data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اوسک : ترکیہ میں عدالت نے ایک شہری کو اس جرم میں اپنی بیوی کو زرتلافی ادا کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس نے اپنے موبائل فون میں بیوی کا نمبر موٹی کے نام سے محفوظ کیا تھا۔

شہر اوسک کی عدالتی کاروائی میں یہ بات سامنے آئی کہ شوہر نے اپنی بیوی کا فون نمبر اپنے موبائل میں ایسے نام سے محفوظ کیا تھا جو بیوی کے لیے توہین آمیز سمجھا گیا۔

عدالت نے اس کو جذباتی تشدد کی شکل میں دیکھا کیونکہ ایک ازدواجی رشتہ عزت، احترام اور برابر رویے پر مبنی ہونا چاہیے اور اس قسم کا نام رکھنے کا عمل اس کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔یہ فیصلہ ترکیے میں ایک قانونی مثال بن چکا ہے، یعنی مستقبل میں ایسے معاملات میں اس فیصلے کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔

یہ فیصلہ ترکیے کی اعلیٰ عدالت یعنی نے دیا ہے جس نے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوہر کا اس طرح نام محفوظ کرنا ازدواجی رشتہ کی وفاداری، عزت اور احترام کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی،عدالت عظمیٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد ( آن لائن ) عدالت عظمیٰ نے گھریلو تشدد اور عورت کے نکاح ختم کرنے کے حق (خ±لع) سے متعلق ایک اہم اور تاریخی فیصلہ جاری کر دیا، جس میں عدالت نے پشاور ہائی کورٹ اور فیملی کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔جسٹس عائشہ ملک نے 17
صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ازدواجی زندگی میں نفسیاتی اذیت جسمانی تشدد جتنی سنگین ہے ، اور شوہر کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نکاح کی تنسیخ کے لیے ایک جائز بنیاد ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ظلم صرف جسمانی نقصان تک محدود نہیں، بلکہ ایسا طرزِ عمل بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے جو عورت کو ذہنی یا جذباتی اذیت پہنچائے اور اس کے لیے عزت و سلامتی کے ساتھ گھر میں رہنا ناممکن بنا دے۔عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ گالم گلوچ، جھوٹے الزامات، اور ذہنی اذیت دینا بھی ظلم کے زمرے میں شامل ہیں اور ظلم کے لیے جسمانی زخم کا ہونا ضروری نہیں۔ اگر کسی عورت کی ازدواجی زندگی ایسی اذیت ناک ہو جائے کہ وہ مزید ساتھ نہ نبھا سکے تو عدالت کو اس کے نکاح کے خاتمے کی اجازت دینی چاہیے۔فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے ظلم کی تعریف کو جامع مثالوں کے ذریعے واضح کیا ہے اور عدالتوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ ظلم کی مختلف صورتوں کو پہچان کر انصاف کر سکیں۔جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ عدالتوں کو خواتین سے متعلق محتاط اور باوقار زبان استعمال کرنی چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔عدالت نے مئی 2024 کے پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خاتون کی رضامندی کے بغیر خلع کا حکم دینا غیر قانونی ہے اور نکاح دوسری شادی کی بنیاد پر ختم کیا جاتا ہے ، لہٰذا بیوی کو مہر واپس کرنے کی ضرورت نہیں ۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فیملی کورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا اور خاتون کے دلائل کو نظر انداز کر کے اسے مہر سے محروم کر دیا۔عدالت نے انٹرنیشنل کنویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ غیر انسانی، ظالمانہ یا تحقیر آمیز سلوک عالمی سطح پر ممنوع ہے اور یہ اصول گھریلو تشدد کی شکار شادیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے

راصب خان

متعلقہ مضامین

  • موٹی گردن
  • برازیل میں انوکھا واقعہ: شہری نے انشورنس رقم کیلیے اپنی ہی لگژری گاڑی کو آگ لگا دی
  • عورت کی مرضی کے بغیر عدالت خلع نہیں دے سکتی،عدالت عظمیٰ
  • عزیر بلوچ کو ملزمان کو سہولت فراہم کرنے کے مقدمہ کافیصلہ محفوظ
  • اللہ ڈنو بھییو کے خلاف نیب کی بریت کے خلاف اپیل مسترد
  • سپریم کورٹ نے بیوی پر کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد اور خلع سے متعلق درخواست پر اہم فیصلہ سنادیا
  • بیوی کے خُلع اور کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
  • ساڑھے 8 لاکھ ڈالر ڈیجیٹل کرنسی لوٹنے کا واقعہ، متاثرہ شہری نے چیف جسٹس و دیگر خط لکھ دیا
  • امریکی شہری کی قسمت جاگ گئی، پارک میں ٹہلتے ہوئے بیش قیمت ہیرا ہاتھ لگ گیا