سام سنگ نے ایپل کو ٹکر دینے کے لیے نیا ہیڈسیٹ لانچ کردیا، خصوصیات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
سام سنگ نے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریئلٹی کے امتزاج سے تیار کردہ اپنا نیا ہیڈسیٹ گیلیکسی ایکس آر متعارف کرا دیا، جو براہِ راست ایپل کے جدید ٹیکنالوجی پراڈکٹس کا مقابلہ کرے گا۔
یہ نیا آلہ گوگل، سام سنگ اور کوالکوم کے اشتراک سے تیار کردہ اینڈرائیڈ ایکس آر پلیٹ فارم پر مبنی پہلا پراڈکٹ ہے، جو مستقبل کی ٹیکنالوجی میں ایک بڑا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایپل کے آئی فون 17 سیریز لانچ پر سام سنگ کا طنزیہ وار
کوالکوم کے موبائل، کمپیوٹ اور ایکس آر گروپ کے جنرل منیجر الیکس کاتوزیان کے مطابق گیلیکسی ایکس آر سام سنگ کے اس وژن کی نمائندگی کرتا ہے جس میں مصنوعی ذہانت اور ایکس آر ٹیکنالوجی مل کر ذاتی کمپیوٹنگ کو نئی سمت دیتے ہیں۔
سام سنگ کے مطابق گیلیکسی ایکس آر صرف ایک ٹول نہیں بلکہ ایک اے آئی کمپینین ہے جو صارفین کی روزمرہ سرگرمیوں میں مدد فراہم کرے گا۔ یہ ہیڈسیٹ صارف کے ماحول کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کے ذریعے وہ قدرتی اور مکالماتی انداز میں جواب دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سام سنگ گلیکسی S26 الٹرا کا پرائیویسی فیچر لیک، ٹیک کمیونٹی میں ہلچل مچ گئی
گیلیکسی ایکس آر کے ذریعے صارفین گوگل میپس میں راستہ تلاش کر سکتے ہیں یا اے آئی کی مدد سے مختلف موضوعات پر تفصیلی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے جدید سینسرز، کیمروں اور پاورفل ہارڈویئر کی بدولت یہ سر، ہاتھ اور آنکھ کی حرکات کو درست طور پر ٹریک کر سکتا ہے۔
نمایاں خصوصیاتمیموری: 16 جی بی
اسٹوریج: 256 جی بی
بیٹری : 2 گھنٹے تک عام استعمال کے لیے مؤثر، چارچنگ کے دوران بھی استعمال ممکن
آئی رس ریکگنیشن: آنکھ کے ذریعے ڈیوائس ان لاک کرنے اور پاس ورڈ داخل کرنے کی سہولت
گیلیکسی ایکس آر 21 اکتوبر سے امریکا اور 22 اکتوبر سے جنوبی کوریا میں دستیاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ایپل ٹیکنالوجی سام سنگ گیلیکسی ایکس آر ہیڈسیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایپل ٹیکنالوجی ہیڈسیٹ
پڑھیں:
بھارت میں فون لوکیشن کی نگرانی، ایپل، گوگل اور سام سنگ نے سخت اعتراضات اٹھا دیے
بھارت میں فون لوکیشن نگرانی بڑھانے کی تجویز پر شدید بحث چھڑ گئی ہے، جبکہ ایپل، گوگل اور سام سنگ نے حکومت کے منصوبے پر سخت اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ حکومت اس تجویز کا جائزہ لے رہی ہے جس کے تحت اسمارٹ فونز میں سیٹلائٹ لوکیشن ٹریکنگ مستقل طور پر فعال رکھنے کی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’جن طیاروں کی پوجا لیموں اور مرچ سے کی گئی تھی، وہ کہاں گئے‘؟ بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ
سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ تجویز ٹیلی کام سیکٹر کی جانب سے پیش کی گئی ہے، جس کا کہنا ہے کہ موجودہ طریقہ کار میں حکام کو تفتیش کے دوران درست مقام کی معلومات حاصل نہیں ہوتیں اور سیلولر ٹاور ڈیٹا کئی میٹر تک غلط ہوسکتا ہے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کے اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اے جی پی ایس ٹیکنالوجی کو لازمی طور پر ہر فون میں ہمیشہ فعال رکھا جائے تاکہ حکام ایک میٹر تک درست مقام حاصل کرسکیں۔
تاہم ایپل، گوگل اور سام سنگ نے نئی دہلی کو واضح پیغام دیا ہے کہ صارفین کی مرضی کے بغیر مستقل لوکیشن آن رکھوانا دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں اور یہ اقدام نجی زندگی میں غیرمعمولی مداخلت ہوگا۔ ان کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم آئی سی ای اے نے خفیہ خط میں خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ قانونی، پرائیویسی اور نیشنل سیکیورٹی کے سنگین خطرات پیدا کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فضائی حدود کی بندش: بھارتی ایئرلائنز کی 800 سے زائد پروازیں متاثر، تاشقند اور الماتی پرواز معطل
یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین ہوا جب بھارتی حکومت کو حالیہ عوامی ردعمل کے بعد ایک حکم واپس لینا پڑا، جس کے مطابق اسمارٹ فون کمپنیوں کو ایک سرکاری سائبر سیفٹی ایپ لازمی طور پر ہر فون میں پہلے سے انسٹال کرنا تھا۔ سیاسی جماعتوں اور کارکنوں نے اسے ممکنہ نگرانی کا ذریعہ قرار دیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اے جی پی ایس کو مستقل فعال رکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر اسمارٹ فون ایک نگرانی کرنے والا آلہ بن جائے گا۔ برطانیہ کے ادارے آئی ای ٹی سے منسلک ڈیجیٹل فورینزک ماہر جنید علی نے کہا کہ ایسا کوئی ماڈل دنیا میں کہیں نافذ نہیں۔ امریکی ادارے الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کے ماہر کوپر کوئنٹن نے اسے خوفناک قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: جنسی جرائم پر سزا پانے والوں میں بھارتی شہری سب سے آگے، رپورٹ میں انکشاف
بھارت میں اس وقت 735 ملین اسمارٹ فونز استعمال ہورہے ہیں جن میں 95 فی صد سے زائد گوگل کے اینڈرائیڈ پر چلتے ہیں۔ ان کمپنیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مسلسل ٹریکنگ کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں، ججوں، صحافیوں اور حساس اداروں میں کام کرنے والے افراد کی سیکیورٹی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے اپنے مؤقف میں یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ نظام میں جب حکام کسی صارف کی لوکیشن تک رسائی لیتے ہیں تو فون میں ایک پاپ اپ میسج ظاہر ہوتا ہے جس سے ہدف کو علم ہو جاتا ہے کہ اسے ٹریک کیا جا رہا ہے، جو سیکیورٹی اداروں کے لیے مسئلہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس فیچر کو بھی ختم کرے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی حکومت کے جبر کے خلاف لداخ میں عوامی بغاوت شدت اختیار کر گئی
تاہم ایپل اور گوگل کی تنظیم نے سختی سے کہا ہے کہ پرائیویسی کو ترجیح دی جانی چاہیے اور ایسے حفاظتی پاپ اپ ختم کرنا کسی صورت مناسب نہیں۔
بھارتی وزارت داخلہ اور وزارت آئی ٹی نے ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح پالیسی فیصلہ نہیں دیا اور نہ ہی رائٹرز کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کا جواب دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئی فون انڈیا ایپل سام سنگ سیلولر ڈیٹا فون لوکیشن