نجی پاکستانی ٹی وی چینل 92 نیوز نے توشہ خانہ گھڑی کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نوازشریف سے برطانوی عدالت میں معافی مانگ لی ہے۔

یہ معافی اُس ہتکِ عزت کے مقدمے کے بعد سامنے آئی ہے جو مریم نواز نے چینل کے خلاف لندن کی ہائی کورٹ میں دائر کیا تھا۔ مقدمہ 17 نومبر 2022 کو نشر ہونے والے پروگرام ’مقابل‘ میں نشر کیے گئے ان الزامات کے حوالے سے دائر کیا گیا تھا، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مریم نواز نے مبینہ طور پر بیوروکریٹس کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے توشہ خانہ سے ایک قیمتی گھڑی محض 45 ہزار روپے میں حاصل کی، جس کی اصل مالیت 10 لاکھ روپے بتائی گئی تھی۔

مریم نواز صاحبہ !
آپکو بہت مبارک کہ لندن میں آپ نے چینل 92 کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کرکے ان سے معافی منگوائی.

یہی طریقہ بہترین ہےکہ ان یوتھئے نما جنگلیوں کو ہرجھوٹی بات پرعدالتوں میں گھسیٹاجائےاور ناک رگڑوا کرمعافی منگوائی جائے.
آپکو ایک دفعہ پھر مبارک !???? pic.twitter.com/lFlT36PK3S

— Kamran Ahsan (@KamranA42766683) October 21, 2025

مریم نواز نے ان الزامات کو جھوٹا، بے بنیاد اور ساکھ کو نقصان پہنچانے والا قرار دیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کی، جس کا فیصلہ اُن کے حق میں آیا۔

معاملے کے تصفیے کے بعد 92 نیوز (گلیکسی براڈکاسٹنگ نیٹ ورک یو کے) نے نہ صرف عدالت میں معافی مانگی بلکہ آن ایئر بھی معافی نشر کی۔ چینل کی جانب سے کہا گیا کہ مذکورہ الزامات بعض دستاویزات کی غیر ارادی طور پر غلط تشریح کی بنیاد پر نشر کیے گئے، اور اس نشریات سے مریم نواز کو جو تکلیف اور پریشانی پہنچی، اس پر ہم معذرت خواہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر

اسلام ٹائمز: عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ خصوصی رپورٹ: 

18 اکتوبر 2025 کو امریکا بھر میں ایک ایسا احتجاج برپا ہوا جسے حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ تقریباً سات ملین افراد ملک کے 2600 سے زائد مقامات پر سڑکوں پر نکل آئے اور نعرہ لگایا: "بادشاہت کو نہیں مانتے" (No to King)۔ ایسے مظاہروں کی اپنے پیمانے اور جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ مبصرین کے مطابق اور یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کی عکاسی کرتے ہیں جسے امریکی عوام، خاص طور پر آزاد خیال اور اعتدال پسند حلقے، ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں "اقتدار پسندی" اور "انتہا درجے کی بدعنوانی" کے طور پر شمار کر رہے ہیں۔

ملک گیر مظاہروں کے نعروں اور اس کے عنوان "بادشاہت کو نہیں مانتے" سے واضح ہے کہ امریکا میں ایک نئی گہری سیاسی تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ ایک طرف ٹرمپ اور ان کے حامی، اور دوسری جانب ان کے مخالفین۔ یہی صورتحال ان خدشات کو تقویت دیتی ہے جن کی طرف سابق وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن پہلے ہی اشارہ کر چکے تھے کہ امریکا خانہ جنگی کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ یہ پرشکوہ احتجاج Indivisible Movement کی قیادت میں منعقد ہوا، جو محض ایک سیاسی احتجاج نہیں بلکہ امریکی طاقت کے غیر متوازن ڈھانچوں کے خلاف ایک شہری بیانیہ بھی تھا۔

مظاہرین نے امریکی پرچم کے رنگوں (سرخ، سفید، نیلا) کے لباس پہن کر اور علامتی غباروں کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ وہ طاقت کے ارتکاز کے خلاف ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان مظاہروں کی حمایت کی، جبکہ ریپبلکنز نے اسے "امریکا سے نفرت کا اجتماع" قرار دیا۔ اس ردعمل نے امریکی معاشرے میں موجود سیاسی دراڑ کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے، اگرچہ امریکی شہری اب طویل عرصے سے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ڈبل پارٹی سسٹم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ یہ احتجاج صرف بڑے ساحلی شہروں جیسے نیویارک اور لاس اینجلس تک محدود نہیں تھا، بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی ناراضگی اب صرف ڈیموکریٹس کے روایتی حلقوں تک محدود نہیں۔ اگرچہ نعرہ "بادشاہ کو نہیں مانتے" براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تھا، مگر مظاہرین کے پلے کارڈز اور نعروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ناراضی محض ایک شخص سے نہیں بلکہ پورے حکومتی نظام سے ہے۔ یہ صورتحال امریکی سپر پاور کے بڑے اور چھوٹے لابی گروپوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ یہ عوامی غم و غصہ صرف ایک سیاستدان کے خلاف نہیں بلکہ پورے حکومتی ڈھانچے کے خلاف ابھر رہا ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان مظاہروں میں یہ ایسی چنگاری موجود ہے کہ یہ احتجاج کسی بھی وقت ایک سنگین خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • مریم نواز کا لندن ہائیکورٹ میں مقدمہ جیتنے پر چینل نے معافی مانگ لی
  • گلگت، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں 2 نوجوان گرفتار
  • لاہور: پتنگ کی ڈور سے نوجوان جاں بحق، وزیراعلیٰ مریم نواز کا ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم
  • ’پاکستان میں واحد عظیم لیڈر عمران خان ہیں‘، مریم نواز کی پرانی ٹوئٹ وائرل
  • لندن ہائیکورٹ میں مریم نواز کی اہم قانونی فتح، نجی چینل نے معافی مانگ لی
  • تجوری "یہود و نصاریٰ کے برانڈز" کی گھڑیوں سے بھری نکلی، اتنی گھڑیاں تو توشہ خانہ میں بھی نہیں
  • امریکہ خانہ جنگی کے دھانے پر
  • پنجاب میں موبائل پولیس اسٹیشن اور لائسنسنگ یونٹ کا افتتاح
  • سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے ،مریم نواز