Jasarat News:
2025-12-08@02:46:00 GMT

نوٹی فی کیشن

اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی… اس ’’نیم تاتاری شہر‘‘ کی ایک غربت زدہ گلی میں صدیق کی جھونپڑی تھی۔ بج بجاتی کیچڑ، تعفن اور گندگی سے بچتا بچاتا، پتھروں اور اینٹوں پر چلتا وہ اپنی جھگی میں داخل ہوا تو کھانا پکانے کے چبوترے پر اس کی بیوی پیڑھی پر بیٹھی چولھے میں پھونکیں اور اپنی کھانسی کے جراثیم انڈیل رہی تھی۔ بے جان، بیمار اور مختصر سی۔ اس کے منہ پر میل اور دھویں کی کالک لپی ہوئی تھی۔ اس نے بے چارگی سے بیوی کی طرف دیکھا۔ جس کے لیے وہ کچھ نہیںکرسکتا تھا۔

صدیق کی آنکھیں بے آس اور مایوس ہوکر اندر کو بیٹھ گئی تھیں۔ اپنے بوجھ کو کھینچتا وہ کونے میں پڑی جھلنگی چار پائی پر سوئی تین سالہ بیٹی کے برابرمیں ڈھ گیا۔ چار پائی کی پٹّی سے لٹکے جھولے نماکپڑے میں نوزائیدہ بیٹا لیٹا ہوا تھا جس پر مکھیاں بھن بھن کررہی تھیں۔ اس کے بیٹھنے سے چار پائی چرچرائی تو مکھیاں بچے کے اوپر سے اٹھ کر اڑنے لگیں۔ دونوں بڑے بیٹے قریبی مدرسے میں قاعدہ پڑھنے گئے ہوئے تھے جہاں مولبی صاب قاعدے اور ایمان کے ساتھ انہیں اللہ کی مصلحتیں بھی پڑھاتے تھے۔ صدیق کم ہی بولتا تھا مگر آج اس کا بیوی سے باتیں کرنے کو جی چاہ رہا تھا۔ خبر ہی کچھ ایسی تھی۔

بیوی، چار بچوں اور اپنے آپ پر مشتمل، وجود کے ٹکڑوں کو، زندہ رکھنے کے لیے صدیق ایک زیر تعمیر رہائشی پلازہ میں چو کیدار تھا۔ اس نوکری سے اتنا ملتا تھا کہ وہ اور اس کے بیوی بچے بھوکوں مرنے سے بچ جاتے تھے تاہم زندگی کی دیگر ضرورتوں، بیماریوں، زچگیوں اور بڑھتے ٹبرّ کے لیے اس کی تنخواہ خوفناک حد تک ناکافی تھی۔ ’’اس شہر میں ترس اور رحم کافی زیادہ ہے لیکن اس ترس اور رحم کو بے کار لوگوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مضبوط اور تندرست لوگوں کے لیے خیرات خانے بہت ہیں لیکن ملازمت دینا، مناسب تنخواہ دینا اور برسر ملازمت لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا کسی کے دماغ میں صاف اور واضح نہیں۔ مالدار لوگ پروردگار کا قلعہ فتح کرنے کے لیے خیرات اور صدقوں کے انبار لگادیتے ہیں لیکن ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا وہ بمشکل گوارا کرتے تھے۔ سب اپنے ملازمین کو کام چور نکمے اور کاہل سمجھتے اور ان سے نفرت اور بے پروائی کا سلوک کرتے تھے۔

گر ہستی نامی اس قید خانے میں واحد دلچسپی ’’محبت‘‘ تھی۔ لت اور ہوکے کی طرح۔ جس نے چار نئی زندگیوں کو جنم دیا تھا۔ ناکافی اور غیر متوازن غذا کا شکار لاغر، کمزور اور کالے کلوٹے بچے۔ یکے بعد دیگرے بیمار پڑتے اور مناسب علاج سے دور، جس کا ازالہ دم درود، تعویز اور نظر بد کے دھاگوں سے کیا جاتا تھا۔ صدیق کی صدیقن ہنسنا تو درکنار کبھی مسکراتی بھی نہیں تھی۔ اپنے گھریلو حالات اور غربت کی وجہ سے وہ دل گرفتہ رہتی تھی۔ اپنی زندگی اسے ایسی لگتی تھی جیسے کسی سوئپر کی جھاڑو کہیں سڑاسڑ چل رہی ہو۔ اپنی کھوکھلی آنکھیں جھپکاتی ہوئی جب وہ اپنے شوہر کی طرف دیکھتی تو اسے بڑا ترس آتا تھا۔ کولھو سے بندھا بیل۔ اپنے بوجھ کو اس منزل تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف جو منزل کبھی نہیں آئے گی۔ چوکیداری کے دائرے میں چکر لگانے کے سوا جسے کچھ نہیں آتا تھا لیکن جس کا دل محبت اور نیکی سے لبریز تھا۔ جس کی وجہ سے اجیرن زندگی جینے کو دل کرتا تھا۔

روزانہ جب وہ چو لھے کے سامنے بیٹھتی تو اسے ایک مشکل مسئلہ درپیش ہوتا۔ خود سمیت چھے جانداروں کو لیے کیا پکائے اور کتنا پکائے کہ وہ پیٹ بھرکے کھا سکیں۔ انہیں اچھی اور مناسب غذامل سکے۔ مہینے میں دس بارہ دن ہی وہ اس کوشش میں کامیا
ب ہو پاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس نے گھروں میں ماسی کا کام کرنا شروع کردیا تھا لیکن اس کی بڑھتی بیماری کے سبب یہ سلسلہ بھی ختم ہورہا تھا۔ کھانا پکانے کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے اس نے شوہر کی طرف دیکھا جو ڈیوٹی سے آکر چارپائی پر لیٹ کرسوگیا تھا۔

صدیق کی آنکھ کھلی تو بیوی اس کے پاس بیٹھی خوف ناک آواز کے ساتھ کھانستے ہوئے دوہری ہورہی تھی۔ صدیق نے ہاتھ لگایا تو اسے تیز بخار بھی تھا۔ مٹکے سے پانی لا کراس نے آہستہ آہستہ کمر سہلاتے ہوئے صدیقن کو پلایا تو اسے کچھ قرارسا آگیا۔ وہ غم گین اور افسردہ تھی۔ ’’کیا بات ہے‘‘ اس نے آہستگی سے بیوی سے پو چھا ’’آج آخری گھر سے بھی کام ختم ہوگیا۔ بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں تو ہروقت کھانستی رہتی ہے جس سے پورے گھر میں جراثیم پھیل سکتے ہیں لہٰذا کل سے کام پر نہ آنا۔ میں نے دوسری ماسی کا بندوبست کرلیا ہے۔ اب کیا ہوگا۔ گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟ تم نے اپنے سیٹھ سے تنخواہ بڑھانے کی بات کی‘‘ صدیق نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا ’’نہیں‘‘ لیکن اس کے لہجے میں ایک انجانی خوشی سی تھی ’’فکر مت کرو نوٹی فیکیشن آنے والا ہے پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔

صدیق جس زیر تعمیر پلازہ میں چو کیداری کرتا تھا وہاں بکنگ آفس میں کلرکوں سے لے کر ٹھیکیداروں تک، سیٹھ صاحب اور ان کے بیٹوں سے لے کر بکنگ کروانے والے کسٹمرز تک سب کا موضوع گفتگو ایک ہی تھا ’’نوٹی فی کیشن‘‘۔ سب شدت کے ساتھ کسی نوٹی فی کیشن کے منتظر تھے۔ ایک ٹھیکیدار دل گرمانے والے انداز میں کہہ رہا تھا ’’بس نوٹی فی کیشن آجائے پھر دیکھنا پاکستان میں ایک نیا نظام آجائے گا۔ سب کچھ بدل جائے گا‘‘ نوٹی فی کیشن کیا تھا؟ کہاں سے آرہا تھا؟ وزیراعظم اور صدر اس پر دستخط کرنے میں تاخیر کیوں کررہے تھے؟ صدیق کو کچھ پتا نہیں تھا لیکن نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال پختگی سے بیٹھ گیا تھا کہ نوٹی فیکیشن آجائے گا تو عوام کے دن سیدھے ہو جا ئیں گے۔ آخر کو عوام کے نمائندے ہیں۔ عوام نے انہیں ووٹ دیے ہیں۔ وہ عوام کے لیے کچھ نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ وزیراعظم اور صدر کو کرنا ہی کیا ہے؟ غریبوں کے اندھیرے دور کرنے کے لیے، ان کی زندگیوں سے بے بسی اور لاچاری ختم کرنے کے لیے نوٹی فی کیشن پر دستخط ہی تو کرنے ہیں اور بس پھر نظام بدل جائے گا۔ رینگ رینگ کر جیتے ہوئے غریبوں کو نئی زندگی مل جائے گی۔

آج صبح صدیق چوکیداری پر آیا تو اسے خبر ملی کہ کل رات نوٹی فیکشن آگیا ہے۔ اس کا بس چلتا تو اڑ کر صدیقن کے پاس پہنچ جاتا اور اسے نوٹی فی کیشن آنے کی خوش خبری سناتا جس کے بعد اس کی جھگی سے غربت دور ہو جائے گی۔ اس کے افراد خانہ بھی عزت سے پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ بچوں کے پیروں میں جوتی ہوگی صاف ستھرے کپڑے ہوں گے۔ بچے اسکول جائیں گے انہیں علاج معالجے کی سہولت حاصل ہو گی لیکن گھر جاکر وہ بیوی سے ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔ صدیقن کی حالت خراب تھی۔ تیز بخار کی وجہ سے اس کا جسم آگ ہورہا تھا۔ کھانسی کے ساتھ اس کے منہ سے خون آرہا تھا۔ تیز بخار اور کھانسی کے باوجود اس نے بچوں کے لیے کھانا پکایا تھا۔ شدید سردی میں کپڑ ے دھوئے تھے۔ اس نے بیوی کو رکشہ میں ڈالا اور جناح اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے فوراً داخلے کے لیے کہا لیکن وارڈ میں کوئی بیڈ خالی نہیں تھا۔ دوائیاں بھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے ایک پرچے پر دوائیاں لکھ کردیں اور کہاں باہر سے دوائیاں لے لو۔ مریض کو لے جائو۔ ابھی ایڈمٹ نہیں کرسکتے۔ کل صبح لے آنا۔ صدیق سناٹے میں آگیا۔ نوٹی فی کیشن آنے کے باوجود اس کی صدیقن کا علاج نہیں ہورہا تھا۔ اس کی بیوی اس کے ہاتھوں میں دم توڑ رہی تھی۔ صدیق کا اپنا سانس بھی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ اس نے ڈاکٹر کا گریبان پکڑ لیا ’’اب تو نوٹی فیکیشن آگیا، اب بھی غریب کا علاج نہیں، اب بھی بیڈ خالی نہیں، دوائیاں نہیں‘‘ ڈاکٹر نے غصے سے صدیق کا ہاتھ چھڑکا ’’کیا نوٹی فیکیشن، نوٹی فیکیشن لگا رکھی ہے؟ تیرا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ نوٹی فی کیشن کا غریبوں سے، اس ملک کے عوام سے کیا تعلق؟؟‘‘

بابا الف سیف اللہ

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نوٹی فی کیشن نوٹی فیکیشن کرنے کے لیے جائے گا رہا تھا کے ساتھ رہی تھی صدیق کی تو اسے کیشن ا نہیں ا

پڑھیں:

کراچی میں گھریلو ناچاقی پر سفاک شخص نے بیوی اور 12 سالہ بیٹی کو تیز دھار آلے سے قتل کردیا

شہر قائد کے علاقے کلفٹن اپرگزی میں سفاک شوہر نے گھریلو جھگڑے کے دوران بیوی اور 12 سالہ بیٹی کو قتل کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کلفٹن کے علاقے اپر گزری بلوچ پاڑہ نورانی مسجد کے قریب گھر میں گھریلو جھگڑے کے دوران سفاک شوہر نے تیز دھار آلے کے وار سے بیوی کو قتل جبکہ بیٹی کو شدید زخمی کیا۔

بچی کو اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ وہ اس دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔

ایس ایچ او کلفٹن عمران سعد نے واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس پارٹی کے ہمراہ موقع پر پہنچ کر ملزم شوہر سمیع اللہ کو گرفتار کر کے آلہ قتل (چھری) برآمد کرلی۔

 قتل ہونے والی ماں کی شناخت 45 سالہ کلثوم جبکہ 12 سالہ بچی کی شناخت مریم کے نام سے کی گئی۔

پولیس نے گرفتار ملزم کو تفتیش کے لیے تھانے منتقل کر دیا جس نے ابتدائی تحقیقات میں دہرے قتل کا اعتراف بھی کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی شہری کی پاکستانی بیوی سے بے وفائی، متاثرہ خاتون کی ویڈیو اپیل وائرل
  • ’کرینہ کپور میری بیوی رہ چکی‘، مفتی قوی کا حیران کن دعویٰ
  • مفتی قوی کا دعویٰ: کرینہ کپور میری بیوی رہی ہیں؟
  • کرینہ کپور میری بیوی رہی ہیں، نکاح کیا تھا، مفتی قوی کا حیران کن دعویٰ
  • کراچی: گزری میں گھریلو جھگڑے پر شوہر نے بیوی اور بیٹی کو قتل کردیا
  • کراچی میں گھریلو ناچاقی پر سفاک شخص نے بیوی اور 12 سالہ بیٹی کو تیز دھار آلے سے قتل کردیا
  • لاہور ہائیکورٹ: 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست میں ترمیم کی ہدایت
  • ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن جاری
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری