Express News:
2025-09-18@14:12:21 GMT

ٹینکر یا موت کے سوداگر

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

(تحریر: سہیل یعقوب)

موت برحق ہے اور ہم سب یہ مانتے اور جانتے ہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، مگر یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ موت ٹینکروں کی صورت میں کراچی کی سڑکوں پر انتظامیہ کی آشیرباد سے یوں دوڑنے لگے گی۔

ایک خبر کے مطابق 2024 میں کراچی میں ٹریفک کے حادثات میں 482 افراد اپنی جان سے گئے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق یہ تعداد 601 افراد کی ہے اور نئے سال کے گیارہ دنوں میں 27 لوگ ٹریفک کے حادثات میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی اوسط سے چلتا رہا تو اللہ نہ کرے 2025 کی تعداد یقیناً 2024 سے زیادہ ہوجائے گی۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں ٹریفک اس معاشرے کے عمومی رویے کی آئینہ دار ہوتی ہے اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس کو قانون کے دائرے کے اندر رکھے۔ اس وقت ہماری سڑکوں پر ٹینکر موت بانٹتے پھر رہے ہیں اور ریاست ان کے آگے بےبس نظر آرہی ہے یا بےبس نظر آنا چاہتی ہے۔

دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں ہیوی ٹریفک کے اوقات مقرر ہوتے ہیں کہ جس میں وہ شہر سے گزر سکتے ہیں اور یہ عموماً رات سے لے کر علی الصبح تک ہوتے ہیں تاکہ روزمرہ کی شہری زندگی میں خلل نہ ہو۔ اب اگر انتظامیہ بغیر کسی متبادل کے پورے پورے شہر کا پانی دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کےلیے بند کردے گی تو پھر یہ ٹینکر بھی دن بھر شہر کی سڑکوں پر پانی پہنچانے اور موت بانٹتے ہی نظر آئیں گے۔

یہ انتہائی درجے کی بدقسمتی بلکہ بے حسی ہے کہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور کی ایک بڑی تعداد کم عمر ڈرائیوروں پر مشتمل ہوتی ہے اور زیادہ تر کے پاس تو سرے سے لائسنس ہی نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی لائسنس یہ ہیوی وہیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی لائسنس ان کے پاس ہوتا ہے تو وہ لائسنس ٹو کل (licence to kill) ہوتا ہے جو انگریزی فلموں میں صرف جیمس بانڈ کے پاس ہوتا ہے اور وہ بھی اس کو خاصی تربیت کے بعد ملتا ہے جبکہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور یہ کام بھی بغیر لائسنس کے کررہے ہیں۔

کیا اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے؟ دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس کا کوئی حل نہ ہو۔ سب سے پہلے تو حکومت کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا وہ اس کو مسئلہ سمجھتی ہے اور کیا وہ واقعی اس کا حل چاہتی ہے؟ یقین مانیے کہ اگر اس سوال کا جواب خلوص دل سے ہاں ہے تو سمجھ لیجیے کہ آدھا مسئلہ تو ابھی ہی حل ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ حل پر آئیں، کیونکہ حل کا مطلب ہوگا کہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کو سختی سے یقینی بنایا جائے اور کچھ نئے قوانین کا اجرا کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ رشوت کے نئے دروازے کھول دیے جائیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کی جان و مال کو تحفظ دینا ہے۔ اس کےلیے درج ذیل تجاویز ہیں:


ٹینکروں کے شہر میں داخلے کے اوقات مقرر ہوں اور اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔

اسکول اور دفتر کے جانے اور آنے کے اوقات میں ٹینکروں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس وقت لوگ جلدی میں ہوتے ہیں اور حادثات کا تناسب ان اوقات میں زیادہ ہوتا ہے۔

تمام ٹینکر کے اداروں اور ٹھیکیداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو نوکری پر رکھیں گے اور نشے کے عادی افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔

تمام ٹینکروں کی وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ ان کے بریک اور دیگر پرزوں کی کارکردگی کو جانچا جاسکے۔

سڑکوں کی حالت بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ٹریفک پولیس کی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے۔

ٹینکر کسی بھی ادارے کے ہوں اور ان کے مالکان کوئی بھی ہوں، انھیں کسی بھی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ صرف چند تجاویز ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کروایا جائے تو ان حادثات میں واضح کمی کی جاسکتی ہے۔ آخر میں ہم موٹر سائیکل چلانے والوں اور ان کے گھر والوں کو بھی کچھ تجاویز دینا چاہیں گے اور اسی پر اس تحریر کا اختتام ہے۔

موٹر سائیکل چلانے والوں کے والدین سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے بچوں نے خود سے موٹر سائیکل لی ہے یا آپ نے انھیں خرید کر دی ہے لیکن اب اس پر نظر رکھنا آپ کی اولین ذمے داری ہے۔ صرف موٹر سائیکل دلوانے سے فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ ان کی تربیت کیجیے اور انھیں اپنی اور دیگر لوگوں کی زندگی کی اہمیت باور کروانا بھی آپ ہی کی ذمے داری ہے۔ آج کل عموماً نوجوانوں کی موٹر سائیکل میں روشنی کا سرے سے انتظام ہی نہیں ہوتا یا وہ خراب ہوتا ہے۔ بریک کے حالات بھی عموماً ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ موٹر سائیکل کسی بھی حادثے کےلیے بالکل تیار ہوتی ہے۔ والدین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے بچوں کی موٹر سائیکل تکنیکی لحاظ سے سواری کے قابل ہو تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔

آخر میں ان نوجوانوں کےلیے کچھ پیغام جو موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ مانا کہ اسپیڈ میں تھرل بہت ہے مگر موت بھی ہے۔ قانون توڑنا بہادری نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنا بہادری ہے۔ بہادری ایک حد میں رہے تو خوبی ہے ورنہ بہادری کی انتہا حماقت ہے۔ خدارا بے جا رفتار سے خود کو بچائیے اور اپنی زندگی کی قدر و منزلت کو جانیے۔ آپ اپنے گھر والوں اور ملک کا مستقبل ہیں اور اسے یوں تھوڑی سی عجلت کےلیے برباد مت کیجیے۔

ہمت کرکے ایک دن اس بات کا تصور کیجئے کہ آپ کی لاش کسی ٹریفک حادثے کے نتیجے میں آپ کے گھر لائی گئی ہے اور پھر خود دیکھیے کہ آپ کے گھر والوں پر کیا  بیتی ہے اور ان کا کیا حال ہوتا ہے؟ اگر آپ نے ایک دفعہ تصور میں ہی اس کو دیکھ لیا تو اگلی دفعہ آپ کا ہاتھ ایک مخصوص اور قانونی رفتار سے آگے نہیں جائے گا۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موٹر سائیکل نہیں ہوتا ہوتے ہیں کسی بھی ہیں اور ہوتا ہے اور اس ہے اور اور ان

پڑھیں:

جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !

بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔

یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔

یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City  کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔

حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔

علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔

معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔

یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔

کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔

شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔

ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔

 اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔

یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔

بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ

 شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل

کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا

متعلقہ مضامین

  • پشاور، نادرن بائی پاس پر گیس ٹینکر کا حادثہ، ریسکیو 1122 کا بروقت آپریشن
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • بینک اسلامی اور ایم جی موٹر زکے درمیان کار فنانسنگ کامعاہدہ
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • سیلاب سے  ایم 5 موٹروے 5 مقامات پر متاثر ،ٹریفک بند
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • کراچی، نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار شخص جاں بحق
  • لانڈھی اسپتال چورنگی پر المناک حادثہ،ماں بیٹا واٹر ٹینکر کی زد میں آکر جاں بحق
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟
  • مالی تنازع پر عدالت آنے والے بھائیوں پر فائرنگ، 1 جاں بحق