آخر یہ چاہتی کیا ہیں؟ حرا مانی کی ساڑھی میں بولڈ تصاویر پر سوشل میڈیا صارفین برہم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
ابھرتی ہوئی اداکارہ حرا مانی ایک بار پھر اپنے بولڈ انداز کی وجہ سے سوشل میڈیا کی زد میں آ گئیں۔
اداکارہ حرا مانی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تصاویر اور روز مرہ کی سرگرمیاں شیئر کرتی رہتی ہیں جس کے باعث ان کے فالوروز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔
حال ہی میں انھوں نے ساڑھی میں اپنا فوٹو شاٹ شیئر کیا جس میں وہ کافی پُرکشش نظر آرہی ہیں تاہم صارفین نے اداکارہ کے لباس کو نامناسب اور حد سے زیادہ بولڈ قرار دیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ بیٹے بڑے ہو رہے ہیں اور ان کی ماں ایسی تصاویر بنوا رہی ہیں۔ ایک اور کمنٹ آیا یہ سب اسی نظام کی ڈیمانڈ ہے جس میں یہ لوگ کام کرتے ہیں۔
ایک صارف نے طعنہ دیا کہ جسم کو بھی ڈھانپ لیا کریں۔ اس طرف بھی توجہ دیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی حرا مانی نے ساڑھی میں بارش کے بھیگتے ہوئے فوٹو شاٹ کروایا تھا جس پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم حرا مانی اس تنقید کا کبھی جواب نہیں دیتیں جس سے لگتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور پسند سے جو کرنا چاہتی وہ کرتی رہیں گی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خاندانی نظام کے زوال میں سوشل میڈیا کا کردار
اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں عبادات اور عقائد پر زور دیا ہے وہیں معاشرتی نظام کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، خصوصاً خاندانی نظام کو انسانیت کی فلاح کی بنیاد قرار دیا ہے۔ خاندان ایک ایسی بنیادی اکائی ہے جس پر معاشرہ قائم ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو تنہا زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا، بل کہ اسے ایک خاندانی، معاشرتی اور باہمی تعلقات سے بھرپور نظام عطا فرمایا ہے۔ انسانی زندگی کا آغاز بھی ماں باپ سے ہوتا ہے اور اس کا دائرہ بہن بھائیوں، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی، دادا، دادی، نانا، نانی اور دیگر رشتے داروں تک پھیلتا ہے۔ یہ تعلقات انسانی زندگی کے لیے ایک ایسی سایہ دار شاخ ہیں جو ہر موسم میں اس کا سہارا بنتی ہے۔
جب انسان اپنے اصل رشتوں کو بُھول کر سوشل میڈیا اور دنیاوی رنگینی کے عارضی تعلقات میں الجھ جائے، تو وہ محبت، ہم دردی، سچی دعاؤں اور حقیقی خیرخواہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس لیے دین اسلام نے بار بار رشتے داروں سے جڑے رہنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور صلۂ رحمی کو تقریباً فرض کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔
قرآنِ کریم کی سورہ النساء میں خاندانی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس تعلق کو بنیادِ ایمان قرار دیا ہے۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ سے تقویٰ کے ساتھ رشتے داروں سے جڑنے کا بھی حکم دیا گیا، یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنا صرف سماجی جرم نہیں، شرعی جرم بھی ہے۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ احسان و عدل میں رشتہ داروں کو ترجیح دو۔ مفہوم:
’’اﷲ تعالیٰ عدل، احسان اور قرابت داروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (سورہ النحل)
یہ وہ مشہور آیت ہے جو جمعے کے خطبے میں اکثر پڑھی جاتی ہے، اور اس میں عدل و احسان کے بعد قریبی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کا خصوصی ذکر ہے۔
ایک اور جگہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم:
’’جو لوگ اﷲ کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑتے ہیں، اور ان رشتوں کو کاٹتے ہیں جن کے جوڑنے کا اﷲ نے حکم دیا ہے، وہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ اﷲ کی لعنت کے مستحق ہیں۔‘‘ (سورہ الرعد)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات مبارکہ ہیں کہ صلۂ رحمی رزق میں برکت اور عمر میں اضافہ کا ذریعہ ہے۔
ارشاد رسول کریم ﷺ کا مفہوم:
’’جو شخص چاہتا ہو کہ اس کا رزق بڑھایا جائے اور عمر میں برکت ہو، وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری شریف)
