ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔ تحریر: محمد امین ہدایتی نسب
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے دن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دینے کے دعوے سے متعلق فرمایا تھا: "کوئی بات نہیں، تم اسی خیال میں ڈوبے رہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم کون ہوتے ہو جو کسی ایسے ملک کے بارے میں اظہار خیال کرو جو جوہری ٹیکنالوجی کا حامل ہے؟ اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے کہ ایران کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ہے؟ یہ مداخلت خلاف معمول، غلط اور جبر پر مبنی ہے۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی صدر کے دعوے کے برعکس ایران کا جوہری پروگرام جوں کا توں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے چار ماہ بعد اب ایران کے سپریم لیڈر نے اعلان کر دیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس موقف کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ البتہ کچھ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ مثال کے طور پر سی این این اور وال اسٹریٹ جرنل نے امریکہ کے کچھ حکومتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مشکوک قرار دیا تھا۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے این ایس اے نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی اور اس میں واضح طور پر ٹرمپ کا دعوی غلط ثابت کیا گیا تھا۔ سی این این کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا اور اسے صرف جزوی نقصان پہنچا ہے۔
دوسری طرف روئٹرز اور نیویارک ٹائمز نے بھی اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے ہیں۔ ان کی رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے اس حملے سے نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات کا انفرااسٹرکچر تباہ نہیں ہوا بلکہ افزودہ یورینیم بھی تباہ ہونے سے محفوظ بچ گیا ہے۔ یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھی اپنی رپورٹس میں اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے اور ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ یہ دھچکہ اس قدر سنگین تھا کہ امریکی وزیر جنگ پٹ ہیگسیٹ نے این ایس اے کے سربراہ جنرل جیفری کروز کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی وزیر جنگ کے اس اقدام کے محرکات کے بارے میں لکھا: "این ایس اے کے سربراہ کی برطرفی کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں رپورٹ جاری کرنا تھا۔"
2)۔ ایران اور تین یورپی ممالک کے درمیان "اسنیپ بیک" سے متعلق انجام پانے والے مذاکرات میں مغربی فریق کے طرز عمل سے ظاہر گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ان کے مطالبات بھی دراصل وہی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔ یورپی ممالک نے اسنیپ بیک روکنے کے لیے تین شرائط پیش کی تھیں: پہلی آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو امریکی حملے کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینا، دوسری 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنا اور تیسری ایران کی جانب سے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنا شامل تھی۔ البتہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے کچھ نئے مطالبات بھی پیش کیے جیسے ایران کے پاس میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم کر دینا وغیرہ۔ یوں مغربی ممالک کے مطالبات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی باقی ہے اور امریکہ اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔
اس سے ہمیں چند اہم پیغامات موصول ہوتے ہیں، جیسے: اول یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے اگرچہ کچھ نقصانات ظاہر ضرور ہوئے ہیں لیکن این ایس اے کی رپورٹ کے مطابق اس کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مذاکرات کے دوران اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے سبز جھنڈی دکھائی لیکن وہ اب بھی ایران سے مذاکرات کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ ان کا اصل مقصد ایران پر فوجی دباو ڈال کر اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دینا ہے۔ لہذا اب یہ حقیقت سب کے لیے واضح ہو چکی ہے کہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار جیسا کہ ٹرمپ سوچ رہا تھا بالکل بھی موثر واقع نہیں ہوا۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایران نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کر رکھی ہے۔
لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی جانب سے ایران کی جوہری ایران کا جوہری پروگرام رہبر معظم انقلاب روزہ جنگ کے بعد ہے کہ ایران کے ایران کے خلاف امریکی حملے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسی پر حملے کے ایس اے امریکہ کے ایران نے نہیں ہو پہلے سے کیا ہے ہے اور کے لیے دیا ہے اور اس
پڑھیں:
ایران کیخلاف کسی کو بھی عراقی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں، قاسم الاعرجی
علی لاریجانی کیساتھ اپنی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں عراقی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کو جوہری توانائی کے پُرامن استعمال کا مکمل حق حاصل ہے۔ لہٰذا ایران کا جوہری مسئلہ، طاقت کی بجائے بات چیت سے حل کیا جانا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ اس وقت تہران میں عراق کی قومی سلامتی کے مشیر "قاسم الاعرجی" موجود ہیں، جہاں انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب "علی لاریجانی" کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس میں قاسم الاعرجی نے کہا کہ اُن کا حالیہ دورہ تہران، ایران اور عراق کے درمیان تعلقات میں توسیع کا تسلسل ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات اپنی اوج پر ہیں۔ ہم زور دیتے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے ان تعلقات کو مزید گہرا کیا جائے۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ علی لاریجانی سے ملاقات میں سرحدی اور سلامتی سے متعلق مسائل موضوع گفتگو رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی صورت بھی ایران و عراق کی زمین و آسمان، ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ہم کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کے لئے مل کر اقدامات کریں گے۔ بغداد، تہران کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر سختی کے ساتھ کاربند ہے۔ عراق کی فضائی حدود سے ایران پر صیہونی حملے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف شکایت درج کی ہے۔
قاسم الاعرجی نے کہ عراقی وزیراعظم نے عرب لیگ کے اجلاس اور علاقائی ممالک کے سربراہان سے ملاقات میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ کسی کو بھی ایران پر حملے کے لئے عراق کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ غزہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے شرم الشیخ اجلاس میں کوشش کی کہ غزہ میں جاری قتل عام بند ہو جائے۔ آج صیہونی جارحیت کی وجہ سے خطے کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے غزہ میں قائم جنگ بندی ناکام نہیں ہونی چاہئے۔ ایران پر پابندیوں کے حوالے سے قاسم الاعرجی نے کہا کہ ملت عراق نے پابندیوں سے بہت نقصان اٹھایا ہے اس لئے ہم کسی بھی ملک پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ہم اس وقت بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مشکلات کا حل چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ تمام ممالک کو جوہری توانائی کے پُرامن استعمال کا مکمل حق حاصل ہے۔ لہٰذا ایران کا جوہری مسئلہ، طاقت کی بجائے بات چیت سے حل کیا جانا چاہئے۔