فلوریڈا، مگر مچھ گھس آیا، پولیس نے بحفاظت نکال دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں پولیس کو ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس سے غیر متوقع مہمان کو باہر نکالنے کے لیے بلایا گیا، ایک مگرمچھ جو تقریباً 5 سے 6 فٹ لمبا تھا فلیٹ کی راہداری میں گھس آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مگرمچھ کا حملہ: 57 سالہ خاتون دریا میں لاپتا، ویڈیو وائرل
اورلینڈو پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پولیس کو ہنگامی طور پر بلایا گیا، اہلکار لیک ڈیبرا ڈرائیو پر واقع اپارٹمنٹ کمپلیکس پہنچے تو وہاں راہداری میں ایک بڑا مگرمچھ موجود تھا۔
پولیس نے بتایا کہ افسران نے مگرمچھ کے چہرے پر کمبل ڈال کر احتیاط سے اسے راہداری سے باہر گھسیٹ لیا۔ بعدازاں اسے لیک مین میں دوبارہ چھوڑ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ارجنٹائن میں 7 کروڑ سال پرانا دیوقامت ‘مگرمچھوں کا بُل ڈاگ’ دریافت
پولیس کے مطابق اس کارروائی میں نہ کوئی اہلکار زخمی ہوا اور نہ ہی مگرمچھ کو کوئی نقصان پہنچا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا پولیس فلوریڈا فلیٹ مگرمچھ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پولیس فلوریڈا فلیٹ مگرمچھ
پڑھیں:
سیٹھ ، سیاسی کارکن اور یوتھ کو ساتھ لیں اور میلہ لگائیں
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کو ایک ارب 29 کروڑ ڈالر جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ آئی ایم ایف کا قسط جاری کرنا یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم چل رہی ہے۔ ادائیگیوں کا کوئی بحران نہیں ہے۔
قسط کی خبر پاکستانی اسسٹاک مارکیٹ پر بھی ایک مثبت اثر ڈالے گی۔ معاشی استحکام کا جو میسج اس قسط کی منظوری سے ادھر ادھر جاتا ہے۔ اس کا کوئی اثر عوام کی حالت پر نہیں پڑتا۔
عوام کے لیے ابھی کوئی ریلیف دور دور تک نہیں دکھائی دیتا۔ سردار اویس لغاری منسٹر آف پاور ہیں وہ امریکی سفیر سے مدد حاصل کرنے لیے ملے ہیں۔ امریکا کی یہ مدد پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے لیے درکار ہے تاکہ پاکستان اپنے پاور سیکٹر کو بہتر کر کے لوگوں کو کوئی ریلیف فراہم کرے۔ محاورے والا دلی تو دور ہی ہوتا، اس صورتحال سے لگتا ہے کہ اسلام آباد والا ریلیف بھی ابھی باقی پاکستان سے خاصا دور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں افغان طالبان کے خلاف ماحول بنتا جا رہا ہے
حکومت معاشی ہلچل مچانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت ہے جس کا کارکن مستقل حالت احتجاج میں کپتان کے خیالی جلسے میں ناچ رہا ہے۔ حکومت کچھ اچھا کرے برا کرے، کچھ نہ کرے بھلے جنگ کرنے ہی نکل کھڑی ہو پی ٹی آئی حکومت مخالفت میں ریاست مخالفت کی حد بھی پار کر جاتی ہے۔ حکومت لوگوں کو انگیج کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
آبادی کی بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جو قومی مزاج کے عین مطابق شوقن میلے دی والی طبعیت رکھتے ہیں۔ جوانی تفریح مانگتی ہے، اس تفریح پر خرچنے کو پیسہ چاہیے جو بہت نہ بھی ہو اتنا تو ہو تفریح ہو سکے۔ اس یوتھ کو تفریح اور کسی حد تک پیسہ انٹرنیٹ فراہم کرتا ہے۔ نیٹ کی اسپیڈ اور پابندیاں یوتھ کو مزید بیزار کرتی ہیں۔ ویسے مسلم لیگ نون یوتھ کی باقاعدہ ڈسی ہوئی بھی ہے۔
