Jasarat News:
2025-10-27@01:35:35 GMT

مہنگائی کا طوفان؛ عوام پریشان

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251027-03-5
سردار محمدریاض
پاکستان ایک طویل عرصے سے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کی زد میں ہے مگر حالیہ برسوں میں مہنگائی کی شدت نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ روزمرہ کے اخراجات سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی تک ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ متوسط طبقہ، جو کبھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا آج کچلے ہوئے طبقات کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔ غریب آدمی کا چولہا ٹھنڈا ہے۔ بچوں کی تعلیم خواب بن چکی ہے اور صحت کی سہولت ایک نایاب نعمت بن گئی ہیں۔ بازاروں کا حال یہ ہے کہ سبزی، دال، گوشت، دودھ، آٹا، چینی جیسی بنیادی اشیاء بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہر ہفتے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر آمدنی وہی کی وہی۔ تنخواہ دار طبقے کی حالت تو مزید ناگفتہ بہ ہے۔ جو لوگ پہلے مہینے کے آخر تک کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتے تھے وہ اب مہینے کے وسط تک ہی معاشی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں حکومتی ناقص پالیسیاں، کرپشن، روپے کی قدر میں کمی، اور درآمدات پر انحصار شامل ہے۔ جب ایک ملک اپنی ضروریات کے لیے بیرونی منڈیوں کا محتاج ہو جائے تو مہنگائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔

زراعت جو کبھی اس ملک کی معیشت کا ستون تھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ کسان کو اس کی فصل کا جائز دام نہیں ملتا جبکہ صارف کو وہی اجناس کئی گنا زیادہ قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکمران طبقہ اپنی عیش و عشرت میں مصروف ہے۔ ان کے اخراجات، سہولتیں اور پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وزیروں، مشیروں اور بیوروکریسی کے لیے تنخواہیں، الاوئنسز اور مراعات بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ عوام کو قربانی، صبر، اور حب الوطنی کے بھاشن دیے جا رہے ہیں۔ جب حکمران خود کفایت شعاری کی مثال نہ بنیں تو عوام سے قربانی کی امید رکھنا بے معنی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکومت نے عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے مگر حقیقت میں ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والے ہوں یا آمریت کے دعویدار، کسی نے بھی عوامی فلاح کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ اقتدار میں آتے ہی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہو جاتیںہیں۔ وعدے فراموش کر دیے جاتے ہیں اور پالیسیوں میں عوام کے بجائے مخصوص طبقوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اداروں کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ کوئی قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا نہیں، کوئی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف موثر کارروائی کرنے والا نہیں۔ ہر چیز خودکار نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں صرف کاغذوں میں فعال ہیں جبکہ عملی طور پر بازار میں لاقانونیت کا راج ہے۔

اس تمام تر صورتحال کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے۔ تعلیم مہنگی ہو چکی ہے۔ روزگار کے مواقع ناپید ہیں اور جو تھوڑے بہت روزگار دستیاب ہیں وہ یا تو سفارش کی بنیاد پر ملتے ہیں یا پھر اتنی کم اُجرت پر کہ گزارا ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں نوجوان یا تو جرائم کی دنیا کا رُخ کرتے ہیں یا پھر بیرون ملک جانے کے خواب میں اپنی جمع پونجی لٹا دیتے ہیں۔ یہ ہنر مند، پڑھے لکھے نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں مگر انہیں موقع نہ دینا ایک قومی سانحہ ہے۔ مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو مقامی پیداوار کو فروغ دیں۔ زراعت اور صنعت کو مضبوط بنائیں۔ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کو بڑھائیں اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا نظام تشکیل دیں جو شفافیت، احتساب اور میرٹ پر مبنی ہو۔ اس وقت ملک کو وقتی ریلیف کی نہیں بلکہ ایک جامع، مستقل اور طویل المدتی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر صرف شور مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا جب تک ہم بطور قوم اپنی ترجیحات کا تعین نہ کریں، فضول خرچی کو ترک نہ کریں اور اپنے وسائل کا درست استعمال نہ کریں۔ ہمیں ایسے نمائندے منتخب کرنا ہوں گے جو ہمارے مسائل کو سمجھیں۔ ان کا ادراک رکھیں اوران میں انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔

مہنگائی کا یہ طوفان وقتی نہیں لگتا بلکہ یہ ایک ایسا سلسلہ بن چکا ہے جو ہر سال نئی شدت کے ساتھ آتا ہے۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف معیشت کو تباہ کر دے گا بلکہ سماجی انتشار کو بھی جنم دے گا۔ جرائم میں اضافہ، ذہنی دباؤ، خودکشیاں، اور معاشرتی اقدار کا زوال اس مہنگائی کی ہی پیداوار ہیں اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو وہ وقت بہت دور نہیں جب یہ بحران ناقابل ِ واپسی شکل اختیار کر لے گا۔

ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے محض بیانات یا اعلانات کافی نہیں۔ عملی اقدامات، نیک نیتی، اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ عوام کی حالت سدھارنے کے لیے ان کی آواز کو سننا ہوگا، ان کے دکھ کو محسوس کرنا ہوگا اور ان کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار صرف مراعات کا نہیں، بلکہ ذمے داریوں کا نام بھی ہے۔ جب تک یہ احساس بیدار نہیں ہوتا، پاکستان کے عوام اسی طرح مہنگائی کے طوفان میں ڈوبتے رہیں گے اور حکمران محلات میں بیٹھے بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔

سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے کے لیے

پڑھیں:

پیسہ بینک کے بجائے اسٹاک میں لگانا چاہیے؟ مگر کیوں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251025-03-4

 

عبید مغل

مشہور کہاوت ہے کہ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ یہ مثال اس قوم پر خوب صادق آتی ہے جو بارہا امیدوں کے کنویں میں جھانک کر خالی لوٹی ہو۔ جس کے ساتھ ہر بار وعدے ہوئے، خواب بیچے گئے، اور جب جاگنے کا وقت آیا تو حقیقت کے ریگستان میں تنہا کھڑی رہ گئی۔ تاریخ میں کہا گیا ہے کہ جو بار بار دھوکا کھائے اور پھر بھی اعتبار کرے، وہ مظلوم نہیں بلکہ غافل کہلاتا ہے۔ گزشتہ روز روزنامہ جسارت کے صفحۂ اوّل پر ایک خبر نمایاں تھی کہ عدالت ِ عظمیٰ کے آئینی بینچ کے سربراہ عزت مآب جسٹس امین الدین خان صاحب نے دورانِ سماعت فرمایا: ’’لوگوں کو پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگانا چاہیے‘‘۔ یہ جملہ بظاہر ایک معاشی مشورہ ہے، مگر پس ِ پردہ ایک سوال جنم دیتا ہے کہ جنابِ عالی! کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اسی اسٹاک مارکیٹ میں کتنی بار اپنا خون پسینہ ڈبویا ہے؟

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ محض سرمایہ کاری کی نہیں، بلکہ کہانی ہے ان خوابوں کی جو مصنوعی منافع کے سراب میں بھگو دیے گئے۔ اس گورکھ دھندے میں کبھی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ کے نام پر قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور اگلے ہی ہفتے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ بڑے بروکرز اندرونی معلومات کے بل پر شیئرز خریدتے ہیں، مصنوعی قیمتیں بڑھاتے ہیں، اور جب عام آدمی جوشِ سرمایہ میں شریک ہوتا ہے تو وہی بڑے کھلاڑی اپنے شیئر بیچ کر نکل جاتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کار کے ہاتھ میں بچتا ہے تو صرف ’’اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ‘‘ اور آنکھوں میں نمی۔

