Express News:
2025-10-21@23:25:30 GMT

افغانستان دہشت گردوں کو لگام ڈالے

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اس بات سے مشروط ہے کہ افغان طالبان، پاکستان پر اپنی سرزمین سے حملہ کرنیوالے دہشت گردوں کو قابو میں رکھیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر کو انٹرویو میں انھوں نے کہا افغانستان کی طرف سے ہونے والا کوئی بھی حملہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، ہر چیز اسی ایک شق پر منحصر ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدہ اگرچہ بظاہر ایک سیاسی پیش رفت ہے، مگر اس کے مضمرات کہیں زیادہ گہرے، نازک اور دور رس ہیں۔ یہ معاہدہ خطے کے مستقبل پر بھی اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد ایک نہایت واضح اور دوٹوک شرط پر رکھی گئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہوتا، جنگ بندی برقرار رہے گی۔

گویا اس معاہدے کا تسلسل اور بقاء صرف اسی ایک اصول پر قائم ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی طور پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ پاکستان نے اس موقع پر اپنے مؤقف کو نہایت وضاحت سے پیش کیا ہے کہ جنگ بندی کا دارومدار افغان حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کو کنٹرول میں رکھنے پر ہے۔

یہ عسکریت پسند، جو ماضی قریب میں پاکستانی سرزمین پر حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کے ٹھکانے، سہولت کار اور منصوبہ ساز بیشتر افغان حدود میں موجود پائے گئے ہیں۔ پاکستان نے اس روش پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اورکئی بار سفارتی ذرایع سے کابل کو متنبہ کیا کہ اگر ایسے حملے بند نہ ہوئے تو تعلقات کی نوعیت مزید بگڑ سکتی ہے۔

 تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا معاملہ ہو یا مختلف ادوار میں افغانستان میں قیام امن کی کوششیں، پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا، مگر اس کے باوجود افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہونا، ایک لمحہ فکریہ رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے حالیہ حملے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں طالبان حکومت پر داخلی دباؤ، پاکستان میں افغان مہاجرین کی واپسی سے پیدا ہونے والی ناراضی اور افغانستان کی اپنی سرحدی پالیسی شامل ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان حکومت پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر داخلی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے، اگر موجودہ روش برقرار رہی تو نہ صرف عسکری تصادم کا خطرہ بڑھے گا بلکہ انسانی اور معاشی نقصان بھی شدید ہو گا نتیجتاً دونوں ممالک کی عوام، تجارت اور علاقائی امن کو نقصان پہنچے گا۔

افغانستان سے پاکستان کا کوئی جھگڑا تنازع نہیں ہے، پاکستان اِس پر جارحیت کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اِسے ایک ہی شکایت ہے اور اِس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دراندازی کے لیے استعمال نہ ہو۔ 2600 کلو میٹر لمبی سرحد کو باڑ لگانے کے باوجود جسے سیل نہیں کیا جا سکتا، افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی گزر گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگر افغان حکومت میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کر سکے تو پھر اُسے پاکستان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہیے۔

 کہا جاتا ہے کہ احسان فراموش سب سے پہلے اپنے محسن کو نشانہ بناتا ہے‘ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے اس مقولے کو سچ کر دکھایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب پوری دنیا نے ان سے منہ پھیر لیا تھا، تب بھی پاکستان نے افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔ 1979میں روسی فوج کی افغانستان میں مداخلت سے لے کر طالبان کے دوسرے دور تک، 1951کے عالمی کنونشن اور 1967کے مہاجرین پروٹوکول پر دستخط کیے بغیر محض جذبہ انسانی ہمدردی‘ بھائی چارے اور ہمسائیگی کے پیشِ نظر 60لاکھ افغانوں کو اپنے ہاں پناہ د ی۔ جب کہ مہاجرین کی دوسری‘ تیسری نسل بھی یہاں آباد ہو چکی ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان میں صحتِ عامہ کی سہولتوں کے لیے تین بڑے اسپتال بھی قائم کیے گئے۔ پاکستان نے بیشتر تعمیراتی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں۔

پلوں، شاہراہوں کی تعمیر کے علاوہ بجلی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔ چار ہزار افغان طالب علموں کو اسکالر شپس کی فراہمی، زراعت، بینکنگ، ریلوے، عسکری اور ڈپلومیسی کے شعبہ جات میں فنی و مالی معاونت فراہم کی۔

آٹھ سے دس ہزار مریض ہر روز افغانستان سے پاکستان میں علاج کے لیے آتے ہیں۔ روزانہ ایک ہزار افغان باشندوں کو ویزا جاری کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ پاکستان افغانستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ بدلے میں انھوں نے کیا دیا؟ دہشت گردی، پاکستانی چوکیوں پر حملے‘ بھارتی ایما پر افغان سرزمین پر پاکستان مخالف سازشیں، جارحیت، پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی اور دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں۔ افغان وزیر خارجہ امیر متقی کے دورہ بھارت کے دوران پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیہ کی شکل دیتے ہوئے 11اور 12اکتوبر کے درمیانی شب پاکستان پر حملہ کرنا محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گھناؤنی سازش کی طرف اشارہ ہے ۔

پاک فوج کی بھرپور جوابی کارروائی وقت کا تقاضا تھا جس نے یہ واضح کر دیا کہ اگر افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کسی غلط فہمی کا شکار ہے تو وہ اپنے طرزِ عمل پر فوری نظر ثانی کرے۔ پاکستان مخالف افغان بیورو کریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کے ذریعے خطے کے امن کو برباد کیا جا رہا ہے۔ افغان سرزمین کو کالعدم تنظیمیں مسلسل استعمال کر رہی ہیں جس کے متعدد بار ثبوت بھی فراہم کیے گئے۔ اگر کابل حکومت ان گروہوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کرے گی تو یہ رجحان پورے خطے کو ایک نئے تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

 طالبان قیادت، پر اب ایک بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی روح کے مطابق اقدامات کرے۔ ان عناصر کو لگام دے جو دونوں ممالک کے مابین فاصلے پیدا کرنے کے درپے ہیں، اگر طالبان حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسے تمام گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے جو پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ الفاظ کے بجائے عملی اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو پاکستان کو نہ صرف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔

استنبول میں ہونے والا آیندہ اجلاس اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جہاں اس معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس اجلاس میں بین الاقوامی مبصرین کی شمولیت، جنگ بندی کی نگرانی کے لیے کوئی مضبوط میکانزم اور اعتماد سازی کے مزید اقدامات زیر بحث آ سکتے ہیں، اگر یہ اجلاس کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو یہ معاہدہ محض ایک وقتی حل نہیں رہے گا بلکہ ایک مضبوط سفارتی ڈھانچے کی بنیاد بن سکتا ہے۔

 افغانستان کے عوام، جو دہائیوں سے بدامنی، خانہ جنگی اور غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں، اس معاہدے کو ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کی حکومت بین الاقوامی ذمے داریوں کو نبھاتی ہے، تو یہ نہ صرف افغانستان کے لیے مفید ہوگا بلکہ پورے خطے کے لیے امن و ترقی کے دروازے کھول دے گا۔ بین الاقوامی برادری کا کردار بھی اس موقع پر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔

خاص طور پر وہ ممالک جو افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، جیسے چین، روس، ترکیہ، ایران اور عرب ممالک، ان پر لازم ہے کہ وہ اس معاہدے کی کامیابی کے لیے دونوں ممالک کو مثبت خطوط پر رہنمائی فراہم کریں۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے ادارے بھی اس عمل کی نگرانی اور سہولت کاری میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر عالمی برادری اس معاہدے کو محض ایک علاقائی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کرتی ہے تو شاید یہ کوشش بھی دیگر کوششوں کی طرح بے نتیجہ رہ جائیں۔

آنے والے دن، ہفتے اور مہینے اس بات کا تعین کریں گے کہ یہ معاہدہ ایک سیاسی ضرورت تھا یا واقعی امن کی نیت کا آئینہ دار۔اگر معاہدے پر خلوص نیت سے عمل کیا گیا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اور افغانستان نہ صرف اپنے مسائل پر قابو پائیں گے بلکہ ایک دوسرے کے لیے ترقی، تعاون اور برادری کی مثال بنیں گے۔

تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ امن بحال ہوا اور دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات معمول پر آگئے، لیکن اگر یہ معاہدہ بھی سابقہ وعدوں کی طرح بھلا دیا گیا، تو خطہ ایک بار پھر عدم استحکام، بداعتمادی اور خونریزی کی لپیٹ میں آ جائے گا ۔دعا یہی ہے کہ یہ معاہدہ محض ایک عارضی صلح نامہ نہ بنے بلکہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کی بنیاد ثابت ہو۔ امن، جس کا خواب ہر افغان اور ہر پاکستانی برسوں سے دیکھ رہا ہے، اب تعبیر کے قریب ہے، اگر ہم اسے سنبھالنے اور نبھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف افغانستان میں افغانستان کی طالبان حکومت افغانستان کے اس معاہدے کی ہے کہ افغان سے پاکستان پاکستان نے یہ معاہدہ پاکستان ا کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے اہل سنت رہنماوں کا خون رائیگاں نہیں جائیگا، سپاہ پاسداران

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان جرائم کے مرتکب افراد اور ان کے سرغنہ عناصر کو جلد ہی ان کے شرمناک اقدامات کی سزا دی جائے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقتور سیکورٹی اور فوجی قوتیں ان وحشیانہ کارروائیوں کا فیصلہ کن جواب دیں گی۔  اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے اہل سنت بلوچ رہنما ملا کمال کی شہادت پر ردعمل میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی فورسز کے قدس ہیڈکوارٹر کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ بیان میں دہشت گرد گروہوں کی طرف سے بلوچ قبائلی عمائدین کو شہید کرنے کے حالیہ جرائم کی مذمت کی گئی ہے۔ 

اس بیان کا متن حسب ذیل ہے:
ملک کے جنوب مشرقی خطے کے غیرت مند اور دیانتدار عوام کا اتحاد، بھائی چارہ اور پرامن بقائے باہمی ہمیشہ سے زبان زد عام رہاہے اور بلوچ سرزمین کے دشمن اپنی جاہلانہ اور بزدلانہ کارروائیوں سے اس قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں، حالیہ جرائم کا ارتکاب، بشمول ملا کمال، رضا آذرکش، پرویز قدخدائی، شمس آسکانی سمیت اہل سنت قبائل کے عمائدین اور رہنماؤں کو شہید کرکے، بدنام زمانہ اسرائیلی حکومت سے وابستہ کرائے کے گروہوں نے ایک بار پھر اپنی گھٹیا اور اسلام دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہ جرائم ایرانی قوم کے پختہ ارادے اور سیستان و بلوچستان میں شیعہ  سنی کے مثالی اتحاد کو کبھی کمزور نہیں کر سکتے اور خطے کے باشعور اور خوددار عوام دشمنان اسلام کی وطن عزیز ایران کیخلاف سازشوں کے خلاف ہوشیار اور متحد ہو کر کھڑے رہیں گے، ان جرائم کے مرتکب افراد اور ان کے سرغنہ عناصر کو جلد ہی ان کے شرمناک اقدامات کی سزا دی جائے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقتور سیکورٹی اور فوجی قوتیں ان وحشیانہ کارروائیوں کا فیصلہ کن جواب دیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی
  • دہشتگردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور عوام ملکر شکست دیں گے،عطا اللہ تارڑ
  • اب پاکستان میں جائیداد رہے گی نہ کوئی افغانی یہاں رہے گا‘حنیف عباسی
  • پاکستان میں نہ کسی افغانی کی جائیداد رہے گی نہ کوئی افغانی ‘حنیف عباسی
  • پاکستان سے بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے دم لیں گے: محسن نقوی
  • طالبان رجیم ان پراکسیز کو لگام ڈالے جن کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں،فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • افغانستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری
  • دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے اہل سنت رہنماوں کا خون رائیگاں نہیں جائیگا، سپاہ پاسداران
  • ملائیشیا کے وزیراعظم سے رابطہ، شہباز شریف نے افغانستان سے دہشتگردی پر اعتماد میں لیا