کراچی میں نوادرات کی اسمگلنگ روکنے کیلئے یونیسکو و سندھ حکومت کی کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی:محکمہ ثقافت، سیاحت، نوادرات و آرکائیوز حکومت سندھ اور یونیسکو کے باہمی تعاون سے پاکستان میں ثقافتی نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف بین الاقوامی کانفرنس اور تربیتی ورکشاپ کا آغاز کیا گیا۔
تین روزہ یہ کانفرنس پاکستان میں ثقافتی نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف جدوجہد کے عنوان سے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کی جا رہی ہے۔
تقریب کا اہتمام محکمہ ثقافت، سیاحت، نوادرات و آرکائیوز کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے نوادرات و آثار قدیمہ اور یونیسکو کے اشتراک سے کیا گیا، اس کانفرنس کا بنیادی مقصد پاکستان میں ثقافتی ورثے اور نوادرات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام، مؤثر پالیسی سازی، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور استعداد کار میں اضافہ کرنا ہے۔
تقریب میں مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے نمائندگان، ماہرینِ آثارِ قدیمہ، پولیس، کسٹمز، ایف آئی اے، عدلیہ اور اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے ماہرین نے شرکت کی۔
شرکا نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو وادیٔ سندھ اور گندھارا جیسی عظیم تہذیبوں کا ورثہ حاصل ہے، جس کے تحفظ کے لیے قومی و بین الاقوامی سطح پر مربوط حکمتِ عملی اپنانا ناگزیر ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ثقافتی ورثے کی غیر قانونی تجارت نہ صرف تاریخی شناخت کے نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ یہ معاشی اور سماجی سطح پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
ورکشاپ سیشنز میں متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون، قانونی فریم ورک کی بہتری اور یونیسکو کے 1970ء کے کنونشن کے مؤثر نفاذ پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی۔
اختتامی روز توقع ہے کہ کانفرنس میں شریک ماہرین ایسی ٹھوس اور پائیدار سفارشات پیش کریں گے جن کی بنیاد پر پاکستان میں نوادرات کی غیر قانونی اسمگلنگ اور تاریخی ورثے کی لوٹ مار کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جا سکیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نوادرات کی غیر قانونی پاکستان میں
پڑھیں:
الیکشن کی جانچ کو روکنے کیلئے ہی 26ویں ترمیم لائی گئی، اکرم شیخ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 اکتوبر2025ء) سپریم کورٹ آئینی بینچ کے روبرو 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وکیل اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ اس الیکشن کی جانچ ہوجائے گی، پھر اس جانچ کو روکنے کیلئے ہی یہ آئینی ترمیم لائی گئی، یہی تو مقدمہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کا 8 رکنی آئینی بینچ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا کیس سن رہا ہے، آج کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے بانی رہنماء اور سابق صدر محمد اکرم شیخ نے دلائل دیئے۔ بتایا گیا ہے کہ سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ ’وہ دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے بھی پیش ہو رہے ہیں؟‘، اس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ’میں صرف اپنی نمائندگی کر رہا ہوں‘، جسٹس جمال مندوخیل نے نشاندہی کی کہ ’سردار لطیف کھوسہ ان کے وکیل کے طور پر درج ہیں‘، اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ ’مجھے خود دلائل دینے کا حق حاصل ہے‘۔(جاری ہے)
جسٹس امین الدین نے شیخ سے کہا کہ ’عدالت کو یہ بتائیں کہ فل کورٹ بنانے کا آئینی طریقہ کیا ہے؟ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، اب تک کسی وکیل نے آئین کے مطابق دلائل نہیں دیئے، ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ آئین کو ایک طرف رکھ دیا جائے، آپ کے نزدیک فل کورٹ کا مطلب کیا ہے؟‘، اس کے جواب میں اکرم شیخ نے موجودہ 24 ججوں پر مشتمل فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’یہ آئینی بینچ یہ کیس نہیں سن سکتا‘۔ جسٹس امین الدین نے پوچھا کہ ’پھر غیر آئینی بینچ کے جج کو اس بینچ میں شامل کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر 24 جج بھی شامل ہوں، تب بھی اسے آئینی بینچ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کہا جائے گا؟‘، اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ’کسی بھی آمر نے آئین کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس ترمیم نے دیا ہے، موجودہ 8 رکنی بینچ اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا اہل نہیں کیونکہ یہ خود اسی قانون کے تحت تشکیل دیا گیا ہے، ایک چھوٹا بینچ کسی بڑے بینچ کے فیصلے کو ختم نہیں کرسکتا‘۔ اس پر جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیئے کہ ’اب معاملہ نیا ہے، آئینی بینچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں، آپ کہتے ہیں کہ موجودہ بینچ مفاداتی ٹکراؤ کی وجہ سے یہ کیس نہیں سن سکتا لیکن آپ ہی فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس میں یہی ججز شامل ہوں گے، کیا اس صورت میں فل کورٹ میں بھی مفاداتی ٹکراؤ نہیں ہوگا؟ آپ کیس پر بات کریں‘، اکرم شیخ نے دلیل دی کہ ’اچھا تو کیس پر بات کر لیتے ہیں، ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کسی نے کہا دھاندلی ہوئی ہے تو احتساب سے بچنے کے لیے یہ آئینی ترامیم آ گئی، یہی تو مقدمہ ہے اور میرے اوپر یزید کی بیعت لازم نہیں ہے، حسین سے بھی دوستی، یزید کو بھی سلام، میں نہیں کرتا‘۔