امریکی صدر اور چینی ہم منصب میں ٹیلیفونک رابطہ، ٹرمپ نے چین کے دورے کی دعوت قبول کر لی
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
ٹرمپ اور شی جن پنگ نے اکتوبر 2025 میں جنوبی کوریا کے شہر بسآن میں ملاقات کی تھی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک گھنٹے تک بہت اچھی اور مثبت ٹیلی فونک گفتگو کے فوراً بعد اعلان کیا ہے کہ وہ اپریل 2026 میں بیجنگ کا سرکاری دورہ کریں گے۔
جبکہ شی جن پنگ کو بھی 2026 کی دوسری نصف میں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ہے جسے قبول کر لیا گیا۔
یہ اعلان دونوں رہنماؤں کے درمیان یوکرین کی جنگ، تائیوان کے تنازع اور سویا بین کی تجارت سمیت اہم عالمی مسائل پر بات چیت کے بعد سامنے آیا۔
شی جن پنگ نے تائیوان کو چین کی واپسی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام کا لازمی جزو قرار دیا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ شی جن پنگ ایک عظیم رہنما ہیں۔ ہماری گفتگو انتہائی مفید تھی، جس میں یوکرین، فینٹانیل کی سمگلنگ روکنے اور امریکی کسانوں کے لیے سویا بین کی بڑھتی ہوئی خریداری شامل تھی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کارولین لیویٹ نے تصدیق کی کہ یہ کال تقریباً ایک گھنٹہ طویل تھی اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ ٹیرف معاہدے کی بنیاد پر تجارت کو مزید مستحکم کرنے پر مرکوز رہی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ اور شی جن پنگ نے اکتوبر 2025 میں جنوبی کوریا کے شہر بسآن میں ملاقات کی تھی، جہاں ٹیرف جنگ کو روکنے اور نایاب معدنیات کی برآمدات سمیت تجارت کے نئے معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
وینزویلا پر پروپیگنڈا ’لیف لٹ‘ گرانے پر غور، امریکا کی نئی حکمتِ عملی منظرِ عام پر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی 63ویں سالگرہ کے موقع پر ملک کے مختلف حصوں میں پروپیگنڈا لیف لٹ گرانے پر سنجیدگی سے غور کیا تھا۔ یہ انکشاف امریکی میڈیا کی رپورٹس میں سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش پوری نہ ہوئی، امن کا نوبیل انعام 2025 وینزویلا کی ماریہ کورینا کو مل گیا
واشنگٹن پوسٹ اور سی بی ایس نیوز کے مطابق یہ تجویز حال ہی میں اعلیٰ حکومتی سطح پر زیرِ بحث آئی، تاہم اس منصوبے کی عملی منظوری ابھی تک نہیں دی گئی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ممکنہ لیفلٹس میں مادورو کی گرفتاری میں مدد دینے پر 50 ملین ڈالر انعام سے متعلق معلومات شامل کی جاسکتی تھیں۔ مادورو پر 2020 میں منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی سے متعلق الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
اس نوعیت کے لیفلٹس گرانا عالمی سطح پر ’نفسیاتی جنگ‘ کا ایک پرانا حربہ سمجھا جاتا ہے۔ امریکا ماضی میں عراق پر 2003 کی یلغار سے قبل بھی یہی طریقہ استعمال کر چکا ہے، جبکہ شام اور افغانستان میں بھی یہ حکمتِ عملی اپنائی گئی تھی۔
رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ حالیہ ہفتوں میں وینزویلا کے گرد فوجی دباؤ بھی بڑھا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے وینزویلا کے صدرکی گرفتاری کے لیےانعامی رقم 50 ملین ڈالرکردی
مبینہ منشیات بردار کشتیوں پر حملوں اور خطے میں فوجی تعیناتی میں اضافہ اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگسیتھ ان کارروائیوں کی تشہیر سوشل میڈیا پر کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے وینزویلا میں خفیہ سی آئی اے آپریشنز کی اجازت دی۔ علاوہ ازیں وہ اس امکان کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ منشیات کارٹلز کو کمزور کرنے کے لیے وینزویلا کی سرزمین پر براہِ راست کارروائیاں کی جائیں۔
تاہم ان کارروائیوں نے خطے میں تنازع کے بڑھنے کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ ماہرین اور امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ایسی مداخلتیں وینزویلا اور کولمبیا کے ساتھ ممکنہ جنگ کا خطرہ پیدا کر سکتی ہیں۔
ڈیموکریٹ سینیٹر ٹِم کین نے گزشتہ ماہ ایک دو جماعتی بل بھی پیش کیا، جس کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے ساتھ کسی بڑے فوجی ٹکراؤ میں جانے سے روکنا تھا۔ ناقدین کا مؤقف ہے کہ جنگ کا اعلان صرف کانگریس کا اختیار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹرمپ انتظامیہ وینزویلا