Express News:
2025-12-05@16:32:23 GMT

پاکستان اور افغانستان میں عارضی سیز فائر

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر میں ایک سیز فائر معاہدہ ہوا ہے۔ ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ کیا یہ سیز فائر چلے گا۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ یہ سیز فائر نہیں چلے گا۔ کیونکہ پاکستان میں اگر ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوگیا تو جواب میں پاکستان افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرے گا۔

اب سادہ بات یہی ہے کہ یہ سیز فائر تب تک ہی قائم ہے جب تک پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہو۔ یہ کافی مشکل نظر آتا ہے۔ بھارت چاہے گا کہ دہشت گردی جاری رہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ دہشت گردی مکمل ختم ہو سکے گی۔ کم ضرور ہو سکتی ہے لیکن فوری ختم ہونا کافی ناممکن نظر آتا ہے۔

میں اس سیز فائر کو اس لیے بھی عارضی سمجھتا ہوں کیونکہ دوحا میں پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کھولنے کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ تا دم تحریر وہ معطل ہے، بارڈر بند ہیں، ٹرانزٹ ٹریڈ معطل ہے۔ اگر مکمل امن معاہدہ ہو جاتا تو یقیناً افغان حکومت کہتی کہ تجارت کھولی جائے، وہ تجارت بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اسی طرح ویزہ بھی بند ہیں، جن چوکیوں پر پاکستان نے قبضہ کیا ہے، وہ بھی پاکستان کے قبضہ میں ہیں۔ اس لیے سیز فائر عارضی ہے، ابھی معاملات طے ہونا باقی ہیں۔

بھارت میں آر ایس ایس کی سو سالہ تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے راج ناتھ نے کہا ہے کہ بھارت نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کروا دی ہے۔ یہ جنگ بھارت کے مفاد میں ہے۔ جیسے جیسے جنگ بڑھے گی پاکستان کمزور ہوگا، افغانستان بھی کمزور ہو گا دونوں باتیں بھارت کے مفاد میں ہیں۔

اس لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ شروع کروا کر نریندر مودی نے ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے۔ میں سمجھتا ہوں راج ناتھ بھارت کے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ بھارت افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ جنگ اس کے اسکرپٹ میں نہیں ہے۔ بھارت جنگ سے خوش نہیں ہوگا ۔ کیونکہ جنگ سے بھارت کو معلوم ہے کہ اس کے پراکسی دہشت گردی کو نقصان ہوگا۔

یہ بات درست ہے کہ افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔وہ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کا موقع دے رہے ہیں، وہ دہشت گرد تنظیموں کو بھارت کے ہاتھ میں کھیلنے اور بھارت کو پاکستان میں پراکسی نیٹ ورک چلانے کا موقع دے رہے ہیں۔ وہ دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ ٹھکانے دے رہے ہیں۔افغان حکومت اس سارے عمل سے انکاری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زمین سے کچھ نہیں ہو رہا ۔ لیکن یہ کوئی مان نہیں رہا۔ یہ حقیقت ساری دنیا کو معلوم ہے، اس لیے افغان حکام کا موقف دنیا میں کوئی بھی نہیں مان رہا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ لمبی جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ لمبی جنگ کا پاکستان کو نقصان ہے، اس لیے جو بھی کرنا ہے فوری کرنا ہے۔ جیسے بھارت کے ساتھ جنگ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی تھی۔ ایسے ہی افغانستان کے ساتھ بھی ایسی حکمت علمی بنانا ہوگی کہ جنگ چند گھنٹوں نہیں تو دنوں میں ضرور ختم ہو جائے۔ اب جب سیز فائر ختم ہو تو پھر کام جلد نبٹانا ہو گا۔ لمبی جنگ دشمن کے فائدے میں ہے۔ ہمیں تو جلد نتائج چاہیے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں اب تک پاکستان نے جس ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ آگے نہیں ہوگا۔ یہ بات افغانستان پر واضع کر دی گئی ہے۔

آپ سوال کر سکتے ہیں کہ کیسے۔ ہم نے ابھی تک افغانستان کے خلاف کسی بڑے ہتھیار کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ہم نے کوئی بڑے میزائیل نہیں مارے ہیں۔ بھارت کے خلاف الفتح میزائیل استعمال کیے گئے تھے۔ افغانستان کے خلاف وہ بھی استعمال نہیں کیے گئے۔ حالانکہ پاکستان کے پاس الفتح سے بھی بڑے میزائیل موجود ہیں۔ میں نیوکلیئر کی بات نہیں کر رہا ہے۔ ہم نے فضائی بمباری بھی محدود کی ہے۔ ہم پورے افغانستان پر ایک وقت میں بمباری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے ایسا نہیں کیا ہے۔

ایک تنازعہ جس کی طرف کافی توجہ ہے وہ لفظ بارڈر پر ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے دوران بھی ایک موقع پر افغان وفد نے یہ موقف لیا تھا کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ بارڈر نہیں مانتے۔ جس پر پاکستان نے کہا کہ چلیں فرض کر لیں ہم بھی نہیں مانتے۔ پھر کوئی بارڈر نہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کے علاقہ پر بمباری کی ہے۔ ہم نے تو اپنے ہی علاقہ پر بمباری کی ہے۔ آپ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

جس پر افغان وفد خاموش ہوگیا۔ انھیں اندازہ ہوگیا کہ جب تک بارڈر نہیں ہوگا بارڈر کی خلاف ورزی کا جواز بھی نہیں ہوگا۔ جہاں تک اعلامیہ میں پہلے بارڈر لفظ شامل ہونے اور پھر نکالنے کی بات ہے تو اس کی دونوں طرف کی اپنی اپنی توجیحات ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ جب کوئی بارڈر کا تنازعہ ہے ہی نہیں تو اعلامیہ میں لفظ بارڈر کیوں لکھا جائے۔ دہشت گردی کا تنازعہ ہے، وہ موجود ہے۔ افغانستا ن کا موقف ہے کہ وہ بارڈر کو نہیں مانتے اس لیے لفظ بارڈر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کوئی اہم بات نہیں۔ بارڈر موجود ہے۔ باڑ لگ چکی ہے۔ دونوں ممالک اپنی حدود میں رہتے ہیں۔ ایسا کوئی تنازعہ نہیں۔ یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے والی بات ہے۔

ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ افغان طالبان کا بھارت کی طرف جھکاؤ کیوں؟ کئی سال وہ ہمارے دوست رہے اب بھارت کی گود میں کیوں بیٹھ گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ مفاد کا کھیل ہے۔ ماضی کے احسانات کو کوئی یاد نہیں رکھتا۔ آج مفاد بھارت کے ساتھ ہے۔ بھارت پیسے دے رہا ہے اور کچھ نہیں۔

تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ہم تو پہلے دن سے افغانستان کے ساتھ معاملات بات چیت سے حل کرنے کے حق میں ہیں۔ اب بھی تو بات چیت ہی ہوئی ہے۔ یہ ہمارے موقف کی فتح ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست بات نہیں۔ بات چیت امن سے نہیں ہوئی ہے۔ جنگ سے ہوئی ہے۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔

جنگ کے بعد بات چیت کو امن کی بات چیت کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس فرق کا کم از کم افغانستان کو علم ہو گیا ہے۔ یہ کافی ہے۔ افغانستان کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ سیز فائر کافی قیمتی ہے۔ اس کے بعد کافی تباہی ہوگی اور ان کے پاس جنگ کی کوئی تیاری نہیں۔ پاکستان کے ہتھیاروں کا کوئی جواب نہیں۔ اب ایک طرف پاکستان کے میزائیل ہیں، دوسری طرف بھارت کے پیسے ہیں۔ افغان طالبان درمیان میں ہیں۔ جائیں تو کہاں جائیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت گردی میں سمجھتا ہوں افغانستان کے دہشت گردی کا یہ سیز فائر پاکستان نے بارڈر نہیں نہیں ہوگا بھارت کے بات چیت رہے ہیں میں ہیں نہیں ہو کا موقف کے ساتھ ختم ہو ہیں کہ اس لیے کیا ہے

پڑھیں:

ترجمان دفترخارجہ کا سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق اظہار لاعلمی

فائل فوٹو

ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرابی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کردیا۔

ہفتہ وار بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق میڈیا رپورٹس کا علم ہے، میرے پاس اس حوالے سے کوئی نئی معلومات نہیں، ترک صدر نے دو ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ ایک اعلیٰ سطح ترک وفد اسلام آباد آئے گا، ترکیہ وفد کے نہ آنے کی وجہ شیڈولنگ یا پھر طالبان کی طرف سے تعاون کی عدم دستیابی ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے سرحد کی بندش ہم نے اپنی حفاظت کے لیے کی ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے شہری دہشت گردی کا نشانہ بنیں، بارڈر اسی لیے بند ہے اور سرحد اس وقت تک بند رہے گی جب تک افغانستان کی جانب سے پختہ یقین دہانی نہ مل جائے،  ہمیں یقین دہائی کرائی جائے کہ دہشت گرد اور پرتشدد عناصر پاکستان میں داخل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے واضح کیا کہ مسئلہ صرف ٹی ٹی پی نہیں، افغان شہری بھی پاکستان میں سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں، سرحد کی بندش کے تناظر کو اسی حقیقت میں سمجھا جائے، تجارتی گزر گاہیں اور بارڈر کراسنگ بدستور بند ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے سرحد صرف انسانی امداد کے لیےکھولی تھی، صرف یو این کی امدادی اشیا کو استثنیٰ دیا ہے، پاکستان کا افغانستان کے عوام سے کسی قسم کا اختلاف نہیں، وہ ہمارے بھائی بہن ہیں، بارڈر بندش کے سیکیورٹی اسباب ہیں، افغان عوام کے لیے امدادی راہداری میں پاکستان ہمیشہ مثبت رہا ہے۔

افغانستان سے حملے، عالمی دہشت گردی کی واپسی، امریکا اور تاجکستان واقعات سنگین، پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار، افغان شہریوں کو نکالنے میں مدد کی جائے، دفتر خارجہ

اسلام آباد ترجمان دفترخارجہ طاہرحسین اندرابی...

ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ امدادی ترسیل کا آغاز مرحلہ وار ہوگا، تینوں کیٹیگریز کے شیڈول کی تاریخیں بعد میں فراہم کی جائیں گی، متعلقہ شیڈول وزارت کے ریکارڈ سے چیک کر کے فراہم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ریاستیں اپنے دو طرفہ تعلقات بڑھانے میں خودمختار ہیں، وزارت تجارت اور دفتر خارجہ کے ساتھ مشاورت مکمل ہوگئی ہے، تمام رسمی کارروائی تیز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، بارڈر پالیسی کا تعلق افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی تعاون سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کل بابری مسجد کا 33واں یوم شہادت ہے، یہ واقعہ آج بھی تشویش اور دکھ کا باعث ہے، بابری مسجد کا انہدام عدم برداشت، مذہبی امتیاز کے خلاف کھڑا ہونے والوں کے لیے تکلیف دہ ہے

ترجمان کا کہنا تھا کہ مذہبی ورثے اور مقدس مقامات کا تحفظ عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے، مسلم مذہبی علامتوں اور تاریخی ورثے کو نقصان پہنچانے کے ہر عمل کا شفاف احتساب ضروری ہے، کسی بھی مقدس مقام کی بے حرمتی مذہبی مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

طاہر حسین اندرابی کا کہنا تھا کہ بھارتی مسلمانوں کے احساس محرومی اور ذہنی اذیت پر گہری تشویش ہے، ریاستی سرپرستی نے ہندو فاشسٹ تنظیموں کو مزید دلیر بنادیا ہے، ہندو تنظیمیں بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی مکمل حاشیہ بندی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغان اور بھارتی حکام کے بڑھتے رابطوں پر اقوام متحدہ کی رپورٹ سے آگاہ نہیں، بھارت اور افغانستان کا معمول کی سفارتی اور تجارتی سطح پر تعاون قابل اعتراض نہیں، مسئلہ تب ہوتا ہے جب تیسرا ملک پاکستان کو زیرو سم انداز میں دیکھ کر افغانستان سے تعاون بڑھاتا ہے، یہ تشویشناک ہے، پاکستان اس معاملے پر مسلسل نگرانی بھی کرے گا اور اپنے تحفظات اٹھاتا بھی رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • آرمڈ فورسز ملک کی بیک بون ہیں، کسی کو بھی کوئی حق نہیں کہ پاکستان کیخلاف بات کرے
  • آج ریاست نے اپنا جواب واضح طور پر دے دیا ، اب کوئی بھی چیز انچ برابر بھی برداشت نہیں کی جائے گی، فیصل واوڈا
  • ’اب ایک انچ بھی کوئی چیز برداشت نہیں کی جائےگی‘، فیصل واوڈا کو فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کا خیرمقدم
  • افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی روک تھام کی پختہ یقین دہانی تک سرحد بند رہیگی: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق کچھ علم نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
  • ترجمان دفترخارجہ کا سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق اظہار لاعلمی
  • پاکستان، افغانستان امن مذاکرات بغیر پیشرفت ختم ،  سیز فائر برقرار رکھنے پر اتفاق
  • امریکی نیشنل گارڈز پر فائرنگ کے ملزم کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں، امیر متقی
  • ایران اور افغانستان کے ساتھ سفارتکاری سے مسائل حل کیے جائیں، اسد قیصر
  • سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات ؟