Islam Times:
2025-12-06@23:23:10 GMT

ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟

اسلام ٹائمز: لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔ تحریر: محمد امین ہدایتی نسب
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے دن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دینے کے دعوے سے متعلق فرمایا تھا: "کوئی بات نہیں، تم اسی خیال میں ڈوبے رہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم کون ہوتے ہو جو کسی ایسے ملک کے بارے میں اظہار خیال کرو جو جوہری ٹیکنالوجی کا حامل ہے؟ اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے کہ ایران کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ہے؟ یہ مداخلت خلاف معمول، غلط اور جبر پر مبنی ہے۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی صدر کے دعوے کے برعکس ایران کا جوہری پروگرام جوں کا توں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے چار ماہ بعد اب ایران کے سپریم لیڈر نے اعلان کر دیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس موقف کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ البتہ کچھ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ مثال کے طور پر سی این این اور وال اسٹریٹ جرنل نے امریکہ کے کچھ حکومتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مشکوک قرار دیا تھا۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے این ایس اے نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی اور اس میں واضح طور پر ٹرمپ کا دعوی غلط ثابت کیا گیا تھا۔ سی این این کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا اور اسے صرف جزوی نقصان پہنچا ہے۔
 
دوسری طرف روئٹرز اور نیویارک ٹائمز نے بھی اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے ہیں۔ ان کی رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے اس حملے سے نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات کا انفرااسٹرکچر تباہ نہیں ہوا بلکہ افزودہ یورینیم بھی تباہ ہونے سے محفوظ بچ گیا ہے۔ یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھی اپنی رپورٹس میں اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے اور ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ یہ دھچکہ اس قدر سنگین تھا کہ امریکی وزیر جنگ پٹ ہیگسیٹ نے این ایس اے کے سربراہ جنرل جیفری کروز کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی وزیر جنگ کے اس اقدام کے محرکات کے بارے میں لکھا: "این ایس اے کے سربراہ کی برطرفی کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں رپورٹ جاری کرنا تھا۔"
 
2)۔ ایران اور تین یورپی ممالک کے درمیان "اسنیپ بیک" سے متعلق انجام پانے والے مذاکرات میں مغربی فریق کے طرز عمل سے ظاہر گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ان کے مطالبات بھی دراصل وہی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔ یورپی ممالک نے اسنیپ بیک روکنے کے لیے تین شرائط پیش کی تھیں: پہلی آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو امریکی حملے کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینا، دوسری 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنا اور تیسری ایران کی جانب سے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنا شامل تھی۔ البتہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے کچھ نئے مطالبات بھی پیش کیے جیسے ایران کے پاس میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم کر دینا وغیرہ۔ یوں مغربی ممالک کے مطالبات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی باقی ہے اور امریکہ اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔
 
اس سے ہمیں چند اہم پیغامات موصول ہوتے ہیں، جیسے: اول یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے اگرچہ کچھ نقصانات ظاہر ضرور ہوئے ہیں لیکن این ایس اے کی رپورٹ کے مطابق اس کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مذاکرات کے دوران اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے سبز جھنڈی دکھائی لیکن وہ اب بھی ایران سے مذاکرات کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ ان کا اصل مقصد ایران پر فوجی دباو ڈال کر اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دینا ہے۔ لہذا اب یہ حقیقت سب کے لیے واضح ہو چکی ہے کہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار جیسا کہ ٹرمپ سوچ رہا تھا بالکل بھی موثر واقع نہیں ہوا۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایران نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کر رکھی ہے۔
 
لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی جانب سے ایران کی جوہری ایران کا جوہری پروگرام رہبر معظم انقلاب روزہ جنگ کے بعد ہے کہ ایران کے ایران کے خلاف امریکی حملے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسی پر حملے کے ایس اے امریکہ کے ایران نے نہیں ہو پہلے سے کیا ہے ہے اور کے لیے دیا ہے اور اس

پڑھیں:

پیاس کے بحران سے دوچار ایران

ایرانی ان دنوں بارش کے لیے شہر شہر کھلے میدانوں میں اجتماعی دعائیں مانگ رہے ہیں مگر خاموش آسمان خالی ہے۔ گزشتہ چھ برس سے ملک شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہے۔ اس برس نوبت بہ ایں جا رسید کہ تہران کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے پینے کے پانی کی راشن بندی ہو گئی ہے اور حالت مزید دگرگوں ہونے کی صورت میں شہر کو عارضی طور پر خالی کرانے کے بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے۔ صرف تہران کا نہیں بلکہ بیس دیگر صوبوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔

ایران میں ستمبر سے بارشوں کی امید بندھ جاتی ہے مگر اس بار گذرے تین ماہ میں اب تک ایک انچ سے بھی کم بارش ہوئی ہے۔یہ مقدار روائیتی بارانی مقدار کے مقابلے میں محض انیس فیصد ہے۔قلتِ آب کے اعتبار سے یہ سال گذری نصف صدی میں سب سے خراب ہے۔

 کوہ البرز کے دامن میں بنے جن پانچ ڈیموں سے تہران کو پانی ملتا ہے۔ان ڈیموں کی جھیلوں میں اس وقت گنجائش سے دس فیصد سے بھی کم پانی ہے۔جب کہ تیس لاکھ آبادی والے دوسرے بڑے شہر مشہد کے آبی ذخیرے میں صرف تین فیصد پانی ہے۔شمال مغربی ایران کی سب سے بڑی ارمیا جھیل اب محض اپنی عظمتِ رفتہ کا نشان ہے۔ جھیل کا بیشتر پانی اردگرد ہونے والی وسیع کاشت کاری میں صرف ہو گیا۔

پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ مسلسل مغربی اقتصادی پابندیوں کے سبب خوراک میں خودکفیل ہونے کا ریاستی فیصلہ ہے۔کم ازکم پچاسی فیصد غذائی خودکفالت کا ہدف حاصل کرنے کے لیے انقلاب کے بعد بہت سے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر سے زیرِ کاشت زمین میں دوگنا اضافہ ہوا۔حالانکہ بیشتر زرعی زمین بارانی ہے۔چنانچہ جو بھی پانی دستیاب ہے اس کا نوے فیصد آبپاشی میں صرف ہو جاتا ہے اور اب جب کہ مسلسل قحطِ آب ہے زرعی زمین بھی پیاسی ہے۔

حکام کہتے ہیں کہ شہری اپنی ضرورت سے بیس فیصد کم پانی استعمال کرکے قومی ذمے داری پوری کریں۔اگر ایسا ہو بھی جائے تب بھی کتنا فرق پڑے گا۔ کیونکہ جتنا پانی میسر ہے اس کا صرف آٹھ سے دس فیصد ہی گھریلو ضروریات میں استعمال ہوتا ہے۔

نوے فیصد پانی صرف کرنے والی زرعی پالیسی راتوں رات اس لیے تبدیل نہیں ہو سکتی مبادا شہروں کی سماجی بے چینی دیہی آبادی میں نہ در آئے۔جب کہ زرعی ڈھانچہ بھی اتنا کہنہ ہو چکا ہے کہ تیس فیصد فصل منڈی تک پہنچتے پہنچتے ضایع ہو جاتی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوے فیصد پانی استعمال کرنے والی زراعت کا کل قومی آمدنی میں حصہ محض بارہ فیصد اور روزگار میں صرف چودہ فیصد ہے۔

اگر پانی کے کفایت شعارانہ استعمال کے لیے جدید ٹیکنالوجی برتی جائے تو تقریباً آدھا زرعی پانی بچایا جا سکتا ہے اور موجودہ پیداوار میں بھی کمی نہیں ہو گی۔ٹیکنالوجی کے حصول میں مغربی پابندیوں کو اس لیے جواز نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ روس ، چین اور بھارت جیسے ممالک سے ایران کے مستحکم تجارتی تعلقات ہیں۔ان سے باآسانی ایسی ٹیکنالوجی حاصل ہو سکتی ہے مگر پھر ادارہ جاتی بدنظمی ، محکمہ جاتی مسابقت اور مخصوص مفادات فیصلہ سازی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

اگرچہ صحافت ریاست کے کنٹرول میں ہے پھر بھی آبی بحران اتنا شدید ہے کہ خود سرکاری میڈیا بھی دبے لفظوں میں آبی پالیسیوں پر تنقید کر رہا ہے۔مثلاً اخبار اعتماد نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ نااہل منتظمین کلیدی مناصب پر بیٹھے ہوں تو پھر تو یہی ہونا ہے۔جب کہ روزنامہ شرق کا خیال ہے کہ سیاسی مصلحتوں پر ماحولیاتی مستقبل قربان کیا جا رہا ہے۔

 تیل اور گیس کے زیادہ تر پلانٹس بھی بارانی یا نیم بارانی علاقوں میں ہیں اور انھیں بھی کافی پانی درکار ہوتا ہے۔

