Daily Mumtaz:
2025-10-22@16:48:16 GMT

بھارت نے افغانستان میں سفارتی مشن مکمل طور پر بحال کر دیا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT

بھارت نے افغانستان میں سفارتی مشن مکمل طور پر بحال کر دیا

بھارت اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے ہیں، اور بھارت نے افغانستان میں اپنا بند سفارت خانہ باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا ہے۔ یہ پیشرفت طالبان وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت کے فوراً بعد سامنے آئی ہے، جس میں دونوں فریقین نے دو طرفہ تعلقات کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق، کابل میں موجود تکنیکی مشن کا درجہ بڑھا کر اب اسےباضابطہ سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وزارت نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مزید فروغ دینا ہے، خاص طور پر تجارت، انسانی امداد، اور ترقیاتی منصوبوں میں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کا سفارتی مشن افغانستان کی جامع ترقی اورافغان عوام کی ضروریات کے مطابق کام کرے گا، جس میں انسانی ہمدردی، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں تعاون شامل ہوگا۔
یاد رہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ بعدازاں، 2022 میں محدود سطح پر ایک تکنیکی مشن قائم کیا گیا تھا، جو تجارتی اور انسانی امداد سے متعلق سرگرمیوں تک محدود تھا۔
بھارت کے علاوہ چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکیہ سمیت کئی ممالک پہلے ہی کابل میں اپنے سفارتی مشن فعال کر چکے ہیں۔ تاہم، اب تک صرف روس وہ واحد ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔
بھارت کی جانب سے یہ قدم افغانستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرنے کی علامت ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، معاشی اور انسانی تعاون کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل

پاکستان اور افغانستان حکومت میں امن معاہدہ ہوگیا ہے، مذاکرات کے دوران فریقین نے اپنے تحفظات، خدشات اور مستقبل کے تعاون کے امکانات پر تفصیلی گفتگو کی ہے، ہفتے کو استنبول میں دوبارہ مذاکرات ہونگے، طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے گروپوں کو روکیں گے، قطری وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کے لیے مستقل میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے، سیز فائر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کا خاتمہ کرے گی۔

 بلاشبہ اس معاہدے کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے سے عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس معاہدے کی شقیں بظاہر سادہ ہیں، مگر ان کے اندر چھپی پیچیدگیاں بہت گہری ہیں پہلا نکتہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی مسلح گروہ کو دوسرے ملک کے خلاف اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ کسی بھی قسم کی فضائی یا زمینی کارروائی کے بغیر مشترکہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے گا۔ تیسری شق میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی طرف سے خلاف ورزی ہوئی تو ثالث ممالک، یعنی قطر اور ترکیہ، مداخلت کے مجاز ہوں گے۔ بظاہر یہ سب باتیں امن کی ضمانت لگتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟

  پاکستان کا ایک طویل عرصے سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، وہاں سے ہونے والی دہشت گردی کو بھارت سپورٹ کر رہا ہے، پاکستان جب بھی طالبان حکومت کے سامنے یہ معاملہ رکھتا تھا تو ان کی جانب سے یہ کہا جاتا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی فتنہ الخوارج کے لوگ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ ان کی جانب سے بھارتی سپورٹ کی بھی نفی کی جاتی تھی مگر 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پیدا ہونے والی صورتحال نے طالبان حکومت کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے، یہ واضح ہوگیا کہ افغانستان نے یہ حملہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے کیا اور یہ بھی واضح ہوا کہ فتنہ الخوارج اور تحریک طالبان افغانستان دراصل اکٹھے ہیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمے دار ہیں۔

 ذرا ماضی کو یاد کیجیے کہ پاکستان نے افغانستان کو کس کس موقع پر سہارا دیا، آج بھی لاکھوں افغانی پاکستان میں موجود ہیں، ان کی فیملیاں افغانستان میں ہیں مگر ان کے بزنس اور نوکریاں یہاں پر ہیں، پاکستان نے ان لاکھوں مہاجرین کا شناخت بھی دی، گھر بھی دیا اور روٹی مگر اس سب کے باوجود افغانستان بھارت کا گودی ملک بنتا رہا، بھارت کے اکسانے پر پاکستان کو دھمکیاں بھی لگاتا رہا اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال بھی کرتا رہا، حالیہ تنازعے کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کو ہزاروں بار سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم دونوں اسلامی ملک ہیں، ہمیں تعاون کے ساتھ رہنا چاہیے اور یہ کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارا کھا کر ہمیں کو آنکھیں نکالنے والا ملک ایک مرتبہ پھر نئی دہلی کے اشارے پر چل رہا ہے۔ عین اس وقت جب افغانی وزیر خارجہ امیر متقی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کر رہے تھے، پاک افغان کشیدگی جاری تھی، پاکستان نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے سربراہ کو جہنم واصل کیا۔

 عالمی سیاست میں چند خطے ایسے ہیں جو نہ صرف اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث اہم ہوتے ہیں بلکہ وہاں کی داخلی صورتحال براہِ راست دنیا کے امن و استحکام پر اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا تعلق بھی ایسے ہی خطوں سے ہے۔ یہ دونوں ممالک نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں بلکہ ان کی سیکیورٹی، معیشت، سیاست اور معاشرتی ڈھانچے بھی ایک دوسرے سے گہری جُڑت رکھتے ہیں۔

اس وقت جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور پاکستان مسلسل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ بلاشبہ پاکستان ان اولین ممالک میں شامل تھا جس نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں امن کا قیام اور پاکستان کی مغربی سرحد کی سیکیورٹی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال پیچیدہ ہوتی گئی۔ خاص طور پر جب ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کیں اور الزامات لگنے لگے کہ یہ گروہ افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کر رہا ہے، تو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ پاکستان بارہا طالبان حکومت سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکے، مگر اب تک اس محاذ پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

پاکستان کی داخلی سلامتی کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ٹی ٹی پی سے لاحق ہے، یہ گروہ جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک میں دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے، 2014 کے آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد شدید دباؤ کا شکار ہوا تھا۔ تاہم افغان طالبان کی واپسی کے بعد اس گروہ نے نئی توانائی حاصل کی اور دوبارہ منظم ہونے لگا۔ پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر افغان طالبان واقعی ایک خود مختار اور منظم حکومت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ دوٹوک بات چیت کرنی چاہیے۔

اگر طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے تو پاکستان کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے دیگر راستے اختیار کرنے چاہئیں، جن میں سرحدی آپریشنز، انٹیلیجنس شیئرنگ اور بین الاقوامی تعاون شامل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان کی عام عوام، بالخصوص تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل، طالبان کے سخت گیر رویے سے ناخوش ہے۔ پاکستان کو ان طبقات سے تعلقات مضبوط کرنے چاہئیں تاکہ ایک متبادل بیانیہ فروغ پا سکے، جو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے پاک ہو۔ پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر حفاظتی اقدامات مزید سخت کرنے ہوں گے۔

بارڈر فینسنگ، سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ، اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے سفارتی و مالی تعاون چاہتی ہے، دوسری طرف وہ اپنی پالیسیوں میں لچک دکھانے سے گریزاں ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کا رویہ غیر شفاف ہے، اور اس کے باعث پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ایک ذمے دار حکومت کے طور پر اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں تو انھیں علاقائی تحفظات کا احترام کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ان کی حکومت مزید تنہائی کا شکار ہو جائے گی اور خطے میں بداعتمادی کی فضا بڑھے گی۔افغانستان کے عدم استحکام کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں متعدد مواقع پر یہ واضح کر چکی ہیں کہ کچھ مہاجر کیمپ دہشتگرد گروہوں کی بھرتی اور تربیت کے مراکز بن چکے ہیں۔پاکستان کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔

ایک طرف اسے دہشتگردی، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، اور دوسری طرف ہمسایہ ملک میں ایسی حکومت ہے جس کے طرزِ حکمرانی پر نہ صرف عالمی برادری کو اعتراض ہے بلکہ جو پاکستان کی سیکیورٹی ترجیحات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ ایسے میں پاکستان کو ایک واضح، شفاف اور قومی مفاد پر مبنی پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ یہ صرف پاکستان کی بقاء کا سوال نہیں، بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کا معاملہ ہے۔طالبان حکومت کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تو اُسے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ فاصلہ رکھنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ محض سفارتی نہیں بلکہ تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی بنیادوں پر قائم ہے۔ مگر جب ایک فریق دوسرے کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام نہ کرے تو یہ رشتہ صرف نام کا رہ جاتا ہے۔

یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی مشترکہ لڑائی ہے، اگر دنیا نے آج افغانستان میں پنپتے دہشت گرد گروہوں کو روکنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو کل یہ مسئلہ ان کے اپنے دروازوں پر بھی دستک دے سکتا ہے۔ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، بلکہ اس کے سیکیورٹی خدشات کو سنجیدگی سے سنا جائے، تاکہ خطے میں امن، ترقی اور استحکام کی راہیں ہموار کی جا سکیں۔ اب ترکیہ اور قطرکی ثالثی میں پاک افغان مذاکرات کا انتہائی اہم دور مکمل ہوا ہے، ان مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو جائے گی مگر سوال پھر وہاں ہے کہ کیا افغانستان ہمیں بطور ’’ برادر اسلامی ملک ‘‘ تسلیم کرے گا یا بھارت کی طرح صرف ہمسایہ بن کر رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت اور افغان طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے
  • افغان وزیر خارجہ کے دورے کے بعد بھارت کا کابل میں سفارت خانہ بحال
  • بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بحال کردیا
  • طالبان کیساتھ تعلقات میں نئی پیشرفت،کابل میں بھارتی سفارتحانہ بحال
  • بھارت نے کابل میں اپنا سفارتخانہ بحال کر دیا
  • دوحہ معاہدہ پاکستان کی عسکری برتری، طالبان کی پسپائی، بھارت کی رسوائی
  • افغانوں کو نہیں، بُرے کو بُرا کہیں
  • امن معاہدہ، خدشات اور مستقبل
  • پاک افغان معاہدہ، بیرونی اثرات سے بھی نکلیں