پاکستان اسٹیل ملازمین کے بکھرے خواب
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی کے مشرقی ساحلی پٹی پر واقع گلشن حدید اور اسٹیل ٹاؤن کبھی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے لیے امیدوں اور خوشحالی کے مسکن سمجھے جاتے تھے۔ یہاں روزگار، سہولیات اور سکون بیک وقت میسر تھے۔ 1970 کی دہائی میں پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کے ساتھ ان بستیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ اسٹیل ملز کا باقاعدہ افتتاح 1985 میں ہوا، جہاں لگ بھگ 18 ہزار ملازمین خدمات انجام دیتے تھے۔ انتظامیہ اور مزدور یونینز کے باہمی معاہدے کے تحت گلشن حدید کو مختلف فیزز میں ترقی دی گئی، اور فیز 4 تک ہزاروں خاندان آباد ہو گئے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہ ترقی زوال میں بدلتی چلی گئی۔ 1990 کی دہائی کے بعد انتظامی نااہلی، سیاسی مداخلت اور بدعنوانی نے اس قومی اثاثے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ 2015 تک صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ اسٹیل ملز کی پیداوار مکمل طور پر بند ہو گئی۔ مشینیں زنگ آلود ہو گئیں، اور ہزاروں مزدور بے روزگار کر دیے گئے وہ مزدور جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھے، آج محرومی اور مایوسی کی علامت بن گئے اسٹیل ملز کی بندش نے نہ صرف صنعتی پیداوار کو متاثر کیا بلکہ گلشن حدید اور اسٹیل ٹاؤن کی زندگی کو بھی بے روح کر دیا۔ بجلی، پانی، صفائی اور سیوریج کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ گزشتہ 8برسوں سے ان علاقوں کے مکین شدید پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سرکاری فراہمی بند ہونے کے بعد لوگ یا تو کھارا زیرِ زمین پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں یا پھر بھاری قیمت پر واٹر ٹینکر خریدتے ہیں، جن کی قیمت 3500 سے 5000 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ نتیجتاً، درجنوں خاندان شدید معاشی اور ذہنی دباؤ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مزدور یونینز، جنہیں محنت کشوں کی آواز ہونا چاہیے تھا، سیاسی اثر و رسوخ اور ذاتی مفادات کے باعث کمزور ہو گئیں۔ یونین رہنماؤں نے پارٹی وابستگیوں کو ترجیح دی اور مزدوروں کے اصل مسائل پسِ پشت ڈال دیے۔ احتجاج، جلسے اور دھرنے جو مزدوروں کے حقوق کے لیے ہونے چاہیے تھے۔سیاسی مقاصد کے اوزار بن گئے۔ نتیجتاً، مزدوروں میں مایوسی بڑھتی گئی اور جدوجہد بے نتیجہ ثابت ہوئی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی متنازعہ رہا۔ ہر حکومت اپنے دورِ اقتدار میں اسٹیل ملز کی بحالی یا نجکاری کے وعدے کرتی رہی، مگر عملی اقدام کسی نے نہ اٹھایا۔ اقتدار سے باہر آتے ہی وہی جماعتیں مزدوروں کے ساتھ احتجاجی صفوں میں کھڑی نظر آئیں۔ اس تضاد نے محنت کش طبقے کی تکالیف میں مزید اضافہ کر دیا۔ آج گلشن حدید اور اسٹیل ٹاؤن کی خالی گلیاں، ٹوٹی عمارتیں اور اجڑے راستے ایک انسانی المیے کی عکاسی کر رہے ہیں۔ ملازمین کے بقایاجات اور پنشن کے وعدے محض کاغذوں تک محدود ہیں۔ کئی سابقہ ملازمین صدمے اور بیماریوں کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جبکہ جو زندہ ہیں وہ غربت، بیماری اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت سنجیدہ اقدامات کرے۔ اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے ایک خودمختار کمیشن قائم کیا جائے، جس میں سیاسی مداخلت سے پاک انتظامیہ شامل ہو۔ مزدوروں کے بقایاجات اور پنشن کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے، اور گلشن حدید و اسٹیل ٹاؤن میں پانی، صفائی اور دیگر بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے نئے منصوبے شروع کیے جائیں۔ پاکستان اسٹیل ملز اور اس سے منسلک یہ علاقے صرف ایک صنعتی ادارے یا رہائشی کالونی کی کہانی نہیں، بلکہ یہ قومی اداروں کے زوال، حکومتی بے حسی اور مزدور طبقے کی جدوجہد کی علامت ہیں۔ اگر اب بھی دیانتداری اور نیک نیتی سے اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ علاقے رفتہ رفتہ ‘‘شہرِ خموشان’’ میں بدل جائیں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان اسٹیل اسٹیل ملز کی اسٹیل ٹاو ن مزدوروں کے گلشن حدید اور اس کے لیے
پڑھیں:
پنشن اور واجبات کیس میں کے ایم سی کی رپورٹ عدالت میں پیش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251211-08-16
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ میں ٹی ایم سی کے ریٹائرڈ ملازم کی پینشن اور واجبات کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، کے ایم سی کی جانب سے جامع رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی جس میں بتایا گیا کہ عدالت کے احکامات کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کو ادائیگیوں کا عمل جاری ہے۔ کے ایم سی کے وکیل بیرسٹر اسد احمد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ درخواست گزار سمیت 1270 ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی شروع کر دی گئی ہے جبکہ مزید 699 ملازمین کے کیسز حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔ وکیل نے بتایا کہ آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد ان ملازمین کی پینشن بھی جاری کردی جائے گی۔ کے ایم سی کے وکیل کے مطابق متعلقہ ٹاؤنز نے 156 ریٹائرڈ ملازمین کی تفصیلات تاحال فراہم نہیں کیں، جس کے باعث ان کی پینشن کے معاملات شروع نہیں ہوسکے ہیں۔