آبادی میں اگرچہ گزشتہ چالیس برس میں دوگنا اضافہ ہو گیا ہے اور آبی تقسیم کاری کا ڈھانچہ اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ صاف پانی کا کم ازکم تیس فیصد حصہ صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی رستی پائپ لائنوں اور چوری میں ضایع ہو جاتا ہے۔جب کہ واٹر ری سائیکلنگ کا ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اس پر مستزاد ماحولیاتی تبدیلی کے سبب موسموں کی بیترتیبی اور موسمیاتی شدت میں بتدریج اضافہ ہے۔موسمِ گرما میں درجہ حرارت اکثر پچاس سینٹی گریڈ کی حد پار کر جاتا ہے۔گرمی میں اضافے اور مسلسل خشک سالی نے کاریزوں کا قدیم نظام بھی درہم برہم کر دیا ہے۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای نے چودہ برس پہلے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ پانی ضایع نہ کریں۔مگر پانی کی انتظامی خامیاں اور مستقبل کی حکمتِ عملی تیار کرنے میں غیر سنجیدگی برقرار رہی۔جب کہ آبی وسائل گزشتہ روز نہیں بلکہ سالہا سال سے ابتری کی طرف گامزن ہیں۔

اب جنتا ان سرکاری دعوؤں پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی میں مغرب کی ایران دشمن ٹیکنالوجی کے ذریعے برساتی بادل چوری کر لیے جاتے ہیں۔

اگر کسی دن تہران خالی کرنے کا حکم جاری ہو بھی جائے تب بھی معاشی گراوٹ کے مارے لوگ کہاں جائیں۔ صرف تہران ہی تو پیاسا نہیں۔ یہ مسئلہ تو ملک گیر ہے۔کرنسی کے اتار چڑھاؤ نے بھی لوگوں کی معیشت پتلی کر رکھی ہے ( اس وقت ایک امریکی ڈالر بارہ لاکھ ریال کے مساوی ہے)۔ افراطِ زر ، روزگار اور مسلسل مہنگائی کی ماری شہری اکثریت ان حالات میں نقلِ مکانی کیسے افورڈ کرے گی۔سرکار نے کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے بارش برسانے کی بھی متعدد بار کوشش کی مگر مسئلہ اتنا وسیع ہے کہ کلاؤڈ سیڈنگ کی افادیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

 طویل المیعاد حل ایک ہی ہے کہ زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں کو متبادل فصلوں سے بدلا جائے تاکہ کم ازکم پینے کا پانی تو ضرورت کے مطابق دستیاب ہو سکے۔ویسے بھی بارانی ملک میں خوراکی خودکفالت کا ہدف پورا کرنا اتنا مہنگا پڑ جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں وہی اجناس درآمد کرنا زیادہ سستا ہے۔مگر سرکاریں اکثر حکمتِ عملی میں تبدیلی کے فیصلے بہت دیر سے کرتی ہیں اور وہ بھی تب جب پانی سر سے اونچا ہو جائے۔آبی دیوالیہ پن محض ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ اس کے اندر سماجی اور سیاسی بحران بھی پوشیدہ ہیں۔

معاملہ محض ایران تک محدود نہیں۔کابل جس کی آبادی گزشتہ پچیس برس میں سات گنا بڑھ چکی ہے شدید آبی قلت کی لپیٹ میں ہے۔جو زیر زمین پانی میسر ہے وہ بھی ناقص ہونے کے باوجود اتنا مہنگا ہے کہ اکثر کنبے اپنی آمدنی کا تیس فیصد صاف پانی پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔خطرہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں کابل بھی آج کے تہران کی صف میں کھڑا ہو گا۔اور اس صف میں تیسرا شہر کوئٹہ ہو گا جہاں آبادی میں اضافے اور کم بارشوں کے سبب زیرِ زمین پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ کوئٹہ قلتِ آب کے بحران میں پاکستان کے دیگر شہروں کو کچھ برس پہلے ہی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ایران میں بغیر حجاب خواتین کی میراتھن کی ویڈیو وائرل؛ دو منتظمین گرفتار، ایک معطل
  • اڈیالہ جیل کے باہر لوگوں کو بیٹھنے سے روکنے کیلئے گرفتاریوں کا فیصلہ
  • جنگ بھی نہیں لڑتے، جنازے بھی نہیں پڑھتے، پھر شور کیوں؟ خواجہ آصف کی پی ٹی آئی پر تنقید
  • امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان سیکورٹی معاہدہ
  • پیاس کے بحران سے دوچار ایران
  • فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس پر محتاط ردعمل کیوں دیا؟ بیرسٹر گوہر کے خلاف پی ٹی آئی کے اندر محاذ کھل گیا
  • امریکہ میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور حملے کی منصوبہ بندی پر گرفتار شہری پاکستانی نہیں بلکہ افغان ہے:پاکستان دفتر خارجہ 
  • امریکہ: غیر قانونی اسلحہ، حملہ منصوبہ بندی کرنیوالا گرفتار افغان شہری پاکستانی نہیں: دفتر خارجہ
  • یورپی یونین میٹا کے خلاف انکوائری کی تیاری کیوں کررہی ہے؟
  • ایرانی ہدایت کار کو امریکہ میں ایوارڈ، اپنے ملک میں قید کی سزا