عمران خان کو سزا، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
احتساب عدالت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں زبردست دیکھنے میں آئی ہے۔
بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 900 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے اور 100 انڈیکس 114856 پر موجود ہے، وقفہ نماز کے بعد کاروباری ہفتے کے آخری دن کے آخری سیشن کا آغاز ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس، فیصلے سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہوئی، تمام مقدمات کا سامنا کروں گا، عمران خان
ماہر اسٹاک مارکیٹ شہریار بٹ کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سنائی جانے والی سزاؤں کا آنے والے وقتوں میں گہرا اثر پڑنے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے پاکستان کی اکیوٹی مارکیٹ، معیشت اور سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب، پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں ہر کوئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف آنے والے فیصلے پر اپنا تجزیہ پیش کرتا دکھائی دے رہا ہے، کچھ کو لگتا ہے کہ اب شاید حالات ایک سمت میں آگے بڑھیں گے اور بعض کا خیال ہے کہ اس فیصلے کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹاک ایکسچینج میں مندی، 100 انڈیکس میں 658 پوائنٹس کی کمی
190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کے بعد 2 امکانات دکھائی دے رہے ہیں، اگر فیصلے پر شدید عوامی ردعمل آیا تو اس کا اسٹاک پر برا اثر پڑسکتا ہے، دوسری جانب عمران خان کی اپنی اہمیت بھی ہے، پیر کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کیا مؤقف سامنے آتا ہے، اس کا بھی اسٹاک مارکیٹ پر اثر پڑے گا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں ایک دم کیوں تیزی آئی، اس حوالے سے سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیصلے سے ایک شفاف صورتحال سامنے آگئی ہے جس میں تسلسل برقرار رہ سکتا ہے، پورا ہفتہ مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ دیکھا گیا، لیکن فیصلہ آنے کے بعد انڈیکس 900 پوائنٹس اوپر چلا گیا جو کہ فوری رد عمل تھا، تاہم اس فیصلے کے دور رس نتائج کو بھی دیکھنا ہوگا، اگر حکومت معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کرتی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات مثبت ہوسکتے بصورت دیگر حالات بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو 7 سال کی سزا، القادر ٹرسٹ کی زمین بھی تحویل میں لینے کا حکم
اسٹاک مارکیٹ کے ماہر جبران احمد کا کہنا ہے کہ نماز کے وقفے تک مارکیٹ میں تیزی دیکھی گئی اور سرمایہ کاروں کو امید تھی کہ سزا ہوجائے گی، اگر بے یقینی کی صورت حال ہوتی تو شاید ایک دم تیزی دیکھنے میں نہ آتی، ان کا کہنا ہے کہ سرپرائزنگ کچھ نہیں تھا جیسا کہ اس سے قبل ادوار میں دیکھا گیا کہ سوچتے کچھ تھے اور فیصلہ کچھ آجاتا تھا جس سے بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوجاتی تھی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں نظر رکھی جائے گی کہ سیاسی صورت حال کون سا رخ لیتی ہے اور اسٹاک مارکیٹ کا دارومدار بھی مستقبل کی سیاسی صورتحال اور حکومت کی پالیسیوں پر ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
100 انڈیکس 190 ملین پاؤنڈ کیس 900 پوائنٹس wenews اثرات اضافہ بشریٰ بی بی پاکستان اسٹاک ایکسچینج تیزی سزا عمران خان مثبت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 100 انڈیکس 190 ملین پاؤنڈ کیس 900 پوائنٹس اثرات اضافہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج تیزی اسٹاک مارکیٹ میں ملین پاؤنڈ کیس پاکستان اسٹاک کا کہنا ہے کہ فیصلے کے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
دہشت گردوں کیلئے معافی یا سزا میں کمی کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ
کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء (ATA) کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی خصوصی یا عام معافی کے قانونی حق دار نہیں، دفعہ 21-ایف کے تحت دہشتگردی کے مجرموں کے لیے معافی یا سزا میں کمی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور اس شق میں کسی قسم کی تشریح یا نرمی نہیں جاسکتی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023ء اور 2024ء میں دائر متفرق آئینی درخواستوں پر مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے تمام پٹیشنز خارج کر دیں۔
فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان جیل قوانین 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کے اضافے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو ہمیشہ کے لیے معافی کے دائرے سے خارج کیا جائے۔
عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون سازی عوامی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں شعوری اور دانستہ طور پر کی گئی تھی۔ عدالت کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو عام قوانین، بشمول جیل ایکٹ 1894، پر فوقیت رکھتا ہے۔
عدالت نے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو معافی سے محروم رکھنا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے مساوات) کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے تمام مجرم ایک علیحدہ قانونی طبقہ تشکیل دیتے ہیں، اس لیے ان پر یکساں قانون کا اطلاق امتیازی نہیں بلکہ معقول درجہ بندی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے معروف مقدمات شیروانی کیس، حکومتِ بلوچستان بنام عزیز اللہ اور ڈاکٹر مبشر حسن بنام فیڈریشن آف پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معقول بنیاد پر کی گئی درجہ بندی آئینی طور پر درست ہے۔
فیصلے میں محکمہ داخلہ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور متعلقہ سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کی گئی کہ قانون کے منافی دی گئی تمام معافیاں فوری طور پر واپس لی جائیں اور متعلقہ قیدیوں کی سزاؤں کا ازسرِنو تعین کیا جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی معافی یا رعایت کے اجرا میں تمام قانونی تقاضوں کی مکمل پاس داری کی جائے، بصورتِ دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دو رکنی بینچ کے معزز ججز نے ہدایت دی کہ فیصلے کی مصدقہ نقول سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون و انصاف، ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹر جنرل، سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور، سیکرٹری قانون بلوچستان اور آئی جی جیل خانہ جات کو فوری طور پر ارسال کی جائیں تاکہ عدالتی احکامات پر بلا تاخیر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ تمام سزا یافتہ قیدی خواہ وہ عمرقید کے ہوں یا قلیل مدتی سزا والے، اپنی بنیادی سزا کا کم از کم دو تہائی حصہ لازمی کاٹیں، یہ اصول پاکستان جیل قوانین 1978ء کے قاعدہ 217 کے تحت لازم ہے اور اس سے صرف وہی قیدی مستثنیٰ ہوں گے جنہیں قانون کے مطابق غیر معمولی معافی دی گئی ہو۔
عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات بلوچستان کو یہ بھی ہدایت کی کہ قیدی عجب خان کو دی گئی بی کلاس سہولت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور صوبے بھر میں بی کلاس حاصل کرنے والے تمام قیدیوں کی فہرست عدالت میں پیش کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بعض قیدیوں کو دی گئی قبل از وقت رہائیاں اور برائے نام فہرستیں من مانی، امتیازی اور غیر قانونی ہیں، جو آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 25 کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں عبدالمالک بنام ریاست (PLD 2006 SC 365) اور نذر حسین کیس (PLD 2010 SC 1021) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صدرِ پاکستان کو آرٹیکل 45 کے تحت سزا معاف یا کم کرنے کا اختیار حاصل ہے، مگر یہ اختیارات اسلامی اصولوں اور ریاستی پالیسی سے ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں، قتل، زنا، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو معافی کے دائرے سے خارج کرنا نہ صرف قانونی بلکہ پالیسی کے لحاظ سے درست ہے۔
عدالت نے سخت تشویش کا اظہار کیا کہ متعدد قیدیوں کو اصل سزا سے کہیں زیادہ معافیاں دی گئیں۔ مثال کے طور پر ایک قیدی سونا خان نے صرف 9 سال 4 ماہ سزا کاٹی مگر 15 سال سے زائد معافی حاصل کی، جبکہ امان اللہ نے 8 سال قید کے بعد 9 سال سے زائد رعایت پائی۔ عدالت نے اسے قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرتے ہیں۔