پاک چین عدالتی تعاون کیلئے سپریم کورٹس کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
پاک چین عدالتی تعاون کیلئے سپریم کورٹس کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط WhatsAppFacebookTwitter 0 23 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )پاکستان اور چین کے درمیان عدالتی تعاون کے نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے اور دونوں ممالک کی سپریم کورٹس نے باہمی تعاون کے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کردیے ہیں۔سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان اور چین کی سپریم کورٹ کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں اور یہ دوطرفہ عدالتی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔چیف جسٹس پاکستان یحیی آفریدی اور عوامی جمہوریہ چین کی سپریم پیپلز کورٹ کے چیف جسٹس نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ایم او یو کے ذریعے دونوں نے چیف جسٹسز نے ادارہ جاتی روابط مضبوط بنانے، استعداد کار میں اضافے اور علمی تبادلے کے عزم کا اعادہ کیا۔سپریم کورٹ نے بتایا کہ وزارت خارجہ اور وزارت قانون و انصاف اور حکومت پاکستان کی خدمات بھی قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے اس پورے عمل میں بنیادی کردار ادا کیا جو بالآخر اس اہم سنگ میل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔اعلامیے کے مطابق یہ تعاون عدالتی نظام کی باہمی تفہیم کو فروغ دینے اور مصنوعی ذہانت، سائبر کرائم، مالیاتی جرائم، ماحولیاتی تبدیلی، بین الاقوامی تجارتی قانون، تجارتی تنازعات کے حل اور متبادل تنازع حل جیسے شعبوں میں سہولت کاری کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔مزید بتایا گیا کہ اس تعاون میں عدالتی دوروں، تربیتی پروگراموں، سیمینارز اور علمی تبادلوں کے ذریعے عدالتی استعداد اور کارکردگی بہتر بنانے کے اقدامات شامل ہیں۔سپریم کورٹ نے بتایا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو(بی آر آئی)اور چین۔پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس مفاہمتی یادداشت میں موثر تنازع حل کے طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
دونوں فریقین نے بین الاقوامی عدالتی معاونت، عدالتی فیصلوں کے نفاذ اور کثیرالجہتی قانونی فریم ورک کے اندر تعاون پر اتفاق کیا تاکہ قانون کی بالادستی اور عالمی عدالتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس مفاہمتی یادداشت کے تحت دونوں عدالتیں اہم عدالتی فیصلے شیئر کریں گی۔دونوں ممالک کی عدالتیں ابھرتے ہوئے عالمی قانونی چیلنجز پر مشترکہ تحقیقی کام کریں گی اور رابطہ کاری کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں گی، جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار اور سپریم پیپلز کورٹ آف چائنا کے انٹرنیشنل کوآپریشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کے درمیان قریبی رابطہ شامل ہوگا۔دونوں ممالک کی عدالتوں کے درمیان رابطوں کا مقصد مختلف اقدامات پر موثر فالو اپ یقینی بنانا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ مفاہمتی یادداشت عدالتی تعاون کو گہرا کرنے، جدید ٹیکنالوجی کے انضمام اور ڈیجیٹل تبدیلی کے ذریعے عدالتی نظام کو جدید بنانے کے مضبوط باہمی عزم کی علامت ہے اور یہ قانون کی بالادستی کو مضبوط کرنے، موثر تنازع حل کو فروغ دینے اور عدالتی طریقہ کار کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے مشترکہ وژن کی عکاسی کرتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعلی کے پی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملی، علامتی دھرنے کے بعد واپس روانہ وزیراعلی کے پی کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملی، علامتی دھرنے کے بعد واپس روانہ وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دیدی اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر نے مبینہ خودکشی کرلی چیئرمین سی ڈی اے سے یانگو سروسز کی کنٹری ہیڈ مرال شریف کی قیادت میں وفد کی ملاقات سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو عمران خان سے ملاقاتوں کیلئے سلمان اکرم کی فہرست پر عمل درآمد کا حکم نیب کی سال 2025کی تیسری سہ ماہی میں 11کھرب روپے سے زائد کی بازیابیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مفاہمتی یادداشت پر دستخط عدالتی تعاون سپریم کورٹ کے درمیان کو فروغ گیا کہ
پڑھیں:
عدالتی بینچ خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں عدالتی بینچز خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے والا سولہ رکنی فل کورٹ تشکیل دیا جائے یا سپریم کورٹ کے تمام 24 ججوں کو شامل کرکے فل کورٹ بنایا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا 31 اکتوبر 2024 والی کمیٹی کو ایسا اختیار حاصل تھا کہ ایسا فیصلہ کر سکتی، کیا کمیٹی نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا؟۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا آرٹیکل 191 اے کو معطل کیے بغیر ایسا آرڈر کیسے کرسکتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کیا آئینی بینچ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کوئی اور بنچ بھی جوڈیشل آرڈر کے زریعے بنا سکے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے درخواست گزاروں کو اس آئینی بنچ پر اعتماد کیوں نہیں ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا آئینی ترمیم میں ایسا میکانزم ہی نہیں ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن ججز کی نامزدگی کیلئے پک اینڈ چوز کرے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا یہ بات تو کیس کے میرٹس سے متعلقہ ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر یہ کہا جائے آرٹیکل 191اے کے تحت نامزد ججز ہی آئینی کیسز سن سکتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کا اختیار سماعت تو جوڈیشل کمیشن کے ہاتھ میں آگیا، اگر کسی جج کو آئینی بنچ کیلئے نامزد نہ کیا جائے تو سپریم کورٹ میں کیا کوئی کیس نہیں سنا جائے گا۔
عدالت نے مزید سماعت 10 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا بنچ کی دستیابی کی صورت میں سماعت ہوگی۔