طلبا میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کر کے، بعد میں انہیں مفت ڈیٹا ڈیوائس فراہم کرنا نون لیگ کا ہی آئڈیا تھا۔ تب حوالدار بشیر کا کپتان سے سچا پیار چل رہا تھا۔ یوتھ نے یہی لیپ ٹاپ اور ڈیٹا استعمال کر کے پٹواریوں کی سوشل میڈیا پر اتنی دھلائی کی کہ سارے اتنے گورے ہو گئے کہ فئر اینڈ لولی بھی نہ کرتی۔ اس یوتھ کو انگیج کرنا، تفریح اور روزگار فراہم کر کے حکومت ان کو اپنے مستقل تعاقب سے باز رکھ سکتی ہے۔
سیاسی کارکن وہ دوسری مخلوق ہیں جو اس وقت ویلے پھر رہے ہیں۔ سیاست جب اک تفریح بن کر رہ چکی ہے۔ لوگ اپنے اپنے پہلوان کی مخالف کو جگتوں سے مزہ کشید کرتے ہیں۔ کاروبار حکومت افسران کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ حکومت کے حامی سیاسی کارکن کھسما نوں کھاؤ خود بھگتو کہہ کر سائڈ پر بیٹھے ہیں۔ مخالف سیاسی کارکن نہایت فارغ ہیں اور مستقل مزاجی سے حکومت کے لتے لے رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام اگر موثر اور مستحکم ہوتا تو اپوزیشن اور حکومت دونوں سائیڈ کا ورکر مصروف ہوتا۔
مزید پڑھیے: این اے 18 ہری پور سے ہار پی ٹی آئی کو لے کر بیٹھ سکتی ہے
مقامی حکومتوں کے پاس جتنا زیادہ اختیار ہوگا۔ مقامی لوگ اتنا ہی زیادہ اپنی مقامی حکومتوں کا گلا پکڑیں گے اور اپنے روزمرہ کام ان سے کرائیں گے۔ وفاقی صوبائی حکومتوں کو کوئی سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ ایک شہری کو جتنے انتظامی مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ سارے مقامی سطح پر حل ہو جائیں تو کوئی کیوں لمبے سفری اخراجات کر کے اور وقت برباد کر کے وفاقی صوبائی دارلحکومت پہنچے گا۔
ہمارے سیٹھ یعنی کاروباری طبقہ اک بڑا مسئلہ ہیں۔ یہ مایوسی کا پورا ایٹم بم بنے پھر رہے ہیں۔ کروبار کرنے کو آسان بنانے کی طرف حکومت کا کوئی دھیان خیال نہیں ہے۔ ٹیکس کا نظام پیچیدہ ہے، اب ادائیگیوں کا سسٹم بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ قوانین اور کاروباری رولز نہ تو آسان ہیں نہ شفاف نہ لانگ ٹرم بنیاد پر ترتیب دیے گئے ہیں۔ ریگولیٹری اتھارٹی سیٹھ کے لیے ولن ہیں۔ کمانے والے بندے کا تاثر روزگار فراہم کرنے کی بجائے منہ کالا کرپٹوں والا ہے۔
اگر کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ اسے خرچ کرتے گھبراتا ہے۔ اپنے اسٹیٹس سے کم پر رہتا ہے، سیکیورٹی کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار رہتا ہے۔ سرکاری اہلکار مستقل سیٹھ کی جیب کا تعاقب کرتے ہیں اور وہ مستحقین زکواۃ و صدقات والا حلیہ بنائے آگے بھاگ رہا ہوتا۔
مقامی حکومتوں کو اگر ایکٹیو کر لیا جائے۔ ان حکومتوں میں سیٹھ لوگ کو نگرانی کا کوئی کردار دے دیا جائے۔ شہری انفراسٹرکچر کو ان کی ضرورت مطابق ترتیب دینے میں ان کی سن لی جائے۔ ان سے یہ کہا جائے کہ آپ اس سال دفاتر میں کمیشن دے کر کام نہ کرائیں وہ پیسے فنڈ کی صورت انفراسٹرکچر پر لگائیں اور کوالٹی کی نگرانی بھی کریں تو مقامی سطح پر لوگوں کی باقاعدہ شمولیت ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
معاشی ہلہ گلہ شروع ہوتا دکھانے کے لیے بسنت اور اس جیسے دوسرے ثقافتی میلے پاکستان بھر میں کرائیں۔ سب پر چھائی آلکسی اور سستی دور ہو گی۔ اس تحریر میں بہت سے طبقات کا ذکر رہ گیا ہے۔ وہ سب جو لاتعلق ہیں اور یہی وہ سب ہیں جو اگر سرگرم ہوں تو میلہ لگے گا۔ یہ میلہ لگانا کیسے ہے یہ بتانا سوچنا اس کو عملی شکل میں لانا ماہرین کا کام ہے۔ اپنا کام بس دھیان ڈلوانا تھا کہ سب اک تھک گئے ہیں، آپ کے آئیڈیاز کدھر برف میں لگے پڑے ہیں سرکار، یوتھ کو، سیاسی کارکن کو اور اپنے سیٹھ کو ساتھ لیں اور میلے لگائیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ آئی ایم ایف آئی ایم ایف قرضہ عالمی مالیاتی ادارہ