2024 میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) نے تین بڑی کمپنیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے کہ انہوں نے جعلی آرڈرز کے ذریعے اسٹاک کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائیں۔ 2008 میں JS Global Capital سے وابستہ ایک کمپنی کے حصص 1370 روپے تک پہنچے اور پھر چند ماہ میں صرف 21 روپے رہ گئے۔ کئی بار ’’منی پولیشن‘‘ اور اندرونی تجارت کے شواہد سامنے آئے مگر سزا؟ عدالتوں کی فائلوں میں دفن۔ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی اسی اخلاقی منظرنامے کا ایک عکس ہے۔ ان پر الزام تھا کہ اربوں روپے اپنی خاندانی کمپنیوں میں منتقل کیے، مگر بعد میں رپورٹ آئی کہ ’’تمام لین دین قانون کے اندر تھے‘‘۔ عوام کے نزدیک یہ پھر ایک ایسا ہی باب تھا جس میں شور بہت ہوا مگر نتیجہ صفر نکلا۔ اب آپ فرمائیے، ایسی اسٹاک مارکیٹ میں عوام کیوں بھروسا کریں؟ چونکہ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی ہماری عدلیہ کے نظام سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ ایک ایسا نظامِ انصاف جس کا Rule of Law Index میں نمبر 129 ہے۔ (142 ممالک میں سے)، وہ شفافیت کا پیمانہ کیسے تھامے؟ Transparency International کے مطابق پاکستان کرپشن میں 180 ممالک میں سے 135 ویں درجے پر ہے۔ خود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی کمپنیوں کی شفافیت ’’معتدل‘‘ ہے، یعنی 7.23 از 10۔

عزت مآب جسٹس صاحب! یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے سب کچھ آزما لیا ہے۔ اب وہ مزید کسی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ یا اندرونی کھیل کے متحمل نہیں۔ انہیں اسلامی بینکاری نظام کی طرف رہنمائی دیجیے جہاں سرمایہ کاری مضاربت اور مشارکت کے اصولوں پر حقیقی معیشت میں شامل ہو، نہ کہ جعلی طلب و رسد کے دھوکے میں۔ اسلامی بینک جب صنعت، زراعت اور تجارت کو اسلامی بنیادوں پر قرض دیں گے تو یہ سرمایہ نہ صرف برکت پائے گا بلکہ قومی معیشت بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔ اور پھر ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں: پاکستان کی عدلیہ اور اسٹاک مارکیٹ دونوں ایک ہی آئینے کے دو عکس ہیں۔ دونوں اداروں میں باصلاحیت، دیانتدار اور نیک نام افراد موجود ہیں، مگر نظام اندھیرے میں لپٹا ہے۔ افراد جگمگا رہے ہیں، ادارے بجھ رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انصاف خود تاخیر کا شکار ہو تو سرمایہ کار انصاف پر کیسے یقین کرے؟ عوام کو اب نعرے نہیں، یقین چاہیے۔ جب تک اسٹاک مارکیٹ کے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاتا، جب تک عدالتی فیصلے بر وقت اور بے لاگ نہیں ہوتے، تب تک یہ مشورہ کہ ’’پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگائیں‘‘ ایک خوابِ ناتمام ہی رہے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم مشورے نہیں، نظام بدلنے کی بات کریں۔ عوام کو اعتماد، معیشت کو امان، اور ریاست کو شفافیت کی ضرورت ہے، ورنہ کل کو تاریخ لکھے گی کہ ’’یہ قوم بھی رسی دیکھ کر ڈر گئی، کیونکہ اسے بار بار سانپوں نے ڈسا تھا‘‘۔

عبید مغل

متعلقہ مضامین

  • مزدوروں کی نجی ضروریات اور گورنمنٹ کی بے توجہی
  • حکومت ڈاکوئوں کو ہتھیار ڈالنے کیلئے منتیں کررہی ،جماعت اسلامی
  • پشاور میں ٹماٹر سستا، پیاز مہنگی،  شہری پریشان
  • اوقیانوس میں اٹھنے والے طوفان ’ملیسا‘ سے امریکا میں اربوں ڈالرز کی تباہی کا خدشہ، ہنگامہ حالات کا اعلان
  • ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج
  • حیدرآباد،کوہسار سوسائٹی میں پانی کی فراہمی معطل ،مکین پریشان
  • مرغی کے گوشت کی قیمت میں پھر اضافہ
  • پیسہ بینک کے بجائے اسٹاک میں لگانا چاہیے؟ مگر کیوں؟
  • مجھے کہا گیا آپ کی جان کو خطرہ ہے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا