Express News:
2025-07-26@08:49:29 GMT

اندرا کی جیتی جنگ مودی ہار گیا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

قیام پاکستان کے بعد سے ہی مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے جدا کرنے کے لیے بھارتی رہنماؤں کی کوششیں شروع ہو چکی تھیں۔ نہرو ایک زیرک سیاستدان تھے، وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی مشرقی پاکستان کو نہ ہتھیا سکے۔ بھارت کی ترقی اور اسے ایک اہم ملک بنانے میں نہرو کا اہم کردار تھا۔

 نہرو پاکستان کے قیام کے بھی خلاف تھے اور پاکستان توڑنے کی خواہش بھی رکھتے تھے مگر وہ اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کی حسرت کے ساتھ دنیا سے چل بسے۔ ان کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے بھارتی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی چپقلش اور طویل فوجی اقتدار نے اندرا کو اس کے مقصد میں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کر دیا۔

 1971 میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ یہ سانحہ اندرا گاندھی کی کھلی جارحیت اور دو قومی نظریے کو شکست دینے کی کوشش تھی۔ حسینہ واجد نے الزام لگایا تھا کہ پاک فوج نے لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا اور خواتین کی بے عزتی کی تھی۔

 اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عام بنگالیوں کا قتل عام اور خواتین کی بے حرمتی بھارتی اشارے پر مکتی باہنی نے انجام دی تھی جس کا مقصد عام بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کرنا اور بنگلہ دیش کے قیام کو جائز قرار دینا تھا۔ مکتی باہنی دراصل بھارتی تربیت یافتہ فوجیوں پر مشتمل تھی، اسے پاکستانی فوج کی وردی میں بھیجا گیا تھا تاکہ بنگالی انھیں پاکستانی سمجھیں اور پاکستان سے نفرت کرنے لگیں۔

 اس سانحے میں بڑی عالمی طاقتوں کی چشم پوشی بھی قابل ذکر ہے۔ امریکا نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس نے اپنے بحری بیڑے کے پہنچنے کا دلاسا ضرور دیا تھا مگر وہ سب مکر و فریب کا گورکھ دھندا تھا۔

 بنگلہ دیش تو بن گیا تھا جس کی معیشت اس قابل نہیں تھی کہ وہ ایک ملک کے طور پر قائم رہ سکے چنانچہ بھارت نے تو مالی مدد ضرور فراہم کی، اس کے ساتھ یورپی ممالک سے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرائی گئی۔ اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے گارمنٹس ایکسپورٹ ملک بنا دیا گیا۔

مجیب الرحمن نے تقریباً چار سال حکومت کی مگر اس دوران اس پر کرپشن کے بے حساب الزامات لگے، افسوس کہ اس نے بنگلہ دیش کا بابائے قوم ہوتے ہوئے ایسے کام کیے بالآخر اسے بنگالی فوجیوں نے قتل کردیا اور اس کے خاندان کے کئی افراد بھی کام آئے۔ جو باقی بچے ان میں حسینہ بھی شامل تھی جو بعد میں بنگلہ دیش کی بھارت کی مدد سے وزیر اعظم بن گئی۔

اس نے اپنے والد کی طرح بھارت سے گہرے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ بھارت نے اسے نہ صرف ’’را‘‘ کی مدد سے تین مرتبہ الیکشن میں کامیاب کرایا بلکہ برے وقت میں اپنے ہاں پناہ دینے کی پیشکش کی۔ حسینہ واجد پندرہ سال بغیرکسی مزاحمت کے حکومت کرتی رہی۔ گوکہ ہر پانچ سال بعد الیکشن کرائے گئے مگر ہر دفعہ وہی الیکشن میں کامیاب قرار دی جاتی رہی۔

 اس لیے کہ یہی بھارتی حکومت کا فرمان تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے دور میں بنگلہ دیش بھارت کا ایک صوبہ بن کر رہ گیا تھا۔ بنگلہ دیشی عوام بھارت کی اپنے ملک میں اس پیمانے پر مداخلت کو برداشت نہیں کر پائے۔ جماعت اسلامی کے کئی پرانے عہدیداران کو حسینہ واجد نے 1971 میں پاکستان کی حمایت کرنے کے الزام میں پھانسی پر لٹکایا مگر ان پھانسیوں کا اصل حکم نئی دہلی سے آیا تھا۔

مودی نے اقتدار سنبھال کر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایک بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ حسینہ واجد بھارت کی غلامی میں پاکستان کی سب سے بڑی دشمن بن گئی تھی، تاہم وہاں کے عوام حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی میں اس کے ساتھ نہیں تھے۔

حسینہ ایک آمر کے طور پر پورے بنگلہ دیش کی سفید و سیاہ کی مالک بن گئی تھی۔ اسے عوام سے زیادہ بھارت کی فکر تھی اس نے بنگلہ دیشی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت کو بہت سی سہولتیں فراہم کیں جن میں بھارتی فوج کو بنگلہ دیش کی سرزمین سے گزر کر اس کی مشرقی ریاستوں تک رسائی کی سہولت بھی شامل تھی۔ بنگلہ دیش بھارت کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا حمایتی تھا وہ بھارت کے حکم پر ہی کسی ملک سے تعلقات استوار کر سکتا تھا۔

پاکستان سے نفرت کرنا بنیادی نکتہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش مسئلہ کشمیر پر بھی بھارتی طرف دار بن گیا تھا۔ بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت سے بالآخر تنگ آ گئے۔

 وہ بھارت سے پہلے سے ہی بدظن تھے اور پھر پورے بنگلہ دیش میں طلبا نے حسینہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جس کا جواز تو نوکریوں میں حکومتی زیادتی قرار پایا مگر اصل میں اس کی ڈکٹیٹر شپ اور بدعنوانی نے طلبا کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس کے خلاف کھڑا کر دیا تھا، بالآخر اسے بھاگ کر مودی کے قدموں میں پناہ لینی پڑی۔

حسینہ واجد کو ایک مطلق العنان حکمران بنانے میں مودی کا پورا پورا ہاتھ تھا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کی دشمنی میں پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنایا اور مودی نے مسلم دشمنی میں اسے کھو دیا اور اب بنگلہ دیشی عوام کی بھارت سے نفرت سے لگتا ہے کہ وہ کبھی اسے اپنے ملک میں مداخلت کا موقع نہیں دیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان پاکستان کو پاکستان سے حسینہ واجد بنگلہ دیش بھارت کی کے ساتھ گیا تھا

پڑھیں:

شاہینوں کا پلٹ کا وار، بنگلہ دیش کو 74 رنز سے شکست دیدی

 

شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم ڈھاکہ میں کھیلے گئے ٹی 20 سیریز کے آخری مقابلے میں پاکستان نے میزبان بنگہ دیش کو 74 رنز کے بھاری مارجن سے شکست دیدی تاہم سیریز بنگال ٹائیگر نے 1-2 سے اپنے نام کر لی ۔

پاکستان کی جانب سے 178 رنز کے تعاقب میں بنگلہ دیشی کی پوری ٹیم 104 رنز بنا کر آل آؤٹ ہوگئی، میزبان ٹیم کی بیٹنگ لائن ابتدا میں ہی لڑکھڑا گئی تھی اور صرف 41 رنز کے مجموعے پر اس کے 7 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے۔
بعد میں آنیوالے بلے بازوں نے کچھ مزاحمت ضرور کی تاہم وہ پاکستانی بولرز کا زیادہ دیر تک سامنے نہ کر سکے، آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کیلئے آنے والے سیف الدین 35 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے جب کہ بنگلہ دیش کے 9 بیٹرز ڈبل فگر میں داخل ہونے میں بھی ناکام رہے۔
پاکستان کی جانب سے فاسٹ بولر سلمان مرزا نے 3 وکٹیں اپنے نام کیں، محمد نواز اور فہیم اشرف 2-2 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جبکہ سلمان علی آغا، حسین طلعت اور احمد دانیال کے حصے میں ایک، ایک وکٹ آئی۔
قبل ازیں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے میزبان بنگلہ دیش کو 179 رنز کا ہدف دیا تھا۔
سیریز کے آخری مقابلے میں پاکستان نے مقررہ 20 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 178 رنز بنائے، پاکستان کی جانب سے اوپنر بیٹر صاحب زادہ فرحان کو موقع دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے بیٹر نے 5 چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر شاندار 63 رنز کی اننگز کھیلی۔
نوجوان بیٹر حسن نواز نے 17 گیندوں پر برق رفتار 33 رنز بنا کر ٹیم کے مجموعے میں اضافہ کیا، محمد نواز 16 گیندوں پر 27 رنز بنانے میں کامیاب رہے جبکہ کپتان سلمان علی آغا 12 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
اوپنر بلے باز صائم ایوب 21، وکٹ کیپر بیٹر محمد حارث 5 اور حسین طلعت ایک رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔
بنگلہ دیش کی جانب سے تسکین احمد 3 اور نسیم احمد 2 وکٹیں حاصل کر کے نمایاں رہے۔
پاکستان کی پلیئنگ الیون میں 2 تبدیلیاں کی گئیں، فخر زمان کی جگہ اوپنر بلے باز صاحب زادہ فرحان کو اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا جبکہ خوش دل شاہ کو آرام دے کر حسین طلعت کو حتمی الیون میں شامل کیا گیا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کٰساتھ مودی کی دوستی کھوکھلی ثابت ہو رہی ہے، کانگریس
  • پاکستان، بنگلہ دیش ویزا فری معاہدہ، بھارت کو پریشانی کیوں لاحق ہوئی؟
  • بنگلادیش میں شیخ حسینہ کے رفیقِ خاص سابق چیف جسٹس خیر الحق گرفتار
  • جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
  • شاہینوں کا پلٹ کا وار، بنگلہ دیش کو 74 رنز سے شکست دیدی
  • شیخ حسینہ کی 2024 میں فورسز کو مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دینے کی آڈیو کال پکڑی گئی
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں ہوش رُبا اضافہ، مودی راج میں انصاف ناپید
  • مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے