Express News:
2025-11-23@21:51:55 GMT

گلوبلائزیشن کا عروج و زوال

اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT

چار صدیاں تک دنیا کی معیشت مسلسل بڑھتے انضمام کی راہ پر گامزن رہی اور جسے دو عالمی جنگیں بھی مکمل طور پر پٹری سے نہیں اتار سکیں۔ گلوبلائزیشن کی اس طویل پیش قدمی کو بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری میں تیزی سے ہوتی ترقی نے تقویت دی۔ اس کے ساتھ سرحدوں کے پار لوگوں کی وسیع پیمانے پر نقل و حرکت اور ٹرانسپورٹ و کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں ڈرامائی تبدیلیوں نے بھی اسے فروغ دیا۔

امریکی معاشی مورخ جے بریڈفورڈ ڈی لانگ کے مطابق عالمی معیشت کی قدر (1990 ء کی مقررہ قیمتوں کے مطابق) 1650ء میں 81.

7 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2020 ء میں 70.3 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچی…یعنی 860 گنا اضافہ۔ ترقی کے سب سے بہترین ادوار اْن دو وقتوں سے مطابقت رکھتے ہیں جب عالمی تجارت سب سے تیزی سے بڑھ رہی تھی: پہلا دور ‘‘طویل انیسویں صدی’’ کے دوران یعنی فرانسیسی انقلاب کے اختتام سے پہلی عالمی جنگ کے آغاز تک اور دوسرا دور دوسری عالمی جنگ کے بعد تجارت کی آزاد کاری کے فروغ کے ساتھ 1950 ء کی دہائی سے لے کر 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران تک۔

اب تاہم یہ عظیم منصوبہ پسپا ہو رہا ہے۔ گلوبلائزیشن ابھی مردہ نہیں ہوئی لیکن یقینی طور پر مر رہی ہے۔یہ خوشی کی بات ہے یا تشویش کی؟ اور کیا یہ منظرنامہ اس وقت بدل جائے گا جب ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے بڑے پیمانے پر خلل ڈالنے والے ٹیرف وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے؟ کئی ماہرین کے نزدیک ایسی مضبوط تاریخی وجوہ موجود ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے ’’ڈی گلوبلائزڈ‘‘(Deglobalized) مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے,چاہے ٹرمپ منظر سے ہٹ بھی جائیں۔

صدر ٹرمپ کے ٹیرفوں نے دنیا کے معاشی مسائل بڑھا دئیے مگر وہ اس وجہ سے پیدا نہیں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا رویّہ ایک ایسی سچائی کی عکاسی کرتا ہے جو کئی دہائیوں سے ابھر رہی ہے لیکن جسے سابقہ امریکی انتظامیہ اور دنیا بھر کی دیگر حکومتیں تسلیم کرنے سے ہچکچاتی رہیں: یعنی امریکہ کا بطور دنیا کی نمبر ون معاشی طاقت اور عالمی ترقی کے انجن بتدریج زوال پذیر ہونا۔

سترھویں صدی کے وسط سے لے کر ہر دورِ میں امریکہ واحد ملک ہے جس نے واضح عالمی رہنما بننے کی کوشش کی ہے۔ایسا ملک جو پوری دنیا کی معیشت کے اصول و ضوابط وضع کرتا رہا۔ ہر مثال میں یہ بالادست طاقت اتنی فوجی، سیاسی اور مالی قوت رکھتی تھی کہ اپنے اصولوں کو نافذ کر سکے اور دوسروں کو قائل بھی کر سکے کہ دولت اور طاقت حاصل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی بہتر راستہ نہیں۔

لیکن اب ٹرمپ کے دور میں امریکہ تنہائی پسندی کی طرف پھسل رہا ہے تو اس کی جگہ لینے اور مستقبل قریب میں یہ علم اٹھانے کے لیے کوئی اور طاقت تیار نہیں۔ جن کے خیال میں چین یہ کردار ادا کر سکتا ہے، وہ بھی حقیقت پسندانہ نہیں کیونکہ چین بے شمار معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے جن میں ایک بین الاقوامی سطح پر قابلِ قبول کرنسی کا نہ ہونا شامل ہے۔اور بطور ایک واحد جماعتی ریاست اسے عالمی غالب قوت کے طور پر قبول کیے جانے کے لیے درکار جمہوری مینڈیٹ بھی میسّر نہیں۔

