وقت بھی بھارت اور افغانستان کے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو قیام پاکستان کے وقت تھی۔ بھارت کب سے افغانستان کا دوست ہو گیا۔ وہ صرف اس چانکیائی فارمولے پر عمل پیرا ہے کہ دشمن کے پڑوسی کو دوست بنا کررکھو۔ اس دوستی میں افغانستان صرف استعمال ہو گا اس ملے گا کچھ نہیں۔
بین الاقوامی پابندیوں اور جٖغرافیائی مسائل کی وجہ سے بھارت ایک حد سے افغانستان کو کچھ نہیں دے سکتا۔ نہ عسکری طور پر، نہ معاشی طور پر۔ افغانستان کا فروٹ سیدھا پاکستان کی منڈیوں تک آتا ہے، اب اگر کوئی اسے چاہ بہار کے راستے بھارت کا طویل سفر کرنا چاہتا ہے تو کر کے دیکھ لے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ امن فارمولا : کون کہاں کھڑا ہے؟
افغانستان میں دریائے کابل اور کنڑ پر ڈیموں میں بلاشبہ بھارت نے فنٖڈز دیے ہیں لیکن یہ بھی عملا ایک تزویراتی سرگرمی ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو جانے والے پانی کو کم کرنا ہے۔ یعنی جو آبی جارحیت بھارت نے پاکستان کے خلاف خوود کی ہے ویسا ہی کام وہ افغانستان سے بھی کروانا چاہتا ہے۔
بھارت کے ساتھ اشتراک کار میں افغانستان کے لیے کچھ خاص نہیں ہے سوائے اس کے وہ بھارت کی پراکسی کے لیے سازگار زمین فراہم کرے۔ اس کے براہ راست معاشی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔
پاکستان افغان امپورٹس کا سب سے بڑا ٹرانزٹ روٹ بھی ہے۔ اس کا حجم قریب 60 فیصد ہے۔ ان امکانات کو نظر انداز کر بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کا ایندھن بن جانا افغانستان کے خسارے کا سودا ہی ہو گا۔
لیکن یہاں وہ وقت بھی ہم نے دیکھا کہ ابھی ماضی قریب میں ہی افغانستان نے پاکستان کے ساتھ تجارتی بات چیت یہ کہہ کر معطل کر دی کہ اس میں جب تک بھارت کو بھی شامل نہیں کیا جاتا ہم کوئی بات نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: مریم نواز یا علی امین گنڈا پور
یہ جو دوحہ معاہدہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی افغان قیادت نے ڈیرنڈ لائن کا سہرا کہنا شروع کر دیا ہے یہ طرز عمل بتا رہا ہے کہ امن معاہدے کی مدت بھی طویل نہیں ہو گی۔
بھارت اپنی اسٹریٹیجک ڈیپتھ کو مزید بڑھائے گا اور پاکستاان اس صورت حال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ معاملات بہتر نہ ہوئے تو منظر نامے میں کافی کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔
اسٹریٹیجک ڈیپتھ افغانستان بھارت بھارت اور افغانستان کی پینگیں پاک افغان کشیدگی پاکستان ڈیورنڈ لائن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان بھارت پاک افغان کشیدگی پاکستان ڈیورنڈ لائن میں افغانستان افغانستان میں افغانستان کے پاکستان کے اور افغان میں بھارت کے ساتھ کے لیے یہ بھی تھا کہ
پڑھیں:
افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، آسٹریلیا کا طالبان حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
آسٹریلیا نے افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور بچیوں کے خلاف عائد شدید پابندیوں کے پیشِ نظر، طالبان حکومت کے 4 اعلیٰ حکام پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ یہ حکام خواتین اور بچیوں کے حقوق سلب کرنے اور افغانستان میں اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو کمزور کرنے میں ملوث ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان سے بڑھتی دہشت گردی، عالمی رد عمل کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ آسٹریلیا ان ممالک میں شامل تھا جس نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنے فوجی نکال لیے تھے۔ آسٹریلیا 2 دہائیوں تک نیٹو کی زیرِ قیادت بین الاقوامی فورس کا حصہ رہا، جس نے افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دی اور طالبان کے خلاف کارروائیاں انجام دیں۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی سطح پر انہیں خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے، جن میں تعلیم، ملازمت، سفر اور عوامی زندگی میں حصہ لینے پر قدغن شامل ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب
پینی وونگ کے مطابق پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں 3 طالبان وزرا اور چیف جسٹس شامل ہیں، جن پر خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق محدود کرنے کا الزام ہے۔
وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ یہ اقدامات آسٹریلوی حکومت کے نئے فریم ورک کے تحت کیے گئے ہیں، جس کے ذریعے وہ براہِ راست ایسی پابندیاں لگا سکتی ہے جن کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کے استحصال کو روکنا ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں خصوصاً خواتین اور بچوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا افغان طالبان پابندی