مقبوضہ فلسطین سے مقبوضہ کشمیر تک خمینی ڈاکٹرائن کی اہمیّت
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج کے دور میں مظلوموں کی نجات کا مختصر اور مجرّب نسخہ امام خمینی کا فریم ورک ہے۔ تاریخ کو طاقتوروں کے قلم سے آزاد کرکے مظلوموں کی آہوں سے تحریر کرنا اور مظلوموں کے حقِّ خود ارادیت کی بنیاد پر عہدِ نو کی بنیاد رکھنا، یہ صرف خمینی ڈاکٹرائن کا کمال ہے۔ یہی وہ نسخہ ہے، جسے اپنانے سے بیت المقدس کی گلیوں اور سری نگر کی وادیوں میں آزادی کی اذان گونجے گی۔ یاد رکھئے! غرق ہونے کے دوران نجات کی کوشش کو جاری رکھنا امید کی کرن کے بغیر ممکن نہیں اور آج کی دنیا میں مظلوموں کیلئے امید کی کرن کا نام خمینی ؒ ڈاکٹرائن ہے۔ لہذا جسے استعمارِ نو کی زنجیروں سے نجات چاہیئے، اُسے عہدِ نو میں خمینی ڈاکٹرائن کو سمجھنا، پرکھنا اور اپنانا ہوگا۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
آج کی دنیا میں عوامی و مقامی حمایت اور بین الاقوامی رائے عامہ کے بغیر آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ یعنی عالمی برادری سے اپنا حق منوانے اور لینے کیلئے فقط مظلوم ہونا کافی نہیں۔ نہ ہی کسی ملک کی صرف جغرافیائی اور اسٹریٹیجک اہمیت کسی مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ہی لیجئے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کی سامراجی تقسیم اور بیلفور اعلامیہ 1917ء کے نتیجے میں پیدا ہوا اور آج تک ایک ناسور کی شکل میں مزید بگڑتا ہی جا رہا ہے۔ مذکورہ اعلامئے نے 1948ء میں اسرائیل کو جنم دیا اور آگے چل کر 1967ء کی جنگ کے بعد مقبوضہ فلسطین ایک مستقل جغرافیائی اکائی بن گیا۔ دوسری طرف کشمیر کا تنازع بھی برطانوی نوآبادیاتی انخلا (1947ء) کی کوکھ سے برآمد ہوا اور بعد ازاں مقبوضہ فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر بھی ایک جغرافیائی اکائی کے قالب میں ڈھل گیا۔ کیا یہ حقیقت اظہر من الشّمس نہیں کہ فلسطین اور کشمیر دونوں کے لحاظ سے اُمّت مسلمہ نے ابھی تک کھویا ہی ہے، پایا کچھ نہیں!۔
کئی دہائیوں سے قابض فورسز کی طرف سے مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں ثقافتی اور نظریاتی استحصال کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، نیز مذکورہ مقبوضہ علاقوں میں مقامی شعور، ملّی تاریخ، ثقافتی شناخت اور عوامی بیانیہ بھی قابض فورسز کے نشانے پر ہے۔ بھلا استعمار کو عقل، دلیل، عدل، قانون اور خیر و بھلائی سے کیا کام! سو مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دونوں میں غیر اخلاقی ہتھکنڈوں اور دھونس کا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کہیں پر بھی عدل و انصاف تب قائم ہوتا ہے، جب ہر فرد اپنی فطری حد میں رہے۔ سو مذکورہ مناطق میں قابض افواج نے چادر و چاردیواری کی بھی ساری حدود توڑ دی ہیں۔ کہنے کو سیاست اخلاق سے جدا نہیں ہونی چاہیئے، لیکن کسی غاصب رجیم کی ساری توانائی ہی اخلاق کو اپنے تابع بنانے پر صرف ہوا کرتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی تحریکوں کو غاصب فورسز کے مقابلے میں سیاسی و مزاحمتی تشیع اور امام خمینی ؒ کی ڈاکٹرائن سے محروم کر دیا جائے تو مذکورہ مناطق کے باسیوں کے پاس بیداری و مقاومت کا کوئی دوسرا سامان ہے ہی نہیں۔ اسلامی انقلاب کی روح کے مطابق مظلوم کیلئے مزاحمت کوئی آپشن نہیں بلکہ اس کے وجود کی بقاء کا تقاضا ہے۔ موجودہ صدی میں حضرت امام خمینیؒ کے انقلابی نظریات نے مظلوموں کی مزاحمت کو ایک جدید نظریاتی اور عملی فریم ورک فراہم کیا ہے۔ اس فریم ورک کے مطابق اب مظلوموں کی جدوجہد روایتی قومی یا علاقائی سیاست سے کہیں آگے جا کر عالمی سطح پر ایک حکمت عملی کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس فریم ورک نے مزاحمت کے دائرہ کار کو عسکری یا فوجی سطح سے بڑھا کر سماجی، تعلیمی، فکری اور سیاسی ڈھانچوں تک پھیلا دیا ہے۔
فلسطین میں حزب اللہ اور حماس جیسے گروہ عملی طور پر نظریۂ ولایت فقیہ اور اسلامی انقلاب کی مزاحمتی اسٹریٹجی پر کاربند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریکیں اسلامی انقلاب ایران کی مانند مقامی طور پر عوام کے درمیان مقبول اور مستحکم ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں شیعہ اور سنی مزاحمتی حلقے جس حد تک حضرت امام خمینی ؒکے تاریخی مزاحمتی ماڈل سے آشنا ہیں، اُسی قدر انقلابی شعور سازی اور مزاحمتی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کو امام خمینی ؒکی پیروکار انقلابی و مزاحمتی تشیع نے عرب دنیا کے خسدان سے نکال کر اسے ایک اسٹریٹجک محاذ اور بین الاقوامی سفارتی جنگ میں بدل دیا ہے۔ چنانچہ وہاں قابض فورسز کو حماس اور حزب اللہ کے چھاپہ ماروں کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ، دنیا کے سیاسی دباؤ اور بین الاقوامی اسلامی اتحاد کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
معاصر تاریخ میں مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے بڑھ کر کوئی اور مظلوم نہیں۔ یہ دونوں علاقے اسٹریٹیجک اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہیں۔ آپ خود دیکھ لیں کہ بظاہر اپنی اہمیت کے اعتبار سے کشمیر جنوبی ایشیاء میں نیوکلیئر ڈیٹرنس کی نازک لکیر پر واقع ہے اور فلسطین مشرقِ وسطیٰ میں عرب-اسرائیل طاقت کے توازن کی میزان ہے۔ اگر ان دونوں تنازعات کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عالمی ادارے حقِ خودارادیت کو بنیادی اصول تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس اصول کی عملی حیثیت طاقت کے استعمال کے سامنے کمزور پڑ چکی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عالمی برادری سے اپنا حق منوانے کے لیے مظلومیت یا جغرافیائی اہمیت صرف ابتدائی شرطیں ہیں۔ چنانچہ مظلومیّت سے نجات حاصل کرنے کیلئے صرف مظلوم ہونا کافی نہیں بلکہ نجات کیلئے مظلوم کے پاس ایک مضبوط سیاسی حکمت عملی، بین الاقوامی تعلقات کی سوجھ بوجھ، مضبوط نظریاتی بنیادیں اور عالمی سطح پر سفارتی دباؤ پیدا کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔
آج کے دور میں مظلوموں کی نجات کا مختصر اور مجرّب نسخہ امام خمینی کا فریم ورک ہے۔ تاریخ کو طاقتوروں کے قلم سے آزاد کرکے مظلوموں کی آہوں سے تحریر کرنا اور مظلوموں کے حقِّ خود ارادیت کی بنیاد پر عہدِ نو کی بنیاد رکھنا، یہ صرف خمینی ڈاکٹرائن کا کمال ہے۔ یہی وہ نسخہ ہے، جسے اپنانے سے بیت المقدس کی گلیوں اور سری نگر کی وادیوں میں آزادی کی اذان گونجے گی۔ یاد رکھئے! غرق ہونے کے دوران نجات کی کوشش کو جاری رکھنا امید کی کرن کے بغیر ممکن نہیں اور آج کی دنیا میں مظلوموں کیلئے امید کی کرن کا نام خمینی ؒ ڈاکٹرائن ہے۔ لہذا جسے استعمارِ نو کی زنجیروں سے نجات چاہیئے، اُسے عہدِ نو میں خمینی ڈاکٹرائن کو سمجھنا، پرکھنا اور اپنانا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر خمینی ڈاکٹرائن میں مظلوموں کی بین الاقوامی امید کی کرن کی بنیاد
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کیخلاف آج یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے
ویب ڈیسک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف آج یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے،27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج نے جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق 27 اکتوبر کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی اور بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کا دن ہے۔ آج گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور چاروں صوبوں میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
دنیا بھر میں کشمیری اور پاکستانی عوام بھارتی تسلط کے خلاف احتجاجی سرگرمیوں میں شریک ہوں گے۔ کشمیری عوام دہائیوں سے بھارتی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہنڈائی ٹکسن ہائبرڈ بغیر سود کے آسان اقساط میں حاصل کریں
وزارتِ امورِ کشمیر کے زیرِ اہتمام، وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات کے اشتراک سے احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔ احتجاجی ریلی دفترِ خارجہ سے ڈی چوک تک نکالی جائے گی۔ شاہراہِ دستور، پارلیمنٹ ہاؤس اور ڈی چوک پر “کشمیر بنے گا پاکستان” کے بینرز آویزاں ہیں۔ وفاقی دارلحکومت کی سڑکوں، چوراہوں اور سرکاری عمارتوں پر یومِ سیاہ کے پوسٹرز اور فلیکسز نصب ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے یوم سیاہ پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ 27 اکتوبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کا اقدام تاریخ عالم کا سیاہ باب ہے۔ 27 اکتوبر کے سیاہ باب کی سیاہی بھارتی قیادت کے چہرے پر نمو دار ہورہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ اقوام عالم کا مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بھائیوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔
برائلر مرغی کے گوشت کی قیمت میں حیران کن کمی
مریم نواز نے کہا کہ پاکستان نے آپریشن بنیان مرصوص میں بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ بھارتی قیادت بنیان مرصوص کی شرمندگی کے باعث وزیراعظم محمد شہباز شریف کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ امریکی صدر کا وزیراعظم محمد شہباز شریف اور فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کو عظیم قرار دینا بھارت کے لئے ایک اور شکست کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر او رپاکستان لازم و ملزوم ہیں، کوئی جدا نہیں کرسکتا۔ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کا خون ضرور رنگ لائے گا، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی روشن صبح ضرور طلوع ہوگی۔
بالی ووڈاداکار کا موت سے پہلے کیا گیا ٹوئٹ وائرل