بھارت نے کابل میں اپنا سفارتخانہ بحال کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
بھارت نے تاحال طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت نے اگست 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ فعال کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ اقدام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت کے بعد کیا گیا جس میں طے پایا تھا کہ بھارت اپنے تکنیکی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے گا۔رپورٹ کے مطابق بھارت کابل میں اپنے مشن کے سربراہ کو چارج ڈی افیرز (chargé d’affaires) مقرر کرے گا اور بعدازاں سفیر تعینات کرے گا جبکہ طالبان حکومت نومبر تک اپنے دو سفارت کار نئی دلی بھیجے گی جو افغان سفارتخانے سے کام کریں گے۔ بھارت نے تاحال طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت نے اگست 2021ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا تاہم جون 2022ء میں سکیورٹی یقین دہانیوں کے بعد کابل میں ایک تکنیکی مشن فعال کیا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنا سفارتخانہ بھارت نے کابل میں کے بعد کر دیا
پڑھیں:
پاک افغان معاہدہ، بیرونی اثرات سے بھی نکلیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251021-03-4
مظفراعجاز
افغانستان میں روسی مداخلت اور دراندازی کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات سرد گرم اور تلخ اور پرجوش ہوتے رہے ہیں، اور حکومتوں کی تبدیلی سے بھی ان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے، لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت، بیس برس طالبان بلکہ افغانوں سے جنگ اور اس کے فرار کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھنچاؤ تھا جو بڑھ کر تصادم میں تبدیل ہوگیا، بلکہ جنگ کی سی کیفیت ہوگئی۔ افغانستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے مابین کئی روز کی شدید کشیدہ صورت حال میں پاکستان کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل پر حملے سے صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی، تاہم اس کے بعد فریقین میں عارضی جنگ بندی بھی ہو گئی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق عارضی جنگ بندی طالبان کی درخواست پر حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے مابین باہمی رضا مندی سے ہوئی۔ طے پایا کہ جنگ بندی کے دوران فریقین تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔
قطر اور سعودی عرب نے پاک افغان تنائو کم کرنے میں تعاون کیا اور یہ مذاکرات بھی کامیاب ہوگئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی مستقل رہتی ہے کہ نہیں، اس میں طے شدہ نکات پر عمل ہوتا ہے کہ نہیں، افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند ہوتا ہے کہ نہیں، اس سے قبل بیان بازیاں ہوتی رہیں صورتحال کے بارے میں پاکستانی سفارتی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کی بھر پور جوابی کارروائی کے بعد افغان طالبان نے براہ راست رابطہ بھی کیا۔ دونوں ممالک میں یہ کیفیت کیوں ہوئی اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس وقت دونوں ہی اپنے تعلقات کو اپنے حالات کے تناظر میں دیکھنے اور حل کرنے کے بجائے دوسرے کی آنکھ اور عینک سے دیکھ اور سمجھ رہے ہیں، اور وہ دوسرے بھی کون؟ امریکا اور بھارت، یہ دونوں آج تک کسی کے لیے بھی قابل اعتبار ثابت نہیں ہوئے، امریکا طالبان سے اپنی شکست پر خجالت کا شکار ہے، وہ پاکستان سے ان کی مرمت کرانا چاہتا ہے اس میں اس کا براہ راست کوئی نقصان نہیں، بس کچھ منصوبوں اور امداد کی اس کام پر عمل سے مشروط منظوری کافی ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جو ان ہی طالبان کی آمد اور امریکا کے فرار کے بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگیا تھا، اور اب مئی میں پاک فوج کے ہاتھوں ہزیمت پر دیوانگی کی حد تک بدلے کی آگ میں سلگ رہا ہے، چنانچہ اس نے طالبان کو پاکستان کے خلاف اُکسانے میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان کی جانب سے اعتدال اور احتیاط کا رویہ نہیں رکھا گیا۔ دونوں جانب سے بیان بازی اور الزام تراشی ہوئی لیکن پاکستان بڑا ہونے کے ناتے تحمل سے کام لیتا اور بھارتی سازش کو ناکام بناتا تو زیادہ بہتر تھا، عارضی جنگ بندی میں جس بات پر زور دیا گیا اس میں تین اہم نکات اور جہات ہیں، ایک ’’تعمیری بات چیت‘‘ دوسرے ’’مثبت حل‘‘ اور تیسرا سب سے اہم نکتہ ’’مخلصانہ کوششیں‘‘ مذاکرات پر وہ بھی راضی ہیں جو مذاکرات کے بجائے جنگ کا جواز دے رہے تھے، اب اگلے دور میں جو استنبول میں ہوگا اس میں جو بھی بات ہو ان تینوں جہات پر توجہ مرکوز رہے اور مخلصانہ رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، ورنہ جنگ پر تو سب تیار ہیں۔ دونوں یہاں تک کیوں پہنچے تو سامنے کی بات ہے کہ بدقسمتی سے موجودہ افغان قیادت بھارت کے جال میں آگئی، جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے بلکہ وہ پاکستان کے وجود ہی کو دل سے تسلیم نہیں کرتا اسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔
پاکستان میں دہشت گردی و حالات کی خرابی کا ذمے دار ہمیشہ سے بھارت ہی رہا ہے جس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت کلبھوشن یادو ہے۔ اسی طرح ’’آپریشن بنیانٌ مرصوص‘‘ کی شاندار کامیابی اور اپنی عبرت ناک شکست کے بعد سے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اْتر آیا ہے اس کی جارحانہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مرکز افغانستان ہے۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت سے یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ افغانستان پوری طرح بھارت کے چنگل میں پھنس چکا ہے چنانچہ افغان قیادت نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر پاکستانی عوام کے جذبات ہی کو ٹھیس نہیں پہنچائی جس کی کشمیر شہ رگ ہے بلکہ کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں کے زخموں پر بھی نمک پاشی کی ہے۔ اس مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ پہلے دونوں ملک بیردنی اثرات سے نکلیں اپنے حالات کے مطابق اپنے قومی مفاد میں فیصلے کریں، صرف افغانستان بھارت کے اثر سے نہیں نکلے بلکہ پاکستان بھی امریکی مفادات کے بجائے اپنے مفاد کی نگرانی کرے۔ بیرونی اثر سے دونوں کو نکلنا ہوگا۔