Express News:
2025-12-10@22:48:04 GMT

جسٹس جہانگیری کے خلاف رٹ قابل سماعت قرار

اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف رٹ قابل سماعت قرار دے دی گئی ہے۔ اس ضمن میں کئی قانونی ابہام موجود تھے اور ہیں۔ کیا کسی جج کے خلاف رٹ کے ذریعے کارروائی کی جا سکتی ہے؟

کیا جج کے خلاف کارروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل نہیں ہے؟ بہر حال ابھی کی خبر یہی ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ یونیورسٹی نے بھی رٹ میں جواب جمع کروا دیا ہے اور رٹ قابل سماعت ہو گئی ہے۔

اس سے قبل سپریم جیوڈیشل کونسل کے قواعد میں بھی تبدیلی کی گئی اور یہ طے کیا گیا کہ اگر کسی جج کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو جاتا ہے تو اگر وہ مستعفی بھی ہو جائے‘ تب بھی کارروائی جاری رہے گی اور منطقی انجام تک پہنچے گی۔

ورنہ پہلے کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ججز مستعفیٰ ہو جاتے تھے جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ تا ہم اب یہ روک دیا گیا ہے۔ اب رٹ کا معاملہ زیادہ دلچسپ ہے، رٹ قابل سماعت ہونے کے دلائل بھی دلچسپ ہیں۔

یہ کہا گیا ہے کہ جج کے خلاف کارروائی ان معاملات پر سپریم جیوڈیشل کونسل میں ہوتی ہے جو اس کے جج بننے کے بعد پیدا ہوں۔ جج بننے کے بعد اگر کرپشن اور مس کنڈکٹ کا الزام ہو تو سپریم جیوڈیشل کونسل کارروائی کرے گی۔

اس لیے سپریم جیوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار شروع ہی تب سے ہوتا ہے جب کوئی جج بنتا ہے۔ جج بننے کے بعد وہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے تابع آتا ہے۔ تا ہم اگر اس نے جج بننے سے پہلے کوئی غلط کام کیا ہے تو پھر وہ عام آدمی ہے اور اس کے ساتھ وہی قانونی کارروائی ہوگی جو عام آدمی کے ساتھ ہوتی ہے۔

اس ضمن میں قانون واضح ہے کہ اگر کسی کی غلط تعیناتی ہو جائے تو اسے رٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یہاں معاملہ غلط تعیناتی کا ہے اور اس لیے کارروائی رٹ سے ہی ہوگی۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایک چیئرمین نیب کو بھی رٹ میں ہی فارغ کیا گیا تھا کہ ان کی تعیناتی غلط ہے۔

یہاں اسلام آباد بار کونسل کا موقف بھی دلچسپ ہے۔ جسٹس جہانگیری جج بنے ہیں کیونکہ وہ وکیل تھے اور ان کے پاس وکالت کا لائسنس تھا۔بار کا موقف ہے کہ اگر انھوں نے ایل ایل بی بھی پاس نہیں کیا یعنی اگر ان کی قانون کی سند کا مسئلہ ہے تو کارروائی کرنے کا اختیار بار کونسل کا ہے، وہی ریگولیٹر ہے۔

آپ کیس ہمیں ریفر کر دیں۔ ہم دیکھیں گے کہ جسٹس جہانگیری نے وکالت کا لائسنس درست لیا کہ نہیں، کیا وکالت کا لائسنس لیتے وقت ان کی ڈگری ٹھیک تھی کہ نہیں۔

اب یہاں یہ معاملہ دلچسپ ہے کہ کسی کو بھی جج بناتے وقت اس کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کروائی جاتی بلکہ بار کونسل کے لائسنس سے ہی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے پاس قانون کی ڈگری موجود ہے۔اس لیے یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

لیکن ڈگری چیلنج کرنے والوں کا موقف ہے کہ اب یہ معاملہ اسلام آباد کی بار کونسل کو ریفر اس لیے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ معاملہ کوئی وکالت کے لائسنس کا نہیں ہے بلکہ جج بننے کا ہے۔ اس لیے رٹ ہی واحد فورم ہے۔

بہر حال رٹ قابل سماعت قرار دے دی گئی ہے اور نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس جہانگیری کیا قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کیا وہ نوٹس کے جواب میں جواب جمع کرواتے ہیں یا وہ آئینی عدالت میں نوٹس کو چیلنج کرتے ہیں۔

اس سے پہلے یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں جا چکا ہے۔ جب جسٹس جہانگیری کو اسلام آباد ہا ئی کورٹ نے اسی رٹ میں کام سے روک دیا تھا ۔تب بھی یہی سوال پیدا ہوا تھا کہ کیا ایک رٹ میں ایک جج اپنے ساتھی جج کو کام سے روک سکتا ہے۔

