ایران کی دوغلی پالیسی یا امریکہ کی؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یاد رکھیئے کہ ایران سمیت کسی بھی ملک یا حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن کسی کی بیٹی کی نجی شادی، وہ بھی خواتین کی مخصوص تقریب، کو سیاسی طنز یا پروپیگنڈا بنانا غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ عمل ہے۔ یہ معاملہ دوغلی پالیسی سے زیادہ اخلاقی دوغلے پن کی نشاندہی کرتا ہے اور یہی بات سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا ہتھیار بننے والے لکھاری اور میڈیا چینلز کو چاہیئے کہ حقیقت کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کریں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا حق ادا کریں، نہ کہ امریکی و اسرائیلی نمک خواری کا۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
مغربی مشینری ہمیشہ سے مسلمان ممالک میں دخل اندازی اور فوجی مداخلت کے ذریعے حکومت اور نظاموں کو تبدیل کرتی آئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکومت نے دخل اندازی اور فوجی مداخلت کو اپنا بہترین ہتھیار قرار دے کر جہاں مسلمان ممالک کو کمزور اور محکوم کرنے کی کوشش کی ہے، وہاں ساتھ ساتھ افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک بھی اس کا شکار رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کی بات کی جائے تو پاکستان، سعودی عرب، ایران، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، شام اور دیگر کئی ممالک ہیں، جن کو امریکی حکومت نے دبائو اور مختلف ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ بھی حقیقیت ہے کہ کئی ایک مسلمان ممالک مغربی ہتھکنڈوں کے سامنے ڈھیر ہوئے ہیں۔ البتہ ان ممالک میں چند ایک ایسے ممالک بھی ہیں، جنہوں نے مزاحمت کا راستہ جاری رکھا ہوا ہے اور امریکہ کے سامنے کسی بھی صورت میں سرتسلیم خم نہیں کیا ہے۔ ایسے ہی ممالک میں ایران سرفہرست ہے، جو مسلم دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے۔ اسی طرح غیر مسلم دنیا میں ہمیں وینزویلا اور کچھ اور ممالک بھی نظر آتے ہیں۔
آئیے اب ایران کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح ایران کو امریکی سازشوں کا سامنا ہے اور کس طرح ایران ان سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امریکی حکومت اور اسرائیل نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کوئی نہ کوئی اعتراضی نقطہ تلاش کیا جائے اور ایران کو اندرون خانہ ایک ایسی صورتحال میں مبتلا کر دیا جائے، جس کی بدولت ایران کا اسلامی نظام کمزور ہو جائے یا یہ ختم ہو جائے اور اس کی جگہ امریکہ اور اسرائیل کا من پسند ہائبرڈ اسلامی نظام نافذ کر دیا جائے اور پھر امریکی من مانی اور بالا دستی جاری رہے، جو کہ سنہ1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایرانی قوم نے نیست و نابود کرکے رکھ دی تھی۔ امریکہ اور اسرائیل نے چار ماہ قبل ہی ایک بڑی پرجوش اور بھرپور طاقت کے ساتھ ایران پر حملہ کیا تھا اور اس حملہ میں کئی ایک اہم شخصیات کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس خونی اور وحشی حملہ کا بنیادی مقصد وہی تھا، جو ہمیشہ سے امریکہ اور اسرائیل کی کوشش رہی کہ ایران سے اسلامی نظام کا خاتمہ کیا جائے، لیکن ان کی ساری خواہشات دم توڑ گئیں اور ایران کی بہترین مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اسرائیل کو بڑی ذلت آمیز شکست کا سامنا ہوا۔
یاد رکھیئے امریکی اور اسرائیلی مشینری جو کہ ایران میں موساد اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کے طور پر کام کرتی ہے، پہلے ہی کئی مرتبہ ایران کے خلاف کئی ایک اقدامات کرچکی ہے۔ ان اقدامات میں دہشت گردانہ کارروائیاں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے جیسے مسائل بھی سرفہرست ہیں۔ گذشتہ سال ہی کی بات ہے کہ ایک ایرانی خاتون مہسا امینی کے واقعہ کو امریکی اور اسرائیلی ایجنٹوں نے الگ تھلگ رخ دے کر کئی ماہ تک ایران کے نظام پر سوال اٹھائے اور پوری طاقت کے ساتھ یہ کوشش کی تھی کہ ایران کے نظام کو گرا دیں۔ اس کام کے لئے مغربی دنیا کا میڈیا مکمل طور پر ایران کے خلاف مہم جوئی میں مصروف عمل تھا۔ ایران کے اندرونی عوامل میں سیاسی اختلافات رکھنے والے رہنماء بھی اس سے استفادہ کر رہے تھے اور حکومت کو گرانے کی مکمل کوشش کر رہے تھے۔ غرض یہ کہ براہ راست امریکہ اور اسرائیل بھی اس مسئلہ پر میڈیا پر مہم جوئی میں پیش پیش تھے، لیکن چند ماہ بعد یہ مسئلہ بھی ایرانی قوم کی وحدت اور ایران کی بابصیرت قیادت کے اقدامات کے باعث دم توڑ گیا اور دشمنوں کو مایوسی کا سامنا ہوا۔
حال ہی میں ایک مرتبہ پھر ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف اسرائیل انتہائی مایوس کن صورتحال سے گزر رہا ہے اور ایران میں نظام کی تبدیلی کے خواب چکنا چور ہوتے دیکھ چکا ہے اور امریکی حکومت اور ٹرمپ بھی شدید مضطرب ہیں کہ بارہ روزہ جنگ میں بھی ایران کو نقصان نہیں پہنچا پائے اور ساری کوششیں ناکام ہوگئی ہیں تو ایسے حالات میں اب ایران کے ایک سینیئر عہدیدار علی شمخانی کہ جن کو جنگ کے دوران بھی امریکہ اور اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا، لیکن وہ زخمی ہونے کے بعد صحتیاب ہوگئے ہیں، ان کے خلاف ایک غیر اخلاقی منصوبہ کو سامنے لائے ہیں۔ اس مرتبہ امریکہ اور اسرائیلی کے مقامی ایرانی ایجنٹوں نے امریکہ اور اسرائیل کو خوش کرنے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایران میں علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی ویڈیو کو منظر عام پر لائے ہیں اور اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جس انداز سے عالمی اور علاقائی میڈیا نے شور برپا کیا ہے، یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ دشمن تمام میدانوں میں شکست کھانے کے بعد اب گری ہوئی حرکتوں پر اتر آیا ہے اور ایک مرتبہ پھر ایران کے نظام پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس مرتبہ بھی دشمن کو مایوسی اور شکست کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
علی شمخانی کی بیٹی کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے اس واقعہ نے دو الگ نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ ایران کی حکومت کی پالیسیاں دوغلی ہیں اور اس سوال کو مغربی ذرائع ابلاغ بھرپور انداز میں پھیلانے میں مصروف ہیں، جبکہ دوسرا سوال یہ ہے کہ اخلاقی اصولوں اور نجی زندگی کی حرمت سے متعلق ہے، جس کی مغرب کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا کی حکومتیں اخلاقی اقدار سے کوسوں دور ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا کے معاشروں کو غیر اخلاقی معاشروں میں تبدیل کریں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ ایران مخالف قوتیں بھی سرگرم ہیں اور ہر کوئی اس واقعہ پر اپنے اپنے حساب سے تیر اندازی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔ یعنی مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایران میں ریاستی سطح پر اور عوامی سطح پر کوئی تضاد موجود ہے، اس سوال کے ذریعے وہ ایران میں ایک مرتبہ پھر انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ کام اس لئے انجام دے رہے ہیں، کیونکہ بارہ روزہ جنگ کے بعد ایرانی قوم پہلے سے زیادہ متحد اور طاقتور نظر آرہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کی اس وحدت اور محبت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔
آئیں اب ذرا ایران میں ہونے والی اس طرح کی نجی تقاریب سے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ چاہے ریاستی سطح کے لوگ ہوں یا عمومی سطح کے لوگ ہیں، ایرانی قوم کی ثقافت اور طور طریقوں میں شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمیشہ خواتین کے لئے مخصوص اجتماع منعقد ہوتے ہیں اور وہاں پر کسی بھی مرد کی موجودگی نہیں ہوتی ہے، یعنی خواتین علیحدہ اور مرد علیحدہ ہوتے ہیں۔ یہاں پر اب ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی کی نجی تقریب کہ جو خاص طور پر صرف خواتین کے لیے مخصوص اجتماع ہو، ایسی کسی تقریب کو سیاسی یا میڈیا ہتھیار بنانا جائز عمل ہے۔؟ یقیناً یہ بات کسی بھی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو ایک خواتین کی نجی تقریب، جس میں صرف اور صرف خواتین تھیں اور کوئی بھی نامحرم اور مرد موجود نہیں تھا، اس تقریب کی ویڈیو لیک ہوئی ہے۔ تو یہاں اصل جرم ویڈیو میں خاتون کا پہنا ہوا لباس نہیں بلکہ نجی محفل کی خلافِ اجازت فلم بندی کرنا اور لیک کرنا ہے۔ یقیناً ایران کے سینیئر عہدیدار علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی تقریب کی نجی محفل اور اس کی ویڈیو اس لئے لیک کی گئی ہے، تاکہ ایران میں سیاسی مخالفین بھی اس سے فائدہ حاصل کریں اور ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو بھی سہارا دیا جائے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کے ہر مذہبی معاشرے میں، خواہ کسی مذہب یا فرقے یا کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواتین اپنے دائرے میں آزادانہ لباس پہنتی ہیں، کیونکہ وہاں غیر محرم مرد موجود نہیں ہوتے۔ لہٰذا کسی ایسی محفل کی ویڈیو کو عوامی بنا کر دوغلی پالیسی کا ثبوت کہنا انصاف نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط ہے۔ ایرانی خواتین، حتیٰ کہ سخت مذہبی گھرانوں میں بھی، نجی شادیوں یا گھریلو تقریبات میں مغربی طرز کے لباس پہنتی ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ ایرانی شہری ثقافت کا تسلسل ہے، جو مذہبی حدود کے ساتھ ساتھ گھریلو نجی دائرے میں وجود رکھتا ہے۔ ایسے ماحول میں لباس کو تنقید کا ہدف بنانا، صرف اس لیے کہ ویڈیو لیک ہوئی ہے، دراصل ایرانی معاشرت کی اصل تقسیم، یعنی عوامی اور نجی زندگی کے فرق کو نظر انداز کرنا ہے۔
اس واقعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ویڈیو تقریباً ایک سال پرانی (اپریل 2024ء) کی ہے، مگر اب منظرعام پر آئی ہے۔ یہ وقت اور انتخاب بذاتِ خود اشارہ کرتا ہے کہ ویڈیو کے افشاء کے پیچھے سیاسی مقصد ہے، ممکنہ طور پر داخلی اختلافات یا بیرونی پروپیگنڈا دونوں ہی موجود ہیں۔ یہ وہی پرانی حکمتِ عملی ہے، جس میں کسی ملک کے سماجی تضادات کو سیاسی ہتھیار بنا کر اس کے اندر خلفشار بڑھایا جاتا ہے۔ یہ کام ہمیشہ امریکی حکومت دوسرے ممالک کے خلاف انجام دیتی آئی ہے۔ اس مرتبہ اس قدر گری ہوئی حرکت کے ذریعے امریکی حکومت نے ثابت کر دیا ہے کہ ایران نے امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے تمام نمک خواروں اور ایجنٹوں کو چاروں شانے چت کر رکھا ہے اور یہ تکلیف ان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا یہ کہنا ہی کافی ہے کہ ٹرمپ کہتا ہے کہ اس نے ایران کی ایٹمی صنعت کو تباہ کر دیا ہے تو بہت خوب، خوش فہمی میں رہیئے۔ یہ امریکی بالادستی کی شکست کی بہترین مثال ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ایران میں تنقید کے کئی پہلو ہیں، مگر تنقید اگر کسی کی نجی محفل یا خاندان کی خواتین کی پرائیویسی کے استحصال سے ہو، تو وہ تنقید نہیں بلکہ انتقام بن جاتی ہے۔ اصولاً، کسی بھی سماج میں اگر ہم کسی حکومت یا پالیسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اس کے لیے اخلاقی حدود کا احترام لازمی ہے۔ جنگ ہو، سیاست ہو یا میڈیا کی کشمکش، کسی کی نجی زندگی کو ہتھیار بنانا ایک خطرناک رویہ ہے۔ جو لوگ آزادیِ اظہار یا خواتین کے حقوق کے نام پر کسی عورت کی نجی تقریب کی ویڈیو عام کرتے ہیں، وہ دراصل انہی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں، جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ اگر مغربی دنیا کے حکومتیں واقعی خواتین کے حقوق کی محافظ ہیں تو پھر ان کو چاہیئے تھا کہ وہ اس بات کا مطالبہ کریں کہ جس کسی نے بھی ایک خاتون کی عزت کو تاراج کرنے کی کوشش کی ہے، اسے کٹہرے میں لایا جائے اور اس نا زیبا حرکت کو خواتین کے حقوق پر کاری ضرب سمجھتے ہوئے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔
لیکن کیونکہ مغربی حکومتوں کے تمام نعرے اور دعوے جھوٹ پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ کھوکھلے بھی ہیں، لہذا ان سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کی بھی نجی زندگی کی تصاویر اور ویڈیوز کو اس طرح میڈیا پر لا کر خواتین کا مذاق بنا سکتے ہیں اور خواتین کی آزادی اور حقوق کی پامالی کرسکتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے ایران کے سینیئر عہدیدار علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی تقریب کی ویڈیو کو منظرعام پر لا کر کیا ہے۔ یاد رکھیئے کہ ایران سمیت کسی بھی ملک یا حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن کسی کی بیٹی کی نجی شادی، وہ بھی خواتین کی مخصوص تقریب، کو سیاسی طنز یا پروپیگنڈا بنانا غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ عمل ہے۔ یہ معاملہ دوغلی پالیسی سے زیادہ اخلاقی دوغلے پن کی نشاندہی کرتا ہے اور یہی بات سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا ہتھیار بننے والے لکھاری اور میڈیا چینلز کو چاہیئے کہ حقیقت کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کریں اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا حق ادا کریں، نہ کہ امریکی و اسرائیلی نمک خواری کا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علی شمخانی کی بیٹی کی امریکہ اور اسرائیل دوغلی پالیسی امریکی حکومت مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ کہ ایران میں ایرانی قوم غیر اخلاقی نہیں بلکہ خواتین کی خواتین کے نجی زندگی اور ایران سے زیادہ تقریب کی کی حکومت کو سیاسی جائے اور کی ویڈیو کرتے ہیں ان ممالک ایران کی ایران کے یہ ہے کہ کے تمام رہے ہیں کسی بھی کوشش کی ہیں اور کرنے کی کی کوشش کرتا ہے کر دیا کے لئے ہے اور بھی اس کسی کی کے بعد کی نجی
پڑھیں:
امریکی سلطنت کے زوال کی علامات
اسلام ٹائمز: غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
ڈونلڈ ٹرمپ نے رنگا رنگ وعدوں کے ذریعے وائٹ ہاوس میں داخلے کی راہ ہموار کی تھی اور پوری دنیا پر امریکہ کی سلطنت قائم کرنے کی خوشخبریاں سنائی تھیں لیکن اب اس نے صیہونیوں سے بھی زیادہ انتہاپسند مسخروں کی ٹیم اپنے گرد اکٹھی کر رکھی ہے اور آمرانہ انداز میں حکومت چلا رہا ہے۔ ٹرمپ نے بین الاقوامی سطح پر تمسخر آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے جبکہ کانگریس میں ڈیموکریٹس کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں اس کے خلاف بغاوت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ ٹرمپ اپنے اتحادیوں، دوستوں اور حامیوں سے بھی توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے جس کے باعث کوئی بھی اس کی اطاعت کرنے پر راضی دکھائی نہیں دیتا جبکہ اقتصادی اور تجارتی میدان میں ہر ایک سے بھتہ وصول کرنے کی پالیسی نے سب کو امریکہ سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے اپنے حریف ممالک سے بھی آمرانہ رویوں کے باعث عالمی سطح پر ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور مدمقابل قوتیں ایکدوسرے کو دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی سلامتی کو بھی نئی عالمی جنگ شروع ہونے جیسے شدید خطرے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کانگریس میں ڈیموکریٹس سے اندھے ٹکراو کے باعث بجٹ منظور نہیں ہو پایا اور حکومتی ادارے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور حکومت سے وابستہ بہت سے شعبے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس دوران بجٹ سے مربوط ایسے ادارے بھی معطل ہو کر رہ گئے ہیں جن کا براہ راست تعلق نومبر میں منعقد ہونے والے مڈٹرم الیکشن سے تھا۔ اس الیکشن کے نتیجے میں ایوان نمائندگان اور سینٹ میں سیٹوں کی تعداد میں ردوبدل کا امکان پایا جاتا ہے۔
سینکڑوں حکومتی اہلکاروں کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے جبکہ دسیوں ہزار افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر کے قریب قرضہ اور سات ٹریلین ڈالر کے قریب بجٹ میں خسارہ ہے جبکہ اقتصادی ترقی کم ہو گئی ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا سامنا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر ڈالر کی بجائے سونے کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور سونے کی عالمی قیمت ایک اونس کے بدلے 4300 ڈالر سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ مختلف ممالک اپنے ڈالر کے ذخائر کم کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ دوست اور حریف ممالک دونوں سے اقتصادی جنگ نے امریکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جبکہ چین اس سے پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہے اور نپے تلے اقدامات کے ذریعے اپنی اقتصاد کو ترقی کی جانب لے جا رہا ہے۔
یوکرین جنگ میں روس کو کنٹرول اور کمزور کرنے کی پالیسی پوری طرح ناکام ہو چکی ہے اور اس کے الٹے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے اخراجات یورپ برداشت کر رہا ہے جبکہ اسلحہ فراہم کرنے کی ذمہ داری امریکہ کی بیمار معیشت پر ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو زیادہ مہلک ہتھیار بھی فراہم کیے لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔ لہذا آنے والے دنوں میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے مذاکرات کو ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے جس میں محدود پیمانے پر معاہدے متوقع ہیں۔ ایسے ہی جیسے چینی صدر کی دھمکیوں کے بعد پسپائی اختیار کی تھی اور ایپک کے ایشیائی اجلاس میں چینی صدر سے ملاقات کو غنیمت جانا گیا تھا تاکہ کچھ حد تک چین کے اقتصادی اقدامات سے بچا جا سکے۔ امریکہ کے ماہرین اقتصاد نے خبردار کیا ہے کہ 2008ء سے بھی زیادہ شدید اقتصادی بحران درپیش ہے۔
امریکہ کی سیاست اور معیشت ہمیشہ سے جنگوں کی آگ جلا کر اور دوسروں کی لوٹ مار کر کے قائم رہی ہے اور گذشتہ چند دہائیوں میں سینکڑوں جنگیں انجام پائی ہیں جن میں بڑے پیمانے پر انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال غزہ کی جنگ ہے جس نے ٹرمپ کو عالمی سیاست کی چوٹی سے زوال کی جانب کھینچا ہے۔ ٹرمپ نے خود کو درپیش تقریباً تمام بین الاقوامی ایشوز میں پسپائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوکرین جنگ روس کے لیے دلدل اور جال بننے کی بجائے یورپ کی معیشت تباہ ہونے اور ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ کی ناکامی کا باعث بن گئی ہے۔ اسی طرح چین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی انتہائی نقصان دہ پسپائی پر ختم ہوئی ہے اور اب یہ بات کی جا رہی ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ٹیکس عائد کرے گا۔
غزہ کی دو سالہ جنگ مجرمانہ اقدامات، نسل کشی اور بربریت سے بھری پڑی ہے اور وہی حماس جس کا مکمل خاتمہ کیا جانا تھا اسی سے مذاکرات اور معاہدے ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل بھی شدید بحران اور اندرونی مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ میں ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ حتی امریکہ کے یہودی اور رائے عامہ بھی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کا ووٹ بینک بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف تمام پچاس ریاستوں میں ملین مارچ منعقد ہوا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور اب ٹرمپ وینزویلا کے خلاف فوجی مہم جوئی کے ذریعے ان سب کی توجہ ایک نئے مسئلے پر مرکوز کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ ان حالات میں واضح طور پر امریکی سلطنت اور اثرورسوخ کا زوال دیکھا جا سکتا ہے۔