اگرچہ گلوبلائزیشن نے ہمیشہ فاتحین کے ساتھ بہت سے ناکام اور پسے طبقات بھی پیدا کیے…اٹھارویں صدی میں غلاموں کی تجارت سے لے کر بیسویں صدی میں امریکی مڈویسٹ کے بے روزگار فیکٹری کارکنوں تک لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک ’’ڈی گلوبلائزڈ‘‘ دنیا اس سے بھی زیادہ خطرناک اور غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔ تازہ ترین مثال جنگِ عظیم اول اور دوم کے درمیان والا دور ہے جب انیسویں صدی کی برطانوی بالادستی کے زوال کے بعد امریکہ نے اس مینٹل یعنی ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔

1919ء کے بعد صرف دو دہائیوں میں دنیا معاشی اور سیاسی انتشار میں ڈوب گئی۔ اسٹاک مارکیٹ کے دھڑام سے گرنے اور عالمی بینکاری کے پے در پے ناکام ہونے سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا جس نے فاشزم کے عروج کی راہ ہموار کی۔ عالمی تجارت تیزی سے سکڑ گئی کیونکہ ممالک نے تجارتی رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور اپنی برآمدات بڑھانے کی ناکام اْمید میں نقصان دہ کرنسی جنگوں میں الجھ گئے۔ اس کے برعکس عالمی اقتصادی ترقی اچانک رک گئی۔

ایک صدی بعد ہماری ڈی گلوبلائز ہوتی دنیا ایک بار پھر کمزور اور نازک ہو چکی ۔ لیکن یہ سمجھنے کے لیے کہ آیا ہم بھی اسی طرح کے انتشار اور عدم استحکام والے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں، پہلے ہمیں گلوبلائزیشن کے غیر معمولی عالمی عمل کی پیدائش، ترقی اور اس کے قریب آتے خاتمے کی وجوہ کو سمجھنا ہوگا۔

تجارتی نظام کا جنم

1600 ء کی دہائی کے وسط تک فرانس یورپ کی سب سے طاقتور قوت بن چکا تھا اور یہی فرانس تھا جس نے سب سے پہلے یہ جامع نظریہ پیش کیا کہ عالمی معیشت کو کس طرح اپنے مفاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تقریباً چار صدیاں بعد اسی تجارتی نظام کے کئی پہلو ٹرمپ کے امریکی معاشی منصوبے میں دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں، جسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے:اپنے حریفوں کو کمزور کر کے عالمی معیشت پر حکمرانی کیسے حاصل کریں۔فرانس کے تجارتی نظام نسخے کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ ایک ملک کو چاہیے، وہ تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرے تاکہ دوسرے ممالک اس کو زیادہ چیزیں نہ بیچ سکیں جبکہ اپنی مقامی صنعتوں کو فروغ دے تاکہ ملک میں آنے والا سرمایہ (بطور سونا) جانے والے سرمائے سے زیادہ ہو۔

انگلینڈ اور ہالینڈ نے پہلے ہی کئی تجارتی پالیسیاں اپنا لی تھیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں نوآبادیات قائم کیں جو طاقتور اجارہ دار تجارتی کمپنیوں کے ذریعے چلائی جاتی تھیں اور جن کا مقصد ہسپانوی سلطنت کو چیلنج کرنا اور اسے کمزور بنانا تھا…وہ سلطنت جو جنوبی امریکا سے لوٹے گئے سونے اور چاندی پر پھل پھول رہی تھی۔ان "سمندری سلطنتوں" کے برعکس مشرق میں چین اور ہندوستان جیسی بڑی سلطنتوں کے پاس اپنے اندرونی وسائل موجود تھے جن سے وہ اپنی آمدنی پیدا کرتی تھیں یعنی وہ بین الاقوامی تجارت اگرچہ بڑے پیمانے پر کرتی تھیں لیکن یہ ان کی خوشحالی کے لیے ناگزیر نہیں تھی۔

یہ فرانس تھا جس نے سب سے پہلے تجارتی نظام کو پورے حکومتی ڈھانچے پر باقاعدہ اور منصوبہ بند انداز میں نافذ کیا۔یہ کام طاقتور وزیرِ خزانہ، ژاں بپٹسٹ کولبیر نے کیا جسے بادشاہ لوئی چہار دہم نے فرانسیسی ریاست کی مالی طاقت بڑھانے کے لیے بے مثال اختیار دیے تھے۔کولبیر کا یقین تھا کہ تجارت ریاست کے خزانے کو بھرے اور فرانس کی معیشت کو مضبوط کرے گی جبکہ اس کے حریف کمزور ہو جائیں گے۔ وہ کہتا تھا:’’ریاست کی عظمت اور طاقت کا دارومدار محض اور صرف اس کے اندر موجود پیسے کی کمی یا فراوانی پر ہے۔‘‘

کولبیر کے نزدیک تجارت ایک ’’صفر جمع‘‘ کھیل تھی یعنی جتنا زیادہ فرانس دوسرے ممالک کے مقابلے میں تجارتی منافع حاصل کرے گا، اتنا زیادہ سونا سرکاری خزانے میں جمع ہو سکے گا۔اور اس کے مقابلے میں حریف ممالک کمزور ہو جائیں گے کیونکہ ان کے پاس سونا کم ہو جائے گا۔ کولبیر کے دور میں فرانس نے پروٹیکشنزم (تحفظاتی تجارت) کو رائج کیا اور درآمدی محصولات تین گنا بڑھا دیے تاکہ غیر ملکی اشیا اتنی مہنگی ہو جائیں کہ خریدنا ممکن نہ رہیں۔

اسی کے ساتھ اس نے فرانس کی مقامی صنعتوں کو مضبوط کیا:سبسڈیاں دیں اور انہیں اجارہ داریاں (monopolies) عطا کیں۔ نوآبادیات اور سرکاری تجارتی کمپنیاں قائم کی گئیں تاکہ فرانس مصالحہ جات، چینی اور غلاموںکی انتہائی منافع بخش تجارت سے فائدہ اٹھا سکے۔کولبیر کی نگرانی میں فرانس نے لیس اور شیشہ سازی جیسی صنعتوں میں ترقی کی؛ اٹلی سے ماہر کاریگر منگوائے گئے اور نئی کمپنیوں کو سرکاری اجارہ داریاں دی گئیں۔ اس نے بنیادی ڈھانچے میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی، جیسے کہ نہروں کی تعمیر۔ فرانس کے بحری بیڑے اور تجارتی جہاز رانی کو بہت زیادہ وسعت دی تاکہ برطانیہ اور ہالینڈ جیسے سمندری حریفوں کو للکارا جا سکے۔

اس دور میں عالمی تجارت انتہائی استحصالی نوعیت کی تھی۔ نئی دریافت شدہ زمینوں سے زبردستی سونا اور دوسرے خام مال لوٹا جاتا تھا (جیسا کہ ہسپانوی سلطنت پندرھویں صدی کے آخر سے نئی دنیا میں کر رہی تھی)۔ اسی طرح انسانوں کی تجارت سے بھی بڑے منافع کمائے جاتے تھے۔غلاموں کو پکڑ کر کیریبین اور دیگر نوآبادیات میں بھیجا جاتاجہاں وہ گنا اور دیگر فصلیں پیدا کرنے پر مجبور کیے جاتے ۔اسی دور میں تجارتی جنگیں اکثر حقیقی جنگوں میں بدل جاتیں جو دنیا بھر میں تجارتی راستوں اور نوآبادیات پر قبضے کے لیے لڑی جاتیں۔ کولبیر کی اصلاحات کے بعد فرانس نے اپنے سمندری حریفوں کی بیرونِ ملک سلطنتوں کو چیلنج کرنے کے لیے طویل جدوجہد شروع کر دی۔ ساتھ ہی براعظم یورپ میں فتوحات کی جنگوں میں حصہ لیا۔