لیکن پھر اعلیٰ عدالت نے انھیں کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا تھا کہ وہ پہلے رٹ کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کریں‘ پھر آگے بڑھیں۔ شاید اعلیٰ عدالت چاہتی تھی کہ قابل سماعت ہونے کے فیصلہ کو جب چیلنج کیا جائے گا تو پھر اعلیٰ عدالت فیصلہ کرے گی کہ کیا رٹ میں کارروائی ہو سکتی ہے۔

اب ایک صورت تو یہ ہے کہ جسٹس جہانگیری آئینی عدالت سے رجوع کریں اور وہاں سے انھیں ریلیف مل جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں کارروائی رک جائے ۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کارروائی کو آگے بڑھائے۔

لیکن اگر آئینی عدالت کو ئی حکم امتناعی جاری کرتی ہے تو معاملہ رک جائے گا ورنہ جاری رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رٹ کے فیصلہ کے بعد بھی آئینی عدالت اس معاملہ کو دیکھ سکتی ہے۔ ابھی اسلام آباد ہائی کورٹ کو کارروائی سے روکنا شاید درست نہ ہو۔ لیکن یہ میری رائے ہے، آئینی عدالت آزاد ہے، وہ کچھ بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

اگر یہ رٹ آگے بڑھتی ہے تو کیا ہوگا؟ یہ ایک فرضی بات ہے لیکن سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ہم یہ طے نہیں کر رہے کہ بات آگے بڑھ جائے گی۔ لیکن ایک مفروضہ ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر رٹ میںیہ طے ہوجاتا ہے کہ ڈگری جعلی ہے جیسے کہ یونیورسٹی نے لکھ کر دے دیا ہے۔ تو پھر یہ ممکن ہے کہ فیصلہ ہو جائے کہ جسٹس جہانگیری جج بننے کے اہل ہی نہیں تھے۔

جب یہ طے ہو جائے گا کہ وہ جج بننے کے اہل ہی نہیں تھے تو وہ جج بھی نہیں رہیں گے۔ اہلیت ہی نہیں ہوگی تو جج بھی ختم۔ اس لیے معاملہ سپریم جیوڈیشل کونسل میں نہیں جائے گا، یہیں طے ہو جائے گا۔

لیکن اس کے بعد کیا ہوگا، یہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ سوال ہے کہ کیا معاملہ یہاں ختم ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ مجھے کئی پارلیمنٹرینز کے کیس معلوم ہیں کہ ان کی ڈگری جعلی قرار پائی تو وہ صرف پارلیمان کی رکنیت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ ان کے خلاف فوجداری کارروائی بھی ہوئی۔

مجھے بھی یہاں یہی لگتا ہے کہ معاملہ رٹ کے فیصلہ پر رک نہیں جائے گا۔ اگر فیصلہ ہوتا ہے تو پھر فوجداری کارروائی بھی ہوگی، مشکلات ِختم نہیںہوں گی۔ لیکن دوست مظاہر علی نقوی کی مثال دیتے ہیں کہ جس گھر پر ان کے خلاف کارروائی ہوئی‘ انھیں جج سے نکالا گیا۔

وہ آج بھی اس گھر میں رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف کسی ادارے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس لیے مثال موجود ہے کہ آگے کارروائی نہ کی جائے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں یہاں معاملہ میں فرق ہے۔ یہاں شاید آگے فوجداری کارروائی کی نوبت بھی آئے گی۔ اس لیے یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ کے خلاف کارروائی کہ جسٹس جہانگیری میں سمجھتا ہوں قابل سماعت ہو ا ئینی عدالت جج کے خلاف جج بننے کے بار کونسل کونسل کا سکتی ہے جائے گا کی ڈگری ہو جائے ہے کہ ا اور اس کے بعد تو پھر اس لیے کہ اگر ہے اور

پڑھیں:

جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈگری کیس کی سماعت کل ہوگی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251208-08-12
اسلام آباد(آن لائن)عدالت عالیہ اسلام آباد کے حاضر سروس جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مشکلات میں کمی نہ آسکی اوراسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی وکالت کی ڈگری کیس کی سماعت کل منگل 9 دسمبرکوہوگی۔ عدالت پہلے ہی ریکارڈ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے کراچی یونیورسٹی سے طلب کرچکی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ڈگری کا ریکارڈ طلب کرنے کا تحریری آرڈر جاری کیاتھا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جسٹس طارق جہانگیری ڈگری تنازع کیس میں تحریری حکم نامہ جاری
  • جسٹس جہانگیری کیخلاف ڈگری کیس قابل سماعت قرار دینے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار، فریقین کو نوٹس جاری
  • جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار
  • ڈگری تنازع کیس: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست قابل سماعت قرار
  • ایف ای ڈی کے اساتذہ کی مستقلی کا معاملہ حل کیا جائے، جسٹس کیانی
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری ڈگری کیس کی سماعت کل ہوگی