13 برس میں 21 لاکھ بھارتیوں نے انڈین شہریت ترک کردی
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) ہندوتوا کی پیروکار مودی حکومت کے دور میں بھارتیوں کی اکثریت ملک چھوڑ کر جارہی ہے اور دیگر ممالک کی شہریت حاصل کرتے ہوئے بھارتی شہریت ختم بھی کررہی ہے۔ 13 برس میں 21 لاکھ کے قریب بھارتی شہریوں نے بھارتی شہریت ترک کرکے غیر ملکی شہریت حاصل کرلی۔وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ کیرتی وردھن سنگھ نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں انکشاف کیا کہ گزشتہ5 برس میں تقریباً 9 لاکھ بھارتی شہریوں نے اپنی بھارتی شہریت ترک کر دی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر ملکی شہریت اختیار کرنے کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وزیر نے بتایا کہ 2020 سے 2024 کے درمیان ترکِ شہریت کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں:،2020: 85,256۔2021: 1,63,370۔2022: 2,25,620۔2023: 2,16,219۔2024: 2,06,378۔اس طرح 5سال میں کل 8,96,843 افراد بھارتی شہریت چھوڑ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، 2011 سے 2019 کے درمیان 11,89,194 بھارتیوں نے شہریت ترک کی تھی، جن کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں:2011: 1,22,819۔2012: 1,20,923۔2013: 1,31,405۔2014: 1,29,328۔2015: 1,31,489۔2016: 1,41,603۔2017: 1,33,049۔2018: 1,34,561 2019: 1,44,017۔کیرتی وردھن سنگھ نے بتایا کہ سال 2024–25 میں بیرونِ ملک مقیم بھارتیوں کی جانب سے 16,127 شکایات مختلف سرکاری آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعہ موصول ہوئیں۔وزیر مملکت نے بتایا کہ بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی شکایات نمٹانے کے لیے حکومت کے پاس ایک مضبوط اور جامع نظام موجود ہے، جس میں 24/7 ہیلپ لائنز، ایمبسی/کانسلیٹ میں واک اِن سہولت، سوشل میڈیا کے ذریعے فوری رابطہ اور کثیر لسانی سپورٹ سروسز شامل ہیں۔ بیشتر معاملات براہِ راست بات چیت، آجرین سے رابطہ اور متعلقہ ملک کے حکام سے ہم آہنگی کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ بھارتی سفارتخانے منظور شدہ وکلاء کے ذریعے قانونی معاونت فراہم کرتے ہیں، جس کے لیے انڈین کمیونیٹی ویلفیئر فنڈ مدد فراہم کرتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بھارتی شہریت شہریت ترک
پڑھیں:
پیدائشی شہریت غلاموں کے بچوں کیلئے تھی، امیروں کیلئے نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں پیدائش کی بنیاد پر شہریت کا مسئلہ ایک بار پھر سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ گفتگو میں مؤقف اپنایا ہے کہ یہ آئینی حق بنیادی طور پر غلامی کے خاتمے کے بعد سابق غلاموں کے بچوں کے لیے تھا، نہ کہ اُن افراد کے لیے جو محض امریکا میں بچے کی پیدائش کے ذریعے اپنے خاندان کو شہریت دلوانا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ موجودہ حالات میں امریکا لاکھوں ایسے افراد کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رکھتا، جنہیں وہ "برّتھ رائٹ سٹیزن شپ" کے ذریعے یہاں کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم کی شہریت کی شِق اُس تاریخی دور سے جڑی ہے، جب خانۂ جنگی کے بعد سابق غلاموں کو مکمل قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس قانون کا مقصد امیر غیر ملکیوں کے لیے شہریت کا راستہ کھولنا کبھی نہیں تھا۔
واضح رہے کہ جنوری 2025ء میں جاری کیے گئے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکی حکومت نے ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جو غیر قانونی طور پر امریکا میں موجود یا مختصر مدت کے لیے وزٹ پر آئے والدین سے امریکا میں پیدا ہوں۔ یہ پالیسی ماضی پر لاگو نہیں ہوتی، اس اقدام کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور مختلف وفاقی عدالتوں نے اس کے نفاذ پر عارضی پابندیاں عائد کیں۔ بعد ازاں امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے کو باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے، جس کا فیصلہ آئندہ سال متوقع ہے۔