درد کے خاتمے کی دوا سرطان کے خلاف لڑنے کی خصوصیات دکھانے لگی: تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
ایبوپروفین (Ibuprofen) دنیا میں سر درد، پٹھوں کے درد اور خواتین کی ماہواری کے دوران کے درد کم کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دواؤں میں سے ایک ہے، جو صرف درد کم کرنے تک محدود نہیں ہے۔جرنل Nature Biomedical Engineering اور سائنس الرٹ میں شائع ہونے والی ایک نئی سائنسی تحقیق نے اس پر روشنی ڈالی، یہ عام دوا ممکنہ طور پر کینسر مخالف خصوصیات رکھتی ہے، جو دائمی سوزش اور ٹیومرز کے ابھار کے درمیان تعلق کو سمجھنے کے نئے امکانات کھولتی ہے۔
کینسر سے بچاؤ میں ممکنہ مدد
ایبوپروفین غیر سٹیر ائیڈل سوزش مخالف ادویات (NSAIDs) کے زمرے سے تعلق رکھتی ہے، جو سائیکلو آکسیجنیز (COX) نامی انزائمز کو روکے کے ذریعے کام کرتی ہیں۔
COX-1 اور COX-2 کے نام سے جانے جانے والے یہ دونوں انزائمز جسم میں مختلف افعال انجام دیتے ہیں،پہلا معدے کی اندرونی جھلی کی حفاظت کرتا ہے اور خون کے جمنے میں مدد دیتا ہے، جبکہ دوسرا سوزش کو بڑھاتا ہے جو کینسر خلیات کے بننے میں حصہ ڈال سکتی ہے۔مزید برآں ایبوپروفین COX-2 کی سرگرمی کو روک کر پروسٹگلنڈنز(Prostaglandins) کی پیداوار کو کم کرتا ہے، جو سوزش اور غیر معمولی خلیات کی نشوونما کو فروغ دیتے ہیں۔اسی حوالے سے محقق اسٹیفن ویذرز جو کینیڈا کی "یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا" میں بایو کیمسٹری کے پروفیسر ہیں، نے کہا: یہ نئے دریافتیں ہمیں طویل مدتی علاج کے نتائج کو بہتر بنانے کے بارے میں واضح بصیرت فراہم کرتی ہیں اور ظاہر کرتی ہیں کہ بنیادی سائنس آخرکار مریضوں کی دیکھ بھال میں عملی طور پر لاگو ہو سکتی ہے۔
رحم کے کینسر کے خطرے میں 25% کمی
2025 میں امریکہ کے PLCO منصوبے (جو پروسٹیٹ، پھیپھڑوں، کولون اور اووری کے کینسرز سے متعلق ہے) کے تحت کی گئی ایک تحقیق کے مطابق55 سے 74 سال کی عمر کی 42 ہزار سے زیادہ خواتین کے ڈیٹا کا 12 سال کے دوران تجزیہ کیا گیا۔نتائج سے ظاہر ہوا کہ وہ خواتین جو ماہانہ کم از کم 30 گولیاں ایبوپروفین استعمال کرتی تھیں، ان میں رحم کی اندرونی جھلی کا کینسر(Endometrial Cancer) کا خطرہ 25% کم تھا، ان خواتین کے مقابلے میں جو ماہانہ چار سے کم خوراکیں لیتی تھیں۔ یہ حفاظتی فائدہ ان خواتین میں زیادہ واضح تھا جو دل کی بیماریوں کا شکار تھیں۔یاد رہے کہ رحم کی اندرونی جھلی کا کینسر رحم کے کینسرز میں سب سے زیادہ عام ہے اور عام طور پر خواتین میں مینوپاز کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔اس کے خطرے کے عوامل میں موٹاپا، ایسٹروجن ہارمون کی بلند سطح، صرف ایسٹروجن پر مبنی ہارمون تھراپی، ذیابیطس اور پولی سسٹک اووری سنڈروم شامل ہیں۔
اثر صرف رحم تک محدود نہیں
تاہم شواہد صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں۔ اضافی مطالعات کے مطابق ایبوپروفین کا حفاظتی اثر کولون، چھاتی، پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ کے کینسرز تک بھی پھیل سکتا ہے۔مزید برآں معلوم ہوا کہ وہ مریض جنہیں پہلے کولون کینسر ہوا اور انہوں نے ایبوپروفین استعمال کی، ان میں ٹیومر کے دوبارہ پیدا ہونے کا خطرہ کم تھا۔دیگر تحقیقات سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ دوا تمباکو نوشی کرنے والوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو کم کر سکتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اثر دائمی سوزش کو کم کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے، جو ٹیومرز کے بڑھنے کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ پروسٹگلنڈنز کی سطح کو کم کر کے، ایبوپروفین ٹیومر کی نشوونما کو سست یا مکمل طور پر روک سکتا ہے۔تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ دوا ایسے جینز پر اثر ڈالتی ہے جو کینسر خلیات کی نشوونما سے متعلق ہیں، جس کے نتیجے میں خلیات کیموتھراپی کے لیے زیادہ حساس اور دوائیوں کے خلاف کم مزاحم ہو جاتے ہیں۔
نتائج میں اختلافات اور طبی انتباہات
اگرچہ یہ نتائج حوصلہ افزا ہیں،مگر تصویر ابھی مکمل نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ مطالعات نے متضاد نتائج ظاہر کیے ہیں، جن میں ایک تحقیق میں 7700 سے زیادہ مریض شامل تھے لیکن اس نے رحم کے کینسر کی تشخیص کے بعد ایسپرین کے استعمال کو اموات کی شرح میں اضافے سے جوڑا، خاص طور پر ان خواتین میں جو تشخیص سے پہلے ایسپرین استعمال کر رہی تھیں۔اسی طرح کچھ دیگر ادویات جو اسی زمرے میں آتی ہیں، نے مخصوص نمونوں میں کینسر سے متعلق اموات کے خطرات کو بڑھایا۔دوسری جانب ایک حالیہ سائنسی جائزے سے معلوم ہوا کہ ایسپرین کئی اقسام کے کینسر کے خطرے کو کم کر سکتا ہے، لیکن طویل مدتی اور باقاعدہ استعمال سے گردے کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔محققین کے مطابق یہ متضاد نتائج اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سوزش مدافعتی نظام اور کینسر کے درمیان تعلق انتہائی پیچیدہ ہے اور اسے دیگر عوامل جیسے جینیات اور طرزِ زندگی سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ڈاکٹروں نے سختی سے متنبہ کیا ہے کہ ایبوپروفین کو زیادہ مقدار میں یا طویل مدت تک بغیر طبی نگرانی کے استعمال نہ کیا جائے۔طویل مدتی استعمال سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں معدے کے زخم اور نظام ہضم میں خون بہنا، گردوں کا نقصان، دل کے مسائل جیسے خون کے جمنے اور فالج، اور خون پتلا کرنے والی ادویات یا کچھ اینٹی ڈپریسنٹس کے ساتھ خطرناک دوائیوں کے تعاملات شامل ہیں۔محققین نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ادویات صرف مخصوص طبی نسخے کے تحت استعمال کی جائیں، خاص طور پر ان مریضوں میں جو دل یا گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔
بہترین بچاؤ: صحت مند طرزِ زندگی
اس دریافت نے دلچسپی پیدا کی ہے، لیکن ماہرین نے زور دیا ہے کہ کینسر سے بچاؤ کا بہترین طریقہ اب بھی متوازن طرزِ زندگی ہے۔
جو بنیادی طور پر اینٹی آکسیڈنٹس اور فائبر سے بھرپور غذائیں کھانے، صحت مند وزن برقرار رکھنے، باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی کرنے اور سگریٹ و الکحل سے پرہیز کرنے پر مبنی ہے۔
محققین نے اپنی رپورٹ کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ روزمرہ کی ادویات میں شاید وہ چابیاں موجود ہوں، جو طبی جدوجہد میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن جب تک سائنس اس بحث کو حتمی شکل نہ دے، سب سے اہم نصیحت یہی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے کسی دوا کو بغیر ڈاکٹر سے مشورے کے استعمال نہ کریں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کینسر سے کے کینسر سے زیادہ کینسر کے کو کم کر کے خطرے سکتا ہے
پڑھیں:
استعمال شدہ ملبوسات کی درآمد پر فی کلو 200روپے ٹیکس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)رواں برس حکومت کی جانب سے استعمال شدہ پرانے کپڑوں کی درآمد پر200روپے فی کلو گرام ٹیکس پر تاجر بلبلا اٹھے۔تاجروں کے مطابق حکومت کی جانب سے استعمال شدہ پرانے کپڑوں کی درآمد پر200روپے فی کلو گرام کا عائد ٹیکس کیا گیا ہے، اس سے استعمال شدہ گرم ملبوسات کی فی عدد قیمت میں500 سے1500روپے تک ہونے والا اضافہ سفید پوش اور غریب طبقے کو متاثر کر سکتا ہے۔تاجروں نے کہا کہ اس بار استعمال شدہ گرم ملبوسات کی قیمتیں زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود کوشش ہے کہ جتنی قیمت کم کرسکتے ہیں کی جائیں۔تاجروں کے مطابق ڈیوٹیز زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم نے مال پر بہت زیادہ انویسٹ کیا ہوا ہے۔