WE News:
2025-11-04@06:13:24 GMT

پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

اقبال نے اپنے الہامی کلام میں ایک خبر دی تھی:

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

یہ واقعہ ہو گزرا ہے اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ یہ واقعہ اُسی خطے میں پیش آیا ہے جس نے انگڑائی لی تو برصغیر کو اپنی منزل ملی یعنی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے تحریکیں چلیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے مسلم بر صغیر کو اس کی منزل سے ہم کنار کیا۔ دنیا اس خطے کو بنگال کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے بزرگ قبلہ الطاف حسن قریشی نے اسی خطے کو ’ٹوٹا ہوا تارا‘ قرار دیا تھا اور اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اسی نام سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔

یہ بھی پڑھیں: غامدی صاحب کا جرم

الطاف حسن قریشی صاحب کی یہ کتاب اس آشوب کا بیان ہے جس کی وجہ سے مسلم بر صغیر کا یہ چکمتا ہوا تارا منزل سے بھٹکا یا اس پر کچھ ایسی افتاد پڑی جس نے سینہ چاکان چمن میں رنجشیں پیدا کیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوئے۔ اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی امید کا اظہار فیض صاحب نے بھی کیا تھا:

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی بس رات بھر ہی کی جدائی تھی۔ ’مغرور حسینہ‘ (شیخ حسینہ واجد) کے جبر اور ظلم کی رات ٹلی ہے تو مسلم بر صغیر کے یہ بچھڑے ہوئے تارے ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں:

جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل اسٹاف افسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کا دورہ پاکستان یہی خبر دیتا ہے۔ نصف صدی پہلے کا جھگڑا کیا تھا؟ یہ بھارت تھا جس نے 1965 کی جنگ کو ہمارے خلاف دو دھاری تلوار کی طرح استعمال کیا۔ مغربی پاکستان پر جارحیت کی لیکن مشرقی پاکستان کو نہایت مکاری کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ اس کا اصل ہم درد تو ہے ہی وہی یعنی جنگ کے زمانے میں مغربی پاکستان نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم نے آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ اس پروپیگنڈے نے بڑا غضب ڈھایا۔ وہ لوگ طاقت پکڑ گئے جو مسلم بنگال کی نظریاتی شناخت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلم بنگال اپنی علاقائی اور لسانی شناخت کے بارے میں ہمیشہ حساس رہا ہے لیکن اسے اپنی نظریاتی شناخت بھی اتنی ہی عزیز تھی۔ اگر اسے اپنی نظریاتی شناخت عزیز نہ ہوتی تو انگریزی استعمار سے آزادی کے لیے غلامی کے زمانے میں وہاں سے پے درپے نظریاتی تحریکیں پھوٹتیں اور نہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی وجود میں آتی۔ خیر قسمت میں جو لکھا تھا، وہ ہوا یعنی ہونی ہو گزری۔ اب جدائی کے اس وقفے کے بعد جنرل قمرالحسن نے پرانے مغربی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر وہی بات کہی ہے جسے بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ بنائے فساد بنا دیا تھا۔ جنرل قمرالحسن کا دورہ پاکستان اس تخریب کے بعد تعمیر کی ایک صورت ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ جنرل قمرالحسن کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، وہ بہت معنی خیز ہے۔ اس بیان میں دوطرفہ شراکت داری کو کسی بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ برصغیر کی ان 2 مسلم طاقتوں کی طرف سے آنے والا یہ بیان ایک مہا بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ خطہ کن طاقتوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے لہٰذا انھیں ان طاقتوں سے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی

یہ بیان تاریخ کے ان دھاروں کی اصلاح بھی کرتا ہے جنہیں گزشتہ نصف صدی تک الٹا بہانے کی کوشش کی گئی۔ مسلم بنگال کو اپنی  علاقائی شناخت تو مل گئی لیکن اس بہانے اس کے مفادات پر نہایت کاری ضرب لگائی گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ’احسانات‘ کے بوجھ تلے اتنا دبے ہوئے تھے کہ وہ بنگالی عوام کے مفادات کے تحفظ سے بھی لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ بھارت نے اپنے نام نہاد احسانات کا منھ مانگا معاوضہ وصول کیا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام کا معاشی استحصال ہونے لگا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد حسینہ واجد کے جابرانہ عہد میں بھی یہی روش برقرار رہی۔ بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام کا اقتصادی اور کاروباری استحصال کیا بلکہ وہ اس کی سالمیت کے بھی درپے ہو گیا۔ پانی کے ذخائر پر قبضہ جمانے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات کو ہوا دی۔ عوام اس ضمن میں حسینہ واجد کی بے حمیتی کب تک برداشت کرتے بالآخر انہوں نے اسے اکھاڑ پھینکا اور آج بنگلہ دیش کے چیف آف اسٹاف پاکستان میں آ کر دفاع کے ضمن میں باہمی شراکت داری میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا تاریخ کا دھارا واپس اپنی جگہ پر آ رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش دیش 2 بچھڑے ہوئے بھائی اور فطری حلیف تو ہیں ہی، اس خطے کے مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ خطے کے تعلق سے یہ ایسا موضوع ہے جس سے ان عوامل پر روشنی پڑتی ہے جن کے پیش نظر سارک کے نام سے ایک علاقائی اتحاد وجود میں آیا۔

مزید پڑھیں: رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟

پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد بھارت کے حوصلے بڑھ چکے تھے اور وہ خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرا جس سے جنوبی کی مختلف اقوام اور ممالک کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ اس خطرے کو پاکستان اور بنگلہ دیش نے ہی محسوس کیا اور اس سے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ سارک کا قیام اسی لیے عمل میں آیا تا کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ تاریخ نے اس علاقائی تنظیم کے قیام کا کریڈٹ بنگلہ دیش کے جنرل ضیا الرحمٰن اور پاکستان کے جنرل ضیا الحق کو دیا۔

سارک کے قیام کے بعد تنظیم کے تمام ممالک نے سکھ کا سانس لیا اور پاکستان و بنگلہ دیش کی قیادت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ یہ تنظیم ضرور ترقی کرتی اور اس سے علاقائی خوش حالی کی امید بھی پوری ہوتی لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو اقتدار مل گیا اور اسی عرصے میں افغانستان کو اس تنظیم کا رکن بنا لیا گیا۔ ان 2 تبدیلیوں نے اس تنظیم کا مستقبل تاریک کر دیا کیوں کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور افغانستان کے اشرف غنی نے اپنی آزادانہ حیثیت پر بھارت کی کاسہ لیسی کو ترجیح دی۔ یوں سارک کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو گئی۔ یہ  بڑی بدقسمتی تھی۔

بھارت اور اس کے کاسہ لیسوں کی ریشہ دوانیوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں تھا لیکن بنگلہ دیش کے غیرت مند عوام نے حسینہ واجد کی جابرانہ حکومت کا خاتمہ کر کے اس سوال کا جواب فراہم کیا۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی صرف بنگلہ دیش کے عوام کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس نے  خطے کے اتحاد اور تعاون کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رشتوں کی بحالی کا ایک فائدہ تو یہ ہے دوسرا فائدہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے خلاف منصوبوں کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلات میں بھی یقیناً کمی واقع ہوگی۔ غرض یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی میں خیر ہی خیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاک بنگلہ دیش ملاپ پاکستان حسینہ واجد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاکستان حسینہ واجد پاکستان اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے حسینہ واجد کے ساتھ کے بعد اور اس کے لیے

پڑھیں:

دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا

سٹی42:   چھ سے نو مئی کے دوران 90 گھنٹے کی جنگ میں  خارش زدہ کتے جیسی حالت ہو جانے کے بعد بھارت کی ہندوتوا پرست حکومت تو اب تک زخم چاٹ رہی ہے اور ذلت کے داغ دھونے کے لئے آج کل گودی میڈیا میں پاکستانی سرحد کے ساتھ "کراچی پر قبضہ کر نےکی جنگی مشق" کا ڈھونگ رچا رہی ہے لیکن بھارت میں رہنے والے سکھ بھارتی حکومت کی خود ساختہ کشیدگی کا کوئی اثر نہیں لے رہے اور سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو  جی کے جنم دن پر کثیر تعداد میں پاکستان آ رہے ہیں۔ اس صورتحال پر بھارت کی ہندوتوا پرست مودی حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ 

بھارتی نژاد دنیا کی معروف کمپنی کو اربوں کا چونا لگا کر فرار

بھارت کی اپوزیشن کانگرس کے ساتھ وابستہ اخبار "قومی آواز"  نے بھی پاکستان کے سکھ یاتریوں  کو گورونانک دیو جی کے جنم دن کی مذہبی تقریبات کے لئے پاکستان آنے کی کھلی اجازت دینے کے عمل کو آپریشن سیندور کی تلخی کم کرنے کی کوشش کا رنگ دیا ہے۔ حالانکہ مودی حکومت کے نام نہاد  ’آپریشن سندور‘ کے بعد ہند-پاک  تعلقات میں آئی ہوئی تلخی آج کل پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی فوج کی جنگی مشقوں کی آڑ میں نئی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ایک بار پھر عروج پر ہے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان فیصلہ کن ٹی ٹونٹی میچ آج ہوگا  

پاکستان نے 2100 سکھ زائرین کو بابا گورونانک جی کے جنم دن کی تقریبات کے لئے ویزے جاری کئے ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری ذرائع کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ پاکستان سکھ کمیونٹی کو بھارت کی  ہندوتوا پرست مرکزی حکومت کے ساتھ  کشیدگی کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ پاکستان سکھ کمیونٹی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ارکان کا دوسرا گھر ہے۔ یہاں ان کے مقدس ترین استھان ہیں، سکھوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کے لئے سہولیات فراہم کرنے میں پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔
اسی اصول کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان نے سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کے یوم پیدائش کی مذہبی تقریبات میں شرکت کے لئے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان آنے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے ہیں۔
دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن نے رواں ہفتہ  بتایا کہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک دیو جی کا یوم پیدائش منانے کے لیے 4 سے 13 نومبر تک پاکستان جانے والے ہندوستانی سکھ زائرین کو 2100 سے زائد ویزے جاری کیے گئے ہیں۔

نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی

 واضح رہے کہ ہر سال ہزاروں سکھ زائرین ویزا-فری کرتارپور کوریڈور کے ذریعہ پاکستان جاتے ہیں۔ یہ کوریڈور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں واقع گرودوارہ دربار صاحب کو ہندوستان کے گرداس پور ضلع کے گرودوارہ ڈیرہ بابا نانک سے جوڑتا ہے۔
 
ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی رپورٹ کے مطابق زائرین اپنے سفر کے دوران ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور صاحب گرودواروں کی زیارت کریں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویزا جاری کرنے کا عمل 1974 میں بنائے گئے مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے دو طرفہ پروٹوکول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان میں پاکستان کے قائم مقام سفارت کار سعاد احمد واریچ نے ہندوستانی سکھ زائرین کو روحانی طور پر خوشحال اور اطمینان بخش سفر کی نیک خواہشات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کے تحت زیارت گاہوں کے سفروں کو آسان بناتا رہے گا۔
 ننکانہ صاحب ہندوستان کی سرحد سے 85 کلومیٹر (52 میل) مغرب میں لاہور سے آگے واقع ہے۔ وہاں جانے کے لئے سکھ یاتری پہلے لاہور آتے ہیں، پھر خصوصی بسوں سے ننکانہ صاحب جاتے ہیں۔ لاہور مین بھی سکھ مذہب کے کئی مقدس استھان ہیں، جن کی زیارت کسی بھی موقع کے لئے پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کی یاترا کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔

محسن نقوی  کا ٹی چوک فلائی اوور ،شاہین چوک انڈر پاس منصوبوں کا دورہ  

گورو نانک دیو جی کے جنم دن کی تقریبات کی شروعات منگل سے ہو گی۔ اٹاری-واہگہ زمینی سرحد جو دونوں ممالک میں منقسم پنجاب کے عوام  کو جوڑتی ہے، مئی میں بھارت کے پاکستان پر بلا اشتعال حملوں سے شروع ہونے والی جنگ کے باعث بند کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے سرحد کو بھارت کے لئے اب بھی بند کر رکھا ہے اور شاید یہ طویل عرصہ تک بند ہی رہے گی لیکن مشرقی پنجاب کی سکھ کمیونٹی ایک الگ معاملہ ہے، سکھوں کے لئے پاکستان کے دروازے اب بھی ہمیشہ کی طرح کھلے ہیں۔ 

پنجاب : لاؤڈ سپیکر ایکٹ سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ

قابل ذکر ہے کہ سکھ  مذہب کے مقدس مقامات اور سکھ ثاقفتی ورثہ کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں واقع ہے۔ 1947 میں برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ہندوستان کا تقسیم ہوا تب کرتارپور پاکستان میں چلا گیا، جبکہ زیادہ تر سکھ برادری کے لوگ ہندوستان میں رہ گئے۔ 7 دہائیوں سے زائد وقت تک سکھ برادری کو کرتار پور آنےئ کے لئے لاہور کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔  2019 میں پاکستان کی جانب سے کرتارپور کوریڈور کھولنے کے فیصلے کو بین الاقومی سطح پر  سکھ کمیونٹی میں کافی پذیرائی ملی۔ اب کرتار پور کے نزدیکی علاقوں کے لوگ لاہور آنے کی بجائے براہ راست کرتار پور کوریڈور تک گورو نانک جی کے اس آخری استھان تک آ سکتے ہیں۔
ہندوستان کی جانب سے فی الحال ویزا جاری کرنے کو لے کر کوئی آفیشیل بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن ہندوستانی اخبارات نے ہفتے کے روز اطلاع دی ہے کہ حکومت منتخب گروپوں کو سکھ مذہب کے بانی کی یوم پیدائش منانے کے لیے 10 روزہ تقریب میں حصہ لینے کی اجازت دے گی۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
  • بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر سے ترکیہ کے پارلیمانی وفد کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مستحکم کرنے پر اتفاق
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • شیخ حسینہ واجد بغاوت کیس میں مفرور قرار،اخباروں میں نوٹس
  • بنگلہ دیش میں عام انتخابات کے دوران سیکیورٹی انتظامات کی، ایک لاکھ کے قریب اہلکار تعینات ہوں گے
  • بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ایک مشکل کا سامنا
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا