کراچی، عالمی ڈیجیٹل دنیا تک رسائی میں بڑا قدم، جدید سیب میرین کیبل ہاکس بے پہنچ گئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
کراچی:
پاکستان کی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو مضبوط بنانے کی سمت ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا ہے۔
جدید ترین عالمی سب میرین کیبل سی می وی 6 (SE-ME-WE 6) کراچی کے ساحل ہاکس بے پر کامیابی سے پہنچا دی گئی ہے، جس کے ساتھ ہی پاکستان کا دنیا سے ہائی اسپیڈ ڈیٹا رابطہ مزید مستحکم ہونے جا رہا ہے۔
ہاکس بے پر سب میرین کیبل کی لینڈنگ کے موقع پر خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں وفاقی سیکرٹری آئی ٹی زرار احمد خان نے بھی شرکت کی۔
تقریب میں تکنیکی ماہرین اور متعلقہ اداروں کے نمائندے بھی موجود تھے۔
وزارتِ آئی ٹی کے ترجمان کے مطابق یہ کیبل 21 ہزار 700 کلومیٹر پر محیط ہے جو سنگاپور سے اپنا سفر شروع کرتی ہے اور فرانس تک جاتی ہے، جب کہ اس عالمی نیٹ ورک میں کراچی ایک اہم اسٹریٹجک پوائنٹ کے طور پر شامل ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سی می وی 6 کی آمد سے پاکستان نہ صرف دنیا کے متعدد ممالک کے ساتھ تیز رفتار اور زیادہ محفوظ ڈیٹا کنیکٹیویٹی حاصل کرے گا بلکہ انٹرنیٹ کے معیار، رفتار اور بین الاقوامی ڈیٹا روٹس کی استعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ماحولیاتی بحران اور اس کے عالمی مضمرات
دنیا کے شمالی نصف کُرے میں وہ خطے، جنھیں کبھی صنعتی ترقی، ٹیکنالوجیکل برتری اور حکمرانی کے عالمی ماڈل کی حیثیت حاصل تھی، آج موسمیاتی تبدیلی کے ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس سے ان کے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہل کر رہ گئے ہیں۔
امریکا سے لے کر یورپ، اور برطانیہ سے آرکٹک تک، موسمیاتی تبدیلی اب کسی مستقبل کا خطرہ نہیں رہی، یہ ایک روزانہ کی حقیقت ہے، جو انسانی زندگی، قومی سلامتی، معیشت اور عالمی توازن تک کو تبدیل کر رہی ہے۔
اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب احتساب کا وقت آیا ہے توکیا مغربی دنیا خود اس بحران سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اگر نہیں، تو اس کے جھٹکے پاکستان اور گلوبل ساؤتھ کو کس طرح متاثر کریں گے؟
امریکا میں 2024/25کے تین برس مسلسل ایسے رہے کہ کئی ریاستیں 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت کو ریکارڈ کرتی رہیں۔ ’’ ہیٹ ڈوم ‘‘ ناقابلِ برداشت گرمی کو کئی دنوں تک علاقے پر جما دیتا ہے اور نہ بجلی کا نظام اسے برداشت کر پاتا ہے، نہ ہی انسانی جسم۔
یہ تین حقائق امریکا کے بحران کو واضح کرتے ہیں کہ شدید گرمی سے اموات جنگلاتی آگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس سے کم آمدنی والے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ایئرکنڈیشننگ کی سہولت نہ رکھنے والے لوگ ان ’’ خاموش ہلاکتوں‘‘ کا بڑا حصہ بنتے ہیں۔
کیلیفورنیا، اوریگن اور نیواڈا میں جنگلاتی آگ اب سیزن کے تابع نہیں رہی، وہ سال کے کسی بھی مہینے پھوٹ پڑسکتی ہے۔ تازہ ترین تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی سرگرمی نے مغربی امریکا میں’’ میگا فائرز‘‘ کا خطرہ تین گنا بڑھا دیا ہے۔
خشک سالی، شدید گرمی، تیز ہوائیں مل کر ایک ایسا ماحولیاتی ’’پرفیکٹ اسٹورم ‘‘ تشکیل دے رہی ہیںجو قابو سے باہر ہے۔
یہ ماحولیات کا مسئلہ کم اور ماحولیاتی انصاف (Climate Justice) کا مسئلہ زیادہ بنتا جا رہا ہے،کیونکہ بدترین گرمی غریب اور پسماندہ آبادیوں کو نشانہ بناتی ہے جب کہ امریکی انفرا اسٹرکچرگرم مستقبل کے لیے بنایا ہی نہیں گیا۔
دوسری جانب بیمہ کمپنیاں آگ اور طوفان زدہ علاقوں سے باہر نکل رہی ہیں، جس سے گھر بیچنا تک مشکل ہوجاتا ہے۔
یورپ کے اہم دریا رائن، ڈینیوب، پو جن پر زراعت، تجارت اور توانائی کا پورا نظام کھڑا ہے جو مسلسل کم بہاؤ کا شکار ہیں۔ جس کے نتیجے میں زراعت میں 30/40 فیصد تک کمی، شپنگ لائنز کے راستے متاثر، خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اور صنعتی پیداوار سست ہونے کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
الپس میں برف تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ سائنسی ماڈل کہتے ہیں کہ2050 تک یورپی گلیشیئرزکا نصف حصہ ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے سیاحت، پانی اور توانائی تینوں بڑے شعبے خطرے میں پڑجائیں گے۔
پچھلے دو سال میں یورپ نے سیکھا کہ گرین ٹرانزیشن چاہے جتنی ضروری ہو، مگرگیس کی عدم دستیابی، سردیوں میں ایندھن کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں پورے براعظم کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیتی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی نے یورپ کے لیے ایک نئی حقیقت لکھ دی ہے کہ اب بحران صرف موسم کا نہیں، توانائی کے وجود کا بھی ہے۔
برطانیہ نے 2024 کی قومی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ اس وقت 6.3 ملین گھر سیلاب کے خطرے میں ہیں۔2050 تک یہ تعداد بڑھ کر 8 ملین ہو سکتی ہے، یعنی ہر چوتھا گھر۔ یہ بحران صرف موسمی نہیں معاشی، سماجی اور جغرافیائی ہے۔
انگلینڈ کی مشرقی ساحلی پٹی دنیا کی تیزی سے کٹتی ہوئی لائنوں میں شامل ہے۔ اندازے کے مطابق 2055 تک 3,500 گھر براہ راست سمندری کٹاؤ میں ضایع ہونے کے خطرات سے دوچار ہوں گے، جس کی وجہ سے کئی ساحلی قصبے نقشے سے مٹ سکتے ہیں۔
دوسری جانب ثقافتی ورثہ بھی خطرے میں ہے۔ ایڈنبرا کیسل سے لے کر تاریخی لائٹ ہاؤسز تک، برطانوی شناخت کے نشانات پانی اورکٹاؤ کے سامنے کمزور پڑ رہے ہیں۔
مغرب نے ماحولیاتی قیادت کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حقیقت چند کمزوریوں سے پردہ اٹھا رہی ہے کیوں کہ کاربن نیوٹرل کا نعرہ لگایا جا رہا ہے، مگر تیل و گیس پر سبسڈیز بھی برقرار ہیں۔ یہ تضاد بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ کلائمیٹ فنانس میں وعدے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں۔
گلوبل ساؤتھ کو ہر سال 100 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر رقم مکمل نہیں پہنچی، پاکستان جیسے ممالک اس کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ماحولیاتی انصاف کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
امریکا میں سیاہ فام، ہسپانوی اور غریب کمیونٹیز سیلاب اورگرمی کا سب سے بڑا نقصان اٹھا رہی ہیں۔ مغربی دنیا کا انفرا اسٹرکچر پرانی دنیا کا ہے جب موسمیاتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ مغربی فنِ تعمیر اور سڑکیں اس موسمی شدت کے لیے بنائی ہی نہیں گئیں جو اب روز کا معمول بنتی جا رہی ہے۔
یورپ کی خشک سالی اور امریکا کی گرمی عالمی زرعی قیمتیں بڑھا رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے، اگر مغرب اپنے داخلی بحران میں پھنس جاتا ہے تو پاکستان کو گرین فنڈنگ، ٹیکنالوجی اور موسمیاتی مدد مزید کم ہو سکتی ہے۔
سمندری سطح میں ہونے والے اضافے کے نتیجے میں کراچی، ٹھٹھہ اورگوادر خطرے میں ہیں۔ برطانیہ کے ساحلی ماڈل اور سیلابی نقشے پاکستانی ساحلی علاقوں کے لیے بھی انتباہ بن رہے ہیں۔ عالمی سیاست میں’’ کلائمیٹ سیکیورٹی ‘‘ کا نیا تصور ابھرکر سامنے آرہا ہے۔
اب موسمیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے، پانی، خوراک، توانائی، سرحدی ہجرت سب اس سے جڑتے جا رہے ہیں۔
مغرب اس وقت ایسے موسمیاتی طوفان میں ہے جسے اس نے خود جنم دیا، مگر اب وہی طوفان اس کی سیاسی معیشت کو کمزورکررہا ہے، مگر اصل سوال یہ نہیں کہ مغرب کیا کرے گا؟
اصل سوال یہ ہے کہ اس کی قیمت کون چکائے گا؟ گلوبل ساؤتھ اور پاکستان پہلے ہی اس بحران کے اثرات کا بوجھ اٹھا رہے ہیں جب کہ ہماری کاربن شراکت دنیا کی مجموعی آلودگی کا 1 فیصد سے بھی کم ہے۔
پاکستان کے لیے یہ وقت دو اقدامات اٹھانے کا ہے۔ گرین ڈپلومیسی میں تیزی لانا اورکلائمیٹ ایمرجنسی کو قومی سلامتی کے طور پر دیکھنا کیونکہ موسمیاتی بحران اب عالمی شمال اور جنوب، امیر اور غریب، طاقتور اورکمزور ، سب کے درمیان ایک نئی سیاسی لکیرکھینچ رہا ہے۔