افغان وزیر خارجہ کے دورے کے بعد بھارت کا کابل میں سفارت خانہ بحال
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل: طالبان کے وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورہ بھارت کے فوراً بعد نئی دہلی نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کردیا، کابل میں موجود تکنیکی مشن کا درجہ بڑھا کر اب اسے باضابطہ طور پر سفارت خانہ قرار دیا گیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہاکہ کابل میں سفارت خانے کی بحالی کا فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، اس اقدام کا مقصد بھارت اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانا اور باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحال شدہ بھارتی سفارت خانہ افغانستان کی جامع ترقی، انسانی امداد، تعلیم، صحت اور استعداد کار میں اضافے سے متعلق منصوبوں میں بھرپور کردار ادا کرے گا جو افغان عوام کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ طالبان کے وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت کے دوران طے پایا، جس میں دو طرفہ تعلقات، اقتصادی تعاون اور علاقائی سلامتی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھارت نے اپنا سفارت خانہ بند کردیا تھا۔ بعد ازاں ایک سال بعد تکنیکی مشن قائم کیا گیا تاکہ دو ممالک کے درمیان تجارت، طبی امداد اور انسانی ہمدردی کی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں۔
واضح رہے کہ چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکیہ سمیت درجن بھر ممالک پہلے ہی کابل میں اپنے سفارت خانے بحال کرچکے ہیں، تاہم تاحال صرف روس وہ واحد ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سفارت خانہ کابل میں
پڑھیں:
افغانستان کی جانب سے دہشتگردوں کی روک تھام کی پختہ یقین دہانی تک سرحد بند رہیگی: پاکستان کا دو ٹوک مؤقف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان نے اپنا واضح مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک افغان حکومت اس بات کی ٹھوس ضمانت نہیں دیتی کہ دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی مکمل طور پر روکی جائے گی، تب تک سرحد نہیں کھولی جائے گی۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ طاہر حسین اندرابی نے کہا کہ مسئلہ صرف ٹی ٹی پی یا ٹی ٹی اے تک محدود نہیں، افغان شہری بھی پاکستان میں مختلف سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں، اس لیے سرحد کی بندش کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان کے عوام سے کوئی اختلاف نہیں، وہ ہمارے بھائی بہن ہیں، سرحد کی بندش کی وجہ سکیورٹی خدشات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کے لیے انسانی امداد کی راہداری میں معاون رہا ہے، مگر بارڈر پالیسی افغان سرزمین سے ہونے والی دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عملی تعاون سے جڑی ہے۔ افغان حکومت یقین دہانی کرائے کہ دہشتگرد اور پرتشدد عناصر پاکستان میں داخل نہیں ہوں گے، اسی شرط پر سرحد کھولنے پر غور ہوسکتا ہے۔
ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ انہیں سعودی عرب میں پاک افغان مذاکرات سے متعلق میڈیا رپورٹس کا علم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ترک صدر نے اعلان کیا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی ترک وفد اسلام آباد آئے گا، مگر شیڈولنگ مسائل یا طالبان کی جانب سے عدم تعاون کے باعث دورہ نہ ہوسکا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اپنی حفاظت کے لیے سرحد بند کی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے شہری دہشتگردی کا نشانہ بنیں۔
طاہر حسین اندرابی نے روسی صدر پیوٹن کے بھارت کے دورے سے متعلق کہا کہ یہ دونوں خودمختار ممالک کا باہمی معاملہ ہے۔ بھارت اور روس کے ممکنہ دفاعی معاہدوں پر پاکستان کا کوئی مخصوص مؤقف نہیں۔ ممالک اپنے دو طرفہ تعلقات بڑھانے میں آزاد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی مسلمانوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں پر پاکستان کو گہری تشویش ہے۔ ریاستی سرپرستی نے انتہا پسند تنظیموں کو مزید شہ دی ہے۔ کل بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال مکمل ہو رہے ہیں، جو آج بھی دکھ اور تشویش کا باعث ہے۔ کسی بھی مذہبی مقام کی بے حرمتی مذہبی مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور ایسے اقدامات کا شفاف احتساب ہونا ضروری ہے۔