اٹک:  گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے ایک بار پھر مرکز میں اپنی پارٹی کی اتحادی جماعت اور اس کی صوبائی حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے فتح جنگ اٹک میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کے دوران جوش میں آ گئے۔
انہوں نے کہا کہ آگر میں چپ رہوں اور حکومتی کاموں کی تعریفیں کروں تو مجھے 2، 4 سڑکیں مل جاہیں مگر میں غریب عوام کے حق کے لیے بولتا اور لڑتا رہوں گا، آگر میں مظلوم اور غریب کے حق کے لیے لڑر نہ سکوں تو مجھے گورنر ہاؤس میں رہنے کا حق نہیں۔
گورنر پنجاب نے کہا کہ 17 ہزار سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کرکے تعلیم کو غریب کی پہنچ سے دور کردیا گیا، غریب عوام کے لیے اسکول ضروری ہے، سڑکیں نہیں۔
سردار سلیم حیدر نے کہا کہ اتحادی ہونے کے باوجود غریب عوام کے حق کے لیے لڑ رہا ہوں اور اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات خوش آئند ہے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے پی ٹی آئی کو بھی مذاکرات کو آگے لیکر بڑھنا چاہیے، پی ٹی آئی والوں کو انتشار کی سیاست ختم کرنی چاہیے۔
گورنر سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ورکرز ہمارا سرمایہ ہیں ملک کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے، بلاول بھٹو ملک کے اگلے وزیرِ اعظم ہوں گے
دریں اثناایک ٹی وی انٹرویومیں سردار سلیم حیدر نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو آج نہ حکومت ہوتی نہ سسٹم چلتا ، وزیراعظم کوبلاول بھٹو کے تحفظات پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرناچاہیےایسا نہ ہوچیزیں ہاتھ سےنکل جائیں۔
انہوں نےکہا کہ ضروری ہے بلاول بھٹو کے تحفظات کو دور کیا جائے ، وزیراعظم کو پیپلز پارٹی کے تحفظات پر توجہ دے کر اسکا حل نکالنا چاہیے ، ورنہ ایسا نہ ہوکہ چیزیں ہاتھ سے نکل جائیں اور سسٹم ، جمہوریت اور دونوں اتحادی جماعتوں کا ہی نقصان ہو۔
گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو آج نہ حکومت ہوتی نہ سسٹم چلتا، وفاق اور اتحادی جماعت ن لیگ کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
مریم نواز سے اختلافات سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ میری اور مریم صاحبہ کی کے پی کے کے گورنر اور وزیراعلی جیسی لڑائی نہیں ، میری مریم نواز سے ملاقات ہونا نہ ہونا کسی لڑائی کا نتیجہ نہیں ، جب چائیں گے ملاقات ہو جائے گی ، ہم دونوں صوبے میں گاڑی کے دو پہیے ہیں، خرابیاں پیدا ہوں گی تو نقصان ہم دونوں کا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ عوام اور صوبے کے حق میں فیصلے ٹھیک نہیں ہوں گے تو وہاں تنقید کرنا میرا حق ہے ، امید ہے میری تنقید کو مریم مثبت انداز سے لے کر چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گی، پیپلز پارٹی کی آخری حد تک کوشش ہوگی کہ چیزیں بہتر ہو اور سسٹم چلے۔
مریم نواز کی کارگردگی کے سوال پر سردار سلیم نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب کی کارکردگی پر میری خوشی یا ناراضگی بے معنی ہے ، ان کی کارکردگی اس وقت پتہ چلے گی جب وہ عوام میں جائیں گی اور عوام ان کے کاموں پر فیصلہ کرے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ماننا پڑے گا کہ صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق پورا پانی نہیں مل رہا ، پانی کے معاملے پر سندھ کو پہلے ہی کمی کا سامنا ہے ، ایسے میں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کی کوشش کی جائے گی تو نقصان سندھ کا ہوگا ، صوبوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہریں نکالنے کا عمل ناقابل قبول ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سردار سلیم حیدر گورنر پنجاب پیپلز پارٹی نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟

بجٹ اجلاس کے دوران ہنگامہ آرائی سے شروع ہونے والا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر پنجاب اسمبلی نے 26 اپوزیشن اراکین کی نااہلی کی درخواستیں مسترد کر دیں

اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے ایوان میں اپنی رولنگ سناتے ہوئے ارکان کی نااہلی کی درخواستوں کو مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ منتخب نمائندوں کو عدالتی فیصلے کے بغیر نااہل نہیں کیا جا سکتا۔

26 اراکین کی  معطلی کا واقعہ

یہ تنازعہ 27 جون 2025 کو پنجاب اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران شروع ہوا جب وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے وقت اپوزیشن ارکان نے شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کی، ایجنڈے کے دستاویزات پھاڑ کر حکومتی بینچز پر پھینک دیں اور ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اسے ایوان کی حرمت اور نظم و ضبط کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ  اسمبلی رول 210 (3) اور آئین کے آرٹیکل 62 کی اہلیت کے منافی ہے۔

اگلے روز، 28 جون 2025 کو، اسپیکر نے اپنی رولنگ جاری کرتے ہوئے ان 26 ارکان کو 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دیا۔

معطل ارکان میں ملک فہد مسعود، محمد تنویر اسلم، سید رفعت محمود، یاسر محمود قریشی، کلیم اللہ خان، انصر اقبال، علی آصف، ذوالفقار علی، احمد مجتبیٰ چوہدری، امتیاز محمود، علی امتیاز، محمد اعجاز شفیع، سجاد احمد، رانا اورنگزیب، شعیب امیر اور دیگر شامل تھے۔

مزید پڑھیے: پنجاب اسمبلی کے معطل اپوزیشن ارکان کی ایوان میں واپسی کی راہ ہموار

اسپیکر نے عالمی پارلیمانی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احتجاج کا حق ہے لیکن اس کی حدود آئین اور قواعد کے تابع ہیں۔ اس کے بعد 4 جولائی 2025 کو اسپیکر نے ان ارکان کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھیج دیا جس میں الزام لگایا گیا کہ اراکین کی کارروائی آئینی حلف کی خلاف ورزی ہے۔

اپوزیشن نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا اور بحالی تک ایوان کی کارروائی میں شرکت سے انکار کر دیا۔

 بحالی کیسے ہوئی

معطلی کے فوراً بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ جولائی 2025 کو مذاکرات  شروع ہوئے جو ابتدائی طور پر بے نتیجہ رہے لیکن 13 جولائی کو پھر حکومتی اور اپوزیشن کے  درمیان بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔

مذکورہ اجلاس میں کہا گیا کہ ایتھیکس کمیٹی کو فعال کرنا، نازیبا زبان اور نعرے بازی سے گریز اور قائدین کی تقریروں کو خاموشی سے سننا جائے گا ۔

17 جولائی 2025 کو مذاکرات کامیاب ہوئے جہاں 26 ارکان کی بحالی پر اتفاق ہوا۔ اسپیکر جو اس وقت بیرون ملک تھےانہوں نے آڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور بحالی کا اعلان رولنگ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے بعد اسمبلی سیکریٹریٹ نے حکومتی درخواستوں بشمول ای سی پی ریفرنس  کو ڈراپ کرنے کا ڈرافٹ تیار کیا جو سپیکر کی منظوری پر جاری ہوا۔

قائم مقام اسپیکر ظہیر اقبال چنڑ نے فوری بحالی کا حکم دیا اور نوٹیفکیشن جاری کیا جس سے ارکان ایوان میں واپس آ گئے۔

بحالی کے بعد اسپیکر ملک محمد احمد خان نے ایوان میں اپنی حتمی رولنگ سنائی۔

مزید پڑھیں: 26 اراکین پنجاب اسمبلی کی معطلی: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ختم

رولنگ میں واضح کیا گیا کہ کسی عوامی نمائندے کو نااہل کرنا صرف ایک آواز دبانا نہیں بلکہ عوام کو ان کے حقِ نمائندگی سے محروم کرنا ہے۔

اسپیکر نے ’نہ‘ کہتے ہوئے استدلال کیا کہ منتخب ارکان کو اسپیکر یا ای سی پی کے لیے نااہل نہیں کر سکتے ۔

درخواست گزاران نے آئینی حلف سمیت سنگین قانونی اور آئینی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں تاہم ان خلاف ورزیوں کو پہلے کسی مجاز عدالت یا ٹربیونل میں ثابت کرنا ضروری ہے، درخواست گزار مجاز عدالت سے فیصلہ حاصل کرنے کے بعد دوبارہ اسپیکر سے رجوع کر سکتے ہیں۔

ایک منتخب ایوان صرف قانون سازی کا ادارہ نہیں بلکہ عوام کی آواز اور اعتماد کا مظہر ہے۔ عدالتی فیصلے کے بغیر اسے خاموش کرنا جمہوری اصولوں کی توہین ہے۔ رولنگ میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت نااہلی کا سوال پیدا نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب اسمبلی کے معطل ارکان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خیبرپختونخوا کا قافلہ لاہور روانہ

اسپیکر نے واضح کیا کہ ہنگامہ آرائی جیسے مسائل آئینی اہمیت کے ہیں لیکن نااہلی جیسا سنگین قدم عدالتی عمل کے بغیر نہیں اٹھایا جا سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پنجاب اپوزیشن اراکین کی معطلی پنجاب اپوزیشن ارکان بحال پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی اپوزیشن اراکین

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت سیلاب سے نمٹنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے، سردار سلیم حیدر خان
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • عوام تیاری کرلیں: ملک بھر میں گرج چمک کے ساتھ بارش ہونے والی ہے
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • سیلاب کی تباہ کاریاں‘ کاشتکاروں کو مالی امداد فراہم کی جائے‘سلیم میمن
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ: کیا اپوزیشن کے 26 ارکان کی معطلی کا معاملہ حل ہوگیا؟