WE News:
2025-06-09@19:56:31 GMT

جب 2 عظیم مصنفین نے 2 دن ایک ساتھ گزارے

اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT

گراہم گرین ممتاز ناول نگار تھے۔ ان کا نام نوبیل انعام کے لیے کئی بار شارٹ لسٹ ہوا۔ جب سنہ 1957 میں کاسترو کو اپنا انقلابی حملہ آغاز کیے چند ماہ ہوئے تھے، گرین نے انقلابیوں کی مدد کی۔

وہ خفیہ کوریئر کے ذریعے کاسترو کے باغیوں کو گرم کپڑے مہیا کرتے تھے۔ یہ باغی پہاڑوں میں چھپے ہوئے تھے۔ گرین کے بقول انہیں دلیر رہنماؤں سے خاص محبت تھی، جس کی وجہ سے انہیں کاسترو میں بھی دلچسپی تھی، بعد میں کاسترو سے ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

ایک ملاقات میں کاسترو نے گرین کو اپنی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ بھی تحفے میں دی جو گرین کے اس گھر کے ڈرائنگ روم میں لٹکی ہوئی تھی جہاں انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزارے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر انسان بھی موسم سرما سو کر گزار سکتے۔۔۔

وی ایس نیپاول بھی عظیم ناول نگار تھے۔ انہیں سنہ 2001 میں نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ وی ایس نیپاول نے اپنے سینیئر اور پسندیدہ ناول نگار گراہم گرین کے ساتھ فرانس کے جنوبی علاقے میں 2 دن گزارے جہاں گرین نے اپنے ادبی سفر، نظریات اور جنگ کے اثرات سے متعلق حیران کن اور دلچسپ باتیں کیں۔ یہ 1968 کا قصہ ہے۔ اس کی روداد نیپاول کی زبانی سنیے:

گراہم گرین فرانس میں 2 برس سے مقیم ہیں، فرانس کے بااختیار لوگ مصنف کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں، سفر کی سہولت ہے اور سفر گرین کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ ہمیشہ سے سیاسی مصنف تھے جو واقعات کے بڑے تسلسل میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جب میں گرین سے ملا تو وہ کچھ دنوں کے لیے سیرا لون میں قیام پزیرتھے۔ ان کا ایک فلیٹ پیرس میں اور دوسرا اینٹبیز میں ہے۔ اینٹیبزکا فلیٹ کہ جہاں میں ان سے ملا چوتھی منزل پر ایک جدید بلاک میں واقع تھا۔ جہاں سلائیڈنگ والے شیشے لگے ہوئے تھے جو بیٹھک سے بالکونی تک جاتے تھے اور وہاں سے ساحل کا منظر کھلتا تھا۔

میں صبح 7 بجے وہاں پہنچا۔ گراہم گرین سبزی مائل پاجامے اور کھلی جیکٹ میں ملبوس تھے۔ ان کی ایک نئی کتاب تقریباً تیار تھی۔ یہ ایک سوانح تھی جوان کی زندگی کے ابتدائی 24 برسوں کے احوال پر محیط ہے۔ گرین بہت دھیمے انداز میں گفتگوکرتے تھے۔

مزید پڑھیے: ہم جدید سہولتوں کےدیوانے بھی ہیں اورمخالف بھی

انہوں نے بتایا کہ جنگ نے ان کی سفر کی خواہش کو ابھارا۔ ان کے بقول یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب انہوں نے محسوس کیا کہ برطانیہ رہنے کے لیے بہت چھوٹی جگہ ہے۔ جب ان کی 10 سال سے کام کرنے والی ملازمہ اچانک وفات پا گئی تو ان کے دل میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا۔ گرین کہتے ہیں کہ ’اگر وہ فوت نہ ہوئی ہوتی تو میرے لیے وہ جگہ چھوڑ نا کافی مشکل ہوتا۔ فرانس زیادہ سہولتوں کی حامل جگہ ہے اور کچھ حوالوں سے کم پریشان کن۔ فرانس میں اب بھی ایک متکبر طبقہ موجود ہے لیکن فرانس کے متوسط طبقے میں ایسے لوگ کم ہیں۔ ٹیکسی والا آپ کو صاحب کہتا ہے اور آپ اسے، میرے لیے یہ کافی اطمینان بخش ہے لیکن یہ سب شاید اس لیے ہے کیونکہ میں نے برطانیہ کو اس وقت چھوڑا جب تبدیلی آرہی تھی‘۔

فرانس کی اپنی طرح کی سیاسی غیر یقینی کی صورتحال ہے لیکن گرین کو کوئی پریشانی نہیں۔ یہ سرحد پر زندگی گزارنے والوں کے لیے معمول کا ایک حصہ ہے اور فرانسیسی سیاست وسیع اور ڈرامائی ہے۔

سنہ 1958 میں جنرل ڈیگال نے اقتدار میں آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس کی جس میں شرکت کے لیے گرین فرانس آئےتھے۔ ان کا کوئی باقاعدہ پروگرام نہ تھا، وہ صرف اپنی دلچسپی کی وجہ سے گئے تھے اور ان کے پاس کوئی اجازت نامہ بھی نہ تھا لیکن انہیں کسی نے نہ روکا۔ ان کا خبر کا شعور بہت باکمال ہے اور گرین کے بقول’مجھے اخبارات کا مطالعہ ہمیشہ سے پسند ہے، اس پرمیرے دشمن شاید یہ کہیں کہ میں اپنے خیالات مذہبی کاموں اور اخبارات سے لیتا ہوں‘۔ اینٹیبز میں وہ روزانہ 3 روزناموں کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار اخبارات بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مقامی اخبارات پڑھتے ہیں۔

انہوں نے دنیا کا مطالعہ کیا لیکن زیادہ امید کے بغیر۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق بائیں بازو سے رہا اور یہ تفہیم ان کی اپنی ہے۔ افریقہ نے انہیں پریشان کیا جہاں انہیں لگتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام مزید 100 برس رائج رہے گا، وہ بیلجئم کے انخلا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ گرین امریکا کی جنوب ایشیا اور لاطینی امریکا میں پالیسیوں کے بھی سخت ناقد ہیں۔

مزید پڑھیں : اپنی ہر کتاب الگ کمرے میں بیٹھ کر مکمل کرنے والا ممتاز فکشن نگار

گرین  انڈین ناول نگار آر کے نارائن کی بہت تعریف کرتے ہیں جو میسور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ہی سنہ 1935 میں  نارائن کا پہلا ناول لندن پبلشرز کو دیا تھا۔ یہ عجیب دوستی ہے۔ گرین کے بقول’نارائن سبزی خور اور سیاست میں عدم دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ سنکسرت پڑھ پڑھ کروہ ادھیڑ عمر میں مکمل ہندوستانی بن گئے ہیں اور مجھے ہندو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں‘۔ نارائن کی دوستی کے سبب ہی گرین نے ایک انڈین ماہر نجوم سے کچھ برس قبل اپنا زائچہ بنوایا تھا۔ اس کی  داستان وہ کچھ یوں سناتے ہیں ’اس کی زبان بہت مرصع تھی۔ اس نے میری والدہ کی تاریخِ وفات مانگی لیکن میں نے اسے ان کی تاریخ پیدائش دی۔ اس نے کہا مجھ پر مالک کا احسان ہوگا۔ اوریہ بھی کہا کہ  میرے ارد گرد گاڑیاں ہی گاڑیاں رہا کریں گی۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں 60 اور 100 سال کے درمیان وفات پاؤں گا جو کافی حد تک درست ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ میں 72 سال کی عمر میں وفات پاؤں گا۔ یہ حادثہ ایک بحری سفر سے واپسی پر ہو گا جو کافی مناسب بات ہے‘۔

گراہم گرین نے 30 کتابیں لکھیں (اس وقت تک)، حیران کن بات یہ ہے کہ انھوں نے نوجوانی میں ہر 9 ماہ میں ایک کتاب لکھی۔ گرین خود کہتے ہیں کہ’ایک لکھاری کے پاس اپنے آپ سے چھپانے کے لیے کوئی راز نہیں ہوتا اور گرین کے اپنے کام کے بارے میں تجزیے ان کی مسلسل کامیابی اور نقادوں کی یقینی دہانیوں سے الگ ہیں۔ ایک جیسی باتیں بار بار کہی جاتی ہیں، بندہ بور ہو جاتا ہے، انسان اپنے بارے میں اس طرح پڑھ نہیں سکتا، کیا ایسا نہیں؟ یہ ہمیشہ خود کو ایک مسخرہ محسوس کرانے والی بات ہے‘۔

جب میں اور گرین ریسٹورنٹ کی طرف گئے تومجھے وہ علاقہ کافی مانوس لگا۔ لیکن وہاں ایک سرپرائز تھا، انہوں نے ایک اونچے خوبصورت گھر کی طرف اشارہ کیا ’اس گھر میں پال گلیسو رہتا ہے، ایک بہترین کینیڈین‘۔ جب ہم ریسٹورنٹ پہنچے تو وہ سارا خالی تھا سوائے پیٹرن اور پیٹرونی کے جو ہمارا انتظار کرر ہے تھے۔ لیمونی ہماری منتظر تھی، یہ گرین کی پسندیدہ خوراک تھی۔ یہ ان 2 ریستورانوں میں سے ایک تھا جن میں گرین جاتے تھے۔ ہم اندر کے کمرے میں گئے۔ وہاں کا سربراہ لکڑی کی سل پر مچھلی لایا اور دکھائی، سلاد کے بعد اور وائن کے بعد تیار مچھلی پیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے: ایک مکینک سے نوبیل انعام کے حصول تک کا سفر

انہیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا جب گرین کی زندگی میں تبدیلی آئی۔ ان کے پہلے ناول کی توبس 8 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور بعد کی کتابوں کے ساتھ تواتنا بھی نہ ہوا، The Power and the Glory  جو 10 سال بعد شائع ہوا، اس کی محض ساڑھے 3 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں لیکن The Comedians جو 1966 میں شائع ہوا کی 60 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس کے بعد تو کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔

نیپاول کے بقول جب گرین مجھے رات گئے اسٹیشن پر رخصت کرنے آئے تو کہنے لگے کہ کل ہیٹی کے کچھ انقلابی مجھ سے ملنے آئے تھے، انھوں نے بتایا کہ ان کی ریل کار 9.

50 پر چلتی ہے، سو ہم نے رات کا کھانا کھایا اور اوریہاں سٹیشن پر آگئے لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ ریل کار تو گھنٹہ پہلے یعنی 8.50 پر جا چکی ہے، مجھے بتائیں اگر آپ اپنی ریل کار کو اچھی طرح منظم نہیں کر سکتے تو ایک انقلاب کو کیسے منظم کریں گے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

فرانس فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار آر کے نارائن ناول نگار گراہم گرین وی ایس نیپاول

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فیدل کاسترو گراہم گرین ناول نگار ا ر کے نارائن نوبیل انعام گراہم گرین انہوں نے کے بقول گرین کے ہے لیکن کے ساتھ کہ میں نہ تھا ہیں کہ کے بعد کے لیے ہے اور یہ بھی

پڑھیں:

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے
  • کئی ممالک میں مہنگائی جوں کی توں لیکن پاکستان میں کم ہوئی، مشیر وزیر خزانہ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • عید کے تیسرے روز کراچی کی مویشی منڈیوں میں سناٹا، جانوروں کی قیمتیں آدھی ہو گئیں
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی ختم، امریکی صدر کی سخت نتائج کی دھمکی
  • عید کی دعوتیں اُڑائیں لیکن اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں: ماہرین کا مشورہ
  • نیشنز لیگ فائنل: دنیائے فٹبال کے دو عظیم ستارے کل آمنے سامنے ہونگے
  • بجٹ میں 3 اور 5 مرلہ گھروں کیلئے شرح سود کی سبسڈی پر کام جاری