Express News:
2025-04-25@11:32:44 GMT

ٹینکر یا موت کے سوداگر

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

(تحریر: سہیل یعقوب)

موت برحق ہے اور ہم سب یہ مانتے اور جانتے ہیں کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، مگر یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ موت ٹینکروں کی صورت میں کراچی کی سڑکوں پر انتظامیہ کی آشیرباد سے یوں دوڑنے لگے گی۔

ایک خبر کے مطابق 2024 میں کراچی میں ٹریفک کے حادثات میں 482 افراد اپنی جان سے گئے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق یہ تعداد 601 افراد کی ہے اور نئے سال کے گیارہ دنوں میں 27 لوگ ٹریفک کے حادثات میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی اوسط سے چلتا رہا تو اللہ نہ کرے 2025 کی تعداد یقیناً 2024 سے زیادہ ہوجائے گی۔

کسی بھی مہذب معاشرے میں ٹریفک اس معاشرے کے عمومی رویے کی آئینہ دار ہوتی ہے اور ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس کو قانون کے دائرے کے اندر رکھے۔ اس وقت ہماری سڑکوں پر ٹینکر موت بانٹتے پھر رہے ہیں اور ریاست ان کے آگے بےبس نظر آرہی ہے یا بےبس نظر آنا چاہتی ہے۔

دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں ہیوی ٹریفک کے اوقات مقرر ہوتے ہیں کہ جس میں وہ شہر سے گزر سکتے ہیں اور یہ عموماً رات سے لے کر علی الصبح تک ہوتے ہیں تاکہ روزمرہ کی شہری زندگی میں خلل نہ ہو۔ اب اگر انتظامیہ بغیر کسی متبادل کے پورے پورے شہر کا پانی دنوں نہیں بلکہ ہفتوں کےلیے بند کردے گی تو پھر یہ ٹینکر بھی دن بھر شہر کی سڑکوں پر پانی پہنچانے اور موت بانٹتے ہی نظر آئیں گے۔

یہ انتہائی درجے کی بدقسمتی بلکہ بے حسی ہے کہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور کی ایک بڑی تعداد کم عمر ڈرائیوروں پر مشتمل ہوتی ہے اور زیادہ تر کے پاس تو سرے سے لائسنس ہی نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی لائسنس یہ ہیوی وہیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی لائسنس ان کے پاس ہوتا ہے تو وہ لائسنس ٹو کل (licence to kill) ہوتا ہے جو انگریزی فلموں میں صرف جیمس بانڈ کے پاس ہوتا ہے اور وہ بھی اس کو خاصی تربیت کے بعد ملتا ہے جبکہ ان ٹینکروں کے ڈرائیور یہ کام بھی بغیر لائسنس کے کررہے ہیں۔

کیا اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے؟ دنیا میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس کا کوئی حل نہ ہو۔ سب سے پہلے تو حکومت کو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا وہ اس کو مسئلہ سمجھتی ہے اور کیا وہ واقعی اس کا حل چاہتی ہے؟ یقین مانیے کہ اگر اس سوال کا جواب خلوص دل سے ہاں ہے تو سمجھ لیجیے کہ آدھا مسئلہ تو ابھی ہی حل ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ حل پر آئیں، کیونکہ حل کا مطلب ہوگا کہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کو سختی سے یقینی بنایا جائے اور کچھ نئے قوانین کا اجرا کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ رشوت کے نئے دروازے کھول دیے جائیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کی جان و مال کو تحفظ دینا ہے۔ اس کےلیے درج ذیل تجاویز ہیں:


ٹینکروں کے شہر میں داخلے کے اوقات مقرر ہوں اور اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔

اسکول اور دفتر کے جانے اور آنے کے اوقات میں ٹینکروں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس وقت لوگ جلدی میں ہوتے ہیں اور حادثات کا تناسب ان اوقات میں زیادہ ہوتا ہے۔

تمام ٹینکر کے اداروں اور ٹھیکیداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو نوکری پر رکھیں گے اور نشے کے عادی افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔

تمام ٹینکروں کی وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ ان کے بریک اور دیگر پرزوں کی کارکردگی کو جانچا جاسکے۔

سڑکوں کی حالت بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ٹریفک پولیس کی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے۔

ٹینکر کسی بھی ادارے کے ہوں اور ان کے مالکان کوئی بھی ہوں، انھیں کسی بھی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ صرف چند تجاویز ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کروایا جائے تو ان حادثات میں واضح کمی کی جاسکتی ہے۔ آخر میں ہم موٹر سائیکل چلانے والوں اور ان کے گھر والوں کو بھی کچھ تجاویز دینا چاہیں گے اور اسی پر اس تحریر کا اختتام ہے۔

موٹر سائیکل چلانے والوں کے والدین سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے بچوں نے خود سے موٹر سائیکل لی ہے یا آپ نے انھیں خرید کر دی ہے لیکن اب اس پر نظر رکھنا آپ کی اولین ذمے داری ہے۔ صرف موٹر سائیکل دلوانے سے فرض ادا نہیں ہوتا بلکہ ان کی تربیت کیجیے اور انھیں اپنی اور دیگر لوگوں کی زندگی کی اہمیت باور کروانا بھی آپ ہی کی ذمے داری ہے۔ آج کل عموماً نوجوانوں کی موٹر سائیکل میں روشنی کا سرے سے انتظام ہی نہیں ہوتا یا وہ خراب ہوتا ہے۔ بریک کے حالات بھی عموماً ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ موٹر سائیکل کسی بھی حادثے کےلیے بالکل تیار ہوتی ہے۔ والدین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے بچوں کی موٹر سائیکل تکنیکی لحاظ سے سواری کے قابل ہو تاکہ حادثات سے بچا جاسکے۔

آخر میں ان نوجوانوں کےلیے کچھ پیغام جو موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ مانا کہ اسپیڈ میں تھرل بہت ہے مگر موت بھی ہے۔ قانون توڑنا بہادری نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنا بہادری ہے۔ بہادری ایک حد میں رہے تو خوبی ہے ورنہ بہادری کی انتہا حماقت ہے۔ خدارا بے جا رفتار سے خود کو بچائیے اور اپنی زندگی کی قدر و منزلت کو جانیے۔ آپ اپنے گھر والوں اور ملک کا مستقبل ہیں اور اسے یوں تھوڑی سی عجلت کےلیے برباد مت کیجیے۔

ہمت کرکے ایک دن اس بات کا تصور کیجئے کہ آپ کی لاش کسی ٹریفک حادثے کے نتیجے میں آپ کے گھر لائی گئی ہے اور پھر خود دیکھیے کہ آپ کے گھر والوں پر کیا  بیتی ہے اور ان کا کیا حال ہوتا ہے؟ اگر آپ نے ایک دفعہ تصور میں ہی اس کو دیکھ لیا تو اگلی دفعہ آپ کا ہاتھ ایک مخصوص اور قانونی رفتار سے آگے نہیں جائے گا۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موٹر سائیکل نہیں ہوتا ہوتے ہیں کسی بھی ہیں اور ہوتا ہے اور اس ہے اور اور ان

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمے میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں، یہ کس نوعیت کا کیس ہے جس میں جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ملزم کے 3 ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کر رہا، جسٹس ہاشم نے کہا کہ زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کر رہا ؟۔ بعد ازاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن کا ٹورنٹو میں انتقال

متعلقہ مضامین

  • اب20 سال سے پرانی گاڑیاں موٹروے پر نہیں چلیں گی،ہمیں جانوں کی حفاظت کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے:عبدالعلیم خان
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • کراچی کی سڑکوں پر ٹینکر کا خونی کھیل جاری، بچہ جاں بحق، خواتین سمیت 7 افراد زخمی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی: ٹینکر اور سوزوکی میں تصادم، کمسن بچہ جاں بحق، خواتین سمیت 7 افراد زخمی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے: شاہد خاقان عباسی
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا: عدالت