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم)
یعنی رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت سے محروم رہے گا۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ رشتہ دار پر خرچ کرنا دہرا اجر رکھتا ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلۂ رحمی کا۔ (ترمذی شریف)
دین اسلام نے خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بہت سی تعلیمات دی ہیں، جن کی بنیاد محبت، ہم دردی، انصاف، صبر، اور حقوق و فرائض کی ادائی پر رکھی گئی ہے۔
اسلام میں نکاح کو عبادت اور سنت قرار دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:
’’اور اپنے میں سے ان لوگوں کا نکاح کرو جو بے نکاح ہوں اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا بھی۔‘‘ (سورہ النور)
نکاح صرف جسمانی ضرورت نہیں بل کہ ایک مقدس عہد ہے جو خاندان کی بنیاد ڈالتا ہے۔ اسلام نے والدین کی خدمت اور اطاعت کو فرض قرار دیا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم:
’’اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل)
اسی طرح دین اسلام نے والدین کو اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا، مفہوم:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (التحریم)
آج کے دور میں سوشل میڈیا پر ہزاروں فرینڈز، فالوورز، لائکس، ری ایکشنز اور تبصروں کی بھرمار ہے، مگر یہ تعلقات عارضی، سطحی اور غیر مخلص ہوتے ہیں۔ دکھ سکھ میں نہ کوئی کام آتا ہے، نہ دل سے دعائیں دیتا ہے۔ یہ وقت اور توجہ کی چوری کرتے ہیں، خاندانی وقت کو برباد کرتے ہیں۔ کئی طلاقیں، خاندانی جھگڑے، نافرمانیاں اور رنجشیں صرف سوشل میڈیا کے حد سے زیادہ استعمال کا نتیجہ ہیں۔
جب کہ حقیقی خاندان دعاؤں کا خزانہ ہے، غم گسار اور مددگار ہوتا ہے۔ اولاد کی تربیت، بڑوں کا سایہ، اور چھوٹوں کی رونق ہے۔ صبر، برداشت، رواداری اور قربانی سکھاتا ہے۔ خاندانی تعلقات کی عظمت و برکات بے شمار ہیں کہ خاندان انسان کے لیے محبت، سکون اور رحمت کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں نکاح (جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ہے) کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘ (الروم)
خاندانی نظام نسل انسانی کی بقاء اور اس کی اخلاقی، دینی اور معاشرتی تربیت کا ذریعہ ہے۔ یہی نظام بچوں کو معاشرتی اقدار سکھاتا ہے، جب خاندان مضبوط ہو تو پورا معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔ ہر فرد کو اپنے حقوق و فرائض کا علم ہوتا ہے اور معاشرہ عدل و امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ اسلامی خاندانی نظام میں بزرگ، بیمار، اور محتاج افراد کو اکیلا نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ خاندان کا ہر فرد دوسرے کی مدد کرتا ہے، جس سے غربت اور فاقہ کشی میں کمی آتی ہے۔ بزرگوں کو معاشرے کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا حق نہیں پہچانتا، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ ( ترمذی شریف)
دین اسلام سے ہمیں بھرپور عملی ہدایات ملتی ہیں کہ ہم روزانہ کچھ وقت خاندانی ملاقات، گفت گُو یا حال احوال کے لیے مختص کریں، سوشل میڈیا کو محدود کریں، اصل زندگی میں لوگوں سے رابطہ رکھیں، ماں باپ کی خدمت، بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک، اور قریبی رشتے داروں کو تحفے دینا معمول بنائیں، گھریلو دعوتیں، عیادت، اور خوشی و غم میں شرکت خاندانی رشتوں کو مضبوط کرتی ہیں اور اختلافات کو انا کی بہ جائے دین کی روشنی میں سلجھائیں۔
اﷲ تعالیٰ نے خاندان کو ہمارے لیے پناہ گاہ، مددگار اور محبت کا سرچشمہ بنایا ہے۔ دین اسلام نے خاندان اور رشتے داروں کے حقوق کو فرض قرار دیا ہے اور ان سے غفلت کو ہلاکت کا باعث بتایا ہے۔ سوشل میڈیا اور دنیا کی مصنوعی چکا چوند میں کھو کر حقیقی رشتوں کو نہ بھلائیں، بل کہ انھیں وقت، توجہ اور دل سے جُڑا رکھیں، کیوں کہ یہی تعلقات دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنیں گے۔
اے اﷲ! ہمارے دلوں میں صلۂ رحمی، خاندانی محبّت اور عاجزی پیدا فرما، ہمیں والدین، بہن بھائی، رشتہ داروں کے ساتھ سچائی، وفا اور خیر خواہی عطا فرما۔ ہمیں دکھاوے اور وقتی تعلقات سے بچا، اور ہمیں ہمیشہ حق، تعلق اور دین کے راستے پر قائم رکھ۔ آمین