سترھویں صدی میں فرانس نے ابتدا میں ہالینڈ کے خلاف خشکی اور سمندر دونوں پر کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن آخرکار اس کی سرکاری فرانسیسی انڈیز کمپنی ڈچ اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنیوں کی بے رحمانہ اور منافع پر مبنی سرگرمیوں کا مقابلہ نہ کرسکی جنہوں نے اپنے سرمایہ کاروں کو بھاری منافع اور اپنی حکومتوں کو بھاری آمدنی فراہم کی۔درحقیقت مشرقِ بعید کی مسالہ تجارت سے ہالینڈ کو ہونے والے بے پناہ منافع کی وجہ سے ہی اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی چھوٹی سی شمالی امریکی کالونی، نیو ایمسٹرڈیم برطانویوں کے حوالے کر دی، اس کے بدلے کہ برطانویوں کو ان کے ایک مسالہ جزیرے کے چھوٹے سے حصے سے نکال دیا جائے جو آج کے انڈونیشیا میں واقع ہے۔ 1664ء میں اس ڈچ آؤٹ پوسٹ کا نام بدل کر’’ نیویارک ‘‘رکھ دیا گیا۔

ایک صدی تک تنازعات کے بعد برطانیہ بتدریج فرانس پر فوقیت حاصل کرنے لگا، ہندوستان کو فتح کیا اور سات سالہ جنگ کے بعد 1763 ء میں اپنے عظیم حریف کو کینیڈا چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ فرانس کبھی برطانیہ کی بحری طاقت کا مکمل مقابلہ نہ کرسکا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ہوریٹو نیلسن کی قیادت میں برطانوی بیڑوں کے ہاتھوں ہونے والی عبرتناک شکستیں اور پھر یورپی طاقتوں کے اتحاد کے ہاتھوں واٹرلو میں نپولین کی شکست یورپ کی غالب طاقت کے طور پر فرانس کے دور کے خاتمے کا نشان تھیں۔

 عالمی معیشت پر غلبہ پانے کی اپنی کوشش میں فرانسیسی ماڈل آخرکار ناکام ہو گیا مگر اس نے دوسرے ممالک … اور اب صدر ٹرمپ کو اس کے اصول اپنانے سے نہیں روکا۔فرانس نے دیکھا کہ صرف محصولات (ٹیرف) نہ تو اس کی جنگوں کو کافی مالی مدد فراہم کرسکے اور نہ ہی اس کی صنعتوں کو فروغ دے سکے۔ اس کے وسیع طرزِ مرکنٹیل ازم یا تجارتی نظام نے ایسی نہ ختم ہونے والی جنگوں کو جنم دیا جو پوری دنیا میں پھیل گئیں، کیونکہ ممالک نے معاشی اور عسکری، دونوں طرح سے جوابی کارروائیاں کیں اور علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں۔

دو صدیوں سے زیادہ عرصے بعد یہ ایک ناخوشگوار مماثلت نظر آتی ہے کہ ٹرمپ کی نہ ختم ہونے والی محصولات کی جنگوں کے جاری تنازعات اور حریف تجارتی گروہوں کی تنظیم، دونوں کے لحاظ سے کیا نتائج ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ٹرمپ کی تجویز کردہ مزید سرپرستی (پروٹیکشنزم) بھی ریاست ہائے متحدہ کی گھریلو صنعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔

برطانوی ماڈل: آزاد تجارت اور سلطنت

آزاد تجارت کے نظریے کو سب سے پہلے برطانوی ماہرینِ معاشیات ،ایڈم اسمتھ اور ڈیوڈ ریکارڈو نے واضح طور پر پیش کیا جو کلاسیکی اقتصادیات کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ تجارت کوئی صفر جمع کھیل نہیں ، جیسا کہ کولبیر نے دعویٰ کیا تھا بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے تمام ممالک باہمی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسمتھ کی کلاسیکی تصنیف ’’دی ویلتھ آف نیشنز‘‘(1776ء ) کے مطابق:’’ اگر کوئی غیر ملکی ملک ہمیں کوئی چیز اس قیمت سے کم میں فراہم کر سکتا ہے جس پر ہم خود اسے تیار کرتے ہیں، تو بہتر ہے کہ ہم اسے اس سے خرید لیں اور اپنی صنعت کی پیداوار کا کچھ حصہ اس طرح استعمال کریں کہ ہمیں اس میں کچھ فوائد حاصل ہوں۔‘‘

دنیا کی پہلی صنعتی قوم ہونے کے ناتے 1840 ء کی دہائی تک برطانیہ نے بھاپ کی طاقت، کارخانہ جاتی نظام اور ریلوے جیسی نئی ٹیکنالوجیوں پر مبنی ایک معاشی طاقت تعمیر کر لی تھی۔اسمتھ اور ریکارڈو نے تجارت کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاستی اجارہ داریوں کے قیام کی مخالفت کی اور صنعت میں ریاستی مداخلت کم سے کم رکھنے کی تجویز دی۔ تب سے لے کر آج تک آزاد تجارت کے فوائد پر برطانیہ کا یقین کسی بھی دوسری بڑی صنعتی طاقت سے زیادہ مضبوط اور دیرپا رہا ہے … اتنا کہ یہ اس کی سیاست اور عوامی تصّور میں گہری جڑوں تک پیوست ہو چکا ۔

یہ فولادی عزم 1840 ء کی دہائی میں برطانوی صنعت کاروں اور زمینداروں کے درمیان ہونے والی ایک تلخ سیاسی جدوجہد سے ابھرا جو تحفظاتی ’’کارن لاز‘‘ پر مبنی تھی۔ زمیندار جو روایتی طور پر برطانوی سیاست پر غالب تھے، بلند محصولات کے حامی تھے جو انہیں فائدہ دیتے تھے لیکن روٹی جیسے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھا دیتے ۔ 1846 ء میں کارن لاز کی منسوخی نے برطانوی سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور طاقت کا توازن صنعت کار طبقے کی طرف منتقل ہو گیا اور بالآخر ان کے محنت کش اتحادیوں کی طرف جب انہیں حقِ رائے دہی ملا۔

وقت کے ساتھ برطانیہ کی آزاد تجارت کی وکالت نے اس کی صنعتی طاقت کو عالمی منڈیوں پر حاوی ہونے کے لیے آزاد کر دیا۔ آزاد تجارت کو غریبوں کے معیارِ زندگی بلند کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا (بالکل اس کے برعکس جو صدر ٹرمپ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مزدوروں کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے) اور اسے محنت کش طبقے کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ جب کنزرویٹوز نے 1906 کے عام انتخابات میں آزاد تجارت ترک کرنے کا خیال پیش کیا، تو انہیں تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا …اور یہ 2024 ء تک پارٹی کی بدترین شکست تھی ۔

تجارت کے علاوہ برطانیہ کی بطور عالمی طاقت کے ظہور میں ایک مرکزی عنصر لندن کا دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی مرکز کے طور پر عروج تھا۔ اس کی کلید برطانیہ کا سونے کے معیار (Standard Gold ) کو اپنانا تھا، جس نے اس کی کرنسی، پاؤنڈ کو نئی عالمی اقتصادی ترتیب کے مرکز میں رکھ دیا۔ اس کی قیمت کو سونے کی مقررہ مقدار سے منسلک کر کے اس کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے بچا لیا۔ اس طرح پاؤنڈ دنیا بھر میں لین دین کا ذریعہ بن گیا۔

اس امر نے ایک مضبوط بینکنگ سیکٹر کی ترقی کو فروغ دیا جس کی بنیاد بینک آف انگلینڈ کی حیثیت مالی بحران میں ایک قابل اعتماد اور معتبر "آخری سہولت دینے والے" (lender of last resort) کے طور پر تھی۔ اس کا نتیجہ بین الاقوامی سرمایہ کاری میں زبردست ترقی کی صورت میں نکلا، جس سے برطانوی کمپنیوں اور انفرادی سرمایہ کاروں کے لیے بیرونی مارکیٹوں تک رسائی ممکن ہوئی۔انیسویں صدی کے آخر تک لندن شہر عالمی مالیات پر حاوی ہو گیا جو ارجنٹائن کی ریلویز، ملائیشیا کی ربر پلانٹیشنز سے لے کر جنوبی افریقہ کے سونے کی کانوں میں سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ سونے کے معیار نے برطانیہ کو دنیا کی معیشت پر غلبے کی طاقت کا نشان بنا دیا۔

انیسویں صدی کے آخر تک برطانوی سلطنت نے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اپنے تحت شامل کر لیا تھا جس سے سستی مزدوری، محفوظ خام مال اور برطانیہ کی تیار شدہ مصنوعات کے لیے بڑی مارکیٹ میسّر آئی۔ لیکن یہ برطانیہ کے لالچی رہنماؤں کے لیے کافی نہیں تھا۔ برطانیہ نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ مقامی صنعتیں اس کے مفادات کو خطرے میں نہ ڈالیں ،مثال کے طور پر بھارتی ٹیکسٹائل صنعت کو نقصان پہنچا اور بھارتی کرنسی میں مداخلت کر کے۔حقیقت میں اس دور میں گلوبلائزیشن کا مطلب تھا: دنیا کی معیشت پر چند امیر یورپی طاقتوں کا قبضہ۔ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بہت سی عالمی اقتصادی ترقی کو محدود کیا گیا۔مثلاً 1750 ء سے 1900 ء کے دوران برطانوی حکمرانی کے تحت ہندوستان کی عالمی صنعتی پیداوار میں حصہ 25% سے کم ہو کر 2% رہ گیا۔

امریکی ماڈل: پروٹیکشنزم سے نیولیبرل ازم تک

جب برطانیہ اپنی صدی بھر کی عالمی بالادستی کا لطف اٹھا رہا تھا، تو ریاستہائے متحدہ نے 1776ء میں قیام کے بعد دیگر بڑی مغربی معیشتوں کے مقابلے میں طویل عرصے تک پروٹیکشنزم کو اپنایا۔ابھرتی امریکی صنعتوں کو تحفظ دینے اور سبسڈی فراہم کرنے کے لیے محصولات (Tariffs) کا تعارف سب سے پہلے 1791 ء میں نئے ملک کے پہلے خزانہ سیکریٹری، الیگزینڈر ہیملٹن نے پیش کیا ۔امریکہ کی آزاد تجارت کے لیے دیرپا مزاحمت کی وجہ یہ تھی کہ اسے داخلی سطح پر لامحدود لگنے والے خام مال تک رسائی حاصل تھی، جبکہ اس کی تیزی سے بڑھتی آبادی اندرونی مارکیٹیں پیدا کر رہی تھی جنھوں نے اس کی ترقی کو فروغ دیا۔

دو جنگ عظیموں میںیورپ و ایشیا میں عالمی تباہی کے بعد سیاسی، فوجی، ثقافتی اور مالیاتی لحاظ سے امریکی بالادستی وجود میں آئی لیکن امریکہ کا گلوبلائزیشن ورژن اپنے برطانوی پیشرو سے کچھ اہم اختلافات رکھتا تھا۔امریکہ نے زیادہ عالمگیر اور قواعد پر مبنی نقطہ نظر اپنایا، جس میں عالمی تنظیموں کے قیام پر توجہ دی گئی تاکہ پابند قوانین قائم ہوں ۔ اور امریکی تجارت و سرمایہ کاری کے لیے عالمی مارکیٹیں آزادانہ طور پر کھل جائیں۔ اس کا مقصد عالمی اقتصادی نظام پر غلبہ حاصل کرنا بھی تھا تاکہ پاؤنڈ اسٹیرلنگ کی جگہ امریکی ڈالر کو دنیا کی لین دین کی کرنسی کے طور پر قائم کیا جا سکے۔ امریکہ نے رسمی سلطنت رکھنے کے بجائے عالمی معیشت تک رسائی کھولنا چاہی تاکہ امریکی مصنوعات اور خدمات کے لیے عالمی مارکیٹیں مہیا ہوں۔

خواب سے مایوسی تک

اگرچہ امریکی خواب (Dream American ) کی داستان بڑھتی رہی لیکن 1970ء کی دہائی تک امریکی معیشت بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر رہی تھی ، خاص طور پر جرمن اور جاپانی حریفوں سے، جو جنگ سے بحالی پا کر اپنی صنعتوں کو جدید بنا چکے تھے۔ان خطرات اور بڑھتے تجارتی خسارے سے پریشان 1971 ء میں صدر رچرڈ نکسن نے دنیا کو حیران کرتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ سونے کے معیار سے باہر جا رہا ہے ۔ اس سے دیگر ممالک پر امریکی ادائیگیوں کے توازن کے بحران کی ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ ڈال دیا گیا اور انہیں اپنی کرنسییوں کی قدر دوبارہ طے کرنے پر مجبور کیا گیا۔اس کا عالمی مالیاتی نظام پر گہرا اثر پڑا: ایک دہائی کے اندر بیشتر بڑی کرنسیاں مقررہ تبادلہ نرخ چھوڑ کر نئے فلوٹنگ ریٹس کے نظام میں چلی گئیں جس سے 1944 ء کے بریٹن ووڈز معاہدے کا خاتمہ ہو گیا۔

اسی دوران امریکی مینوفیکچرنگ صنعتوں کا زوال تیز ہوا۔ اور مینوفیکچرنگ والے اندرونی علاقوں کے لوگوں اور بڑے میٹروپولیٹن شہروں کے رہائشیوں کی آمدنی کے درمیان فرق بڑھا۔امریکی مینوفیکچرنگ کے زوال میں تیزی اس وقت آئی جب چین کو 2001 ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں شامل کیا گیا جس سے امریکہ کے بڑھتے ہوئے تجارتی اور بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوا۔ سیاسی اور کاروباری اشرافیہ کو امید تھی کہ اس اقدام سے امریکہ کی مصنوعات اور سرمایہ کاری کے لیے چین کی بڑی مارکیٹ کھلے گی۔لیکن چین کی تیز رفتار جدید کاری نے اس کی صنعت کو بہت سے شعبوں میں امریکی حریفوں کے مقابلے میں زیادہ مسابقتی بنا دیا۔

جن لوگوں نے غور کیا، ان کے لیے امریکی عالمی غلبے کے خاتمے کا انتباہ دہائیوں پہلے ہی واضح تھا۔ لیکن 2016 ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی فتح نے جو امریکی "لبرل اسٹیبلشمنٹ" کے لیے ایک گہرا جھٹکا تھی، یہ واضح کر دیا کہ امریکہ اب ایک بالکل مختلف راستے پر ہے جو دنیا کو ہلا دے گا۔ تاہم ٹرمپ کی اہم پالیسیاں آخرکار بہت کچھ نہیں کریں گی۔ امریکی نوکریوں کے تحفظ کے لیے اعلی محصولات، لاکھوں غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری، اقلیتوں کے لیے تحفظات ختم کرنا اور حکومت کے حجم میں سخت کمی… ان سب کے مستقبل میں اقتصادی منفی اثرات ہوں گے اور امریکی معیشت کو اس کی سابقہ غالب پوزیشن پر واپس لانا بہت کم ممکن ہے۔

ٹرمپ کے محصولات اور ٹیکس منصوبے بہت امیر لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دیتے جبکہ غریب کے لیے فوائد کم کرتے ہیں۔لہذا وہ امریکہ میں عدم مساوات کو بڑھائیں گے۔ان پالیسیوں کے جاری رہنے سے امریکہ کے ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، جس کے اثرات پورے عالمی مالیاتی نظام کے لیے تباہ کن ہوں گے۔اس نئی دنیا میں گلوبلائزیشن مر نہیں گئی، لیکن یہ مرتی جا رہی ہے۔ اب ہمارا سب سے مشکل سوال یہ ہے: آگے کیا ہوگا؟

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی اقتصادی کے مقابلے میں دنیا کی معیشت بین الاقوامی سرمایہ کاری تجارتی نظام انیسویں صدی عالمی معیشت کرنے کے لیے نوا بادیات برطانیہ کی سب سے پہلے ء کی دہائی صنعتوں کو ہونے والی پیمانے پر کے طور پر کے معیار تجارت کے اور طاقت دنیا بھر صدی کے ا سے لے کر کے لیے ا نے اس کی رہی تھی طاقت کا کو فروغ کاری کے ٹرمپ کی پیش کیا کی صنعت سکتا ہے تیزی سے ٹرمپ کے کے ساتھ نے دنیا لیکن یہ اور اس کے دور کر دیا کی طرف نے اور ہو گیا رہا ہے تھی کہ اور ان کے بعد

پڑھیں:

معرکہ حق میں پاکستان کی فتح کا عالمی سطح پر اعتراف، بھارت میں صف ماتم

معرکہ حق میں پاکستان کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا  ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی کانگریس کی رپورٹ میں آپریشن سندور کی ناکامی کے اعتراف پر بھارتی رہنماؤں نے مودی کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ امریکی کانگریس کی رپورٹ پر بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما جے رام رمیش مودی پر برس پڑے۔

 بھارتی رہنما جے رام رمیش کا کہنا تھا کہ امریکی کانگرس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلگام میں کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔

جے رام رمیش نے کہا کہ بھارتی شکست پر مودی کو اپنی مجرمانہ خاموشی توڑنی چاہیے۔ عالمی سطح پر پہلگام حملے کو انتہا پسند حملہ کہنا ہمارے بیانیہ پر بڑا دھچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس کی رپورٹ ہمارے سفارتی وفد کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔ یہ رپورٹ جنگی میدان میں پاکستان کی بھارت پر فتح کی بات کرتی ہے۔ امریکی کانگرس کی رپورٹ نے بھارت کے سارے جھوٹ اور منافقانہ موقف اڑا کے رکھ دیے ہیں۔

معرکہ حق میں پاکستان کے ہاتھوں  بھارت کی پسپائی کا اعتراف دنیا پہلے ہی کر چکی ہے۔ پاکستان نے 7 بھارتی طیارے زمین بوس اور متعدد اہداف کو نشانہ بنا کر اپنی عسکری فتح کو منوایا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو ڈیجیٹل دنیا سے مزید جوڑنے کی جانب پیشرفت، عالمی سطح کی سب میرین کیبل کراچی پہنچ گئی
  • کراچی، عالمی ڈیجیٹل دنیا تک رسائی میں بڑا قدم، جدید سیب میرین کیبل ہاکس بے پہنچ گئی
  • سوڈان میں جنگ بندی کے لیے عالمی منصوبہ تیار ہے‘ امریکا
  • ماحولیاتی بحران اور اس کے عالمی مضمرات
  • اجتماع عام بدل دو نظام،  آصف لقمان قاضی کا عالمی اسلامی تحریکوں کے کردار پر خطاب
  • گلوبلائزیشن کے دور میں تعلیمی پروگراموں کو عالمی تقاضوں کے مطابق وسعت دینا ناگزیر: وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف
  • معرکہ حق میں پاکستان کی فتح کا عالمی سطح پر اعتراف، بھارت میں صف ماتم
  • جی 20 سربراہان اجلاس: امریکی بائیکاٹ کے باوجود متفقہ اعلامیے کا مسودہ تیار
  • اقوام متحدہ نے امریکا کو دنیا کا سب سے بڑا امداد دینے والا ملک قرار دیدیا