پشاور:

جنوبی وزیرستان کے علاقے عمر رغزائی سے اغواء ہونے والے چاروں پولیس اہلکار چھوڑ دیے گئے۔ 

ڈی پی او ارشد خان چاروں پولیس اہلکاروں کو بدھ اور جمعرات کی درمیان شب عمر رغزائی  پولیس پوسٹ کے قریب سے اغواء کیا گیا تھا۔

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ چاروں پولیس اہلکاروں کا اسلحہ اور دیگر سامان سب کچھ بھی واپس کیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چاروں پولیس

پڑھیں:

لداخ میں پر تشدد احتجاج کے بعد سیکورٹی سخت،ہلاکتیں 5 ہہوگئیں،30 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250926-01-19

سری نگر (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام خطے لداخ کو ریاستی درجہ دینے کے لیے ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد سیکورٹی مزید سخت کردی گئی، پولیس سے جھڑپوں میں اب تک 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ 30 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق لداخ میں پرتشدد مظاہروں کے اگلے ہی روز بھارتی پولیس نے شمالی شہر لیہ میں گشت کیا۔ گزشتہ
روز بھارت کے ہمالیائی خطے لداخ میں ریاستی درجہ دینے اور مقامی رہائشیوں کے لیے نوکریوں کے کوٹے کے مطالبے پر ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس سے جھڑپوں میں 5 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے، اس دوران، 30 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ لداخ 2019 میں اس وقت اپنی خودمختاری کھو بیٹھا تھا، جب وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اسے مقبوضہ جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست نئی دہلی کے انتظام کے تحت وفاقی خطے میں تبدیل کر دیا تھا۔ عام طور پر سیاحوں سے بھرا ہوا یہ شہر پرتشدد مظاہروں کے بعد سنسان دکھائی دیا، زیادہ تر مرکزی سڑکیں خاردار تاروں سے بند تھیں اور پولیس کی بڑی نفری ہتھیاروں سمیت وہاں موجود تھی۔ چین اور پاکستان کی سرحدوں سے ملنے والے اس خطے میں گزشتہ روز اس وقت مظاہرے پھوٹ پڑے جب ہجوم نے خودمختاری کا مطالبہ کیا، اس بلند و بالا صحرائی خطے میں جہاں صرف 3 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ لداخ کے تقریباً نصف باشندے مسلمان ہیں اور تقریباً 40 فیصد بدھ مت کے پیروکار ہیں، اسے ’یونین ٹیریٹری‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ بھارتی پارلیمان کے لیے قانون ساز منتخب کرتا ہے لیکن اس پر براہ راست نئی دہلی حکومت کرتی ہے۔ خیال رہے کہ لداخ کی چین کے ساتھ طویل سرحد ہے اور یہ بھارت کے لیے اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ایک ہجوم نے پولیس پر حملہ کیا جس میں 30 سے زاید پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے فائرنگ کرنا پڑی جس میں بدقسمتی سے کچھ ہلاکتیں ہوئیں، تاہم بیان میں ہلاکتوں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ مظاہرین نے ایک پولیس گاڑی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفاتر کو آگ لگا دی، جبکہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ڈنڈوں کا استعمال کیا۔ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’5 ہلاکتوں کی اطلاع ملی ہے اور زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے‘۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو خصوصی درجہ دیا جائے تاکہ قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے منتخب مقامی ادارے تشکیل دیے جا سکیں۔ یہ مظاہرے معروف کارکن سونم وانگچک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منظم کیے گئے تھے، جو بھوک ہڑتال پر تھے اور لداخ کے لیے یا تو مکمل وفاقی ریاستی درجہ یا قبائلی برادریوں اور اس زمین کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
لداخ

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • لداخ میں پر تشدد احتجاج کے بعد سیکورٹی سخت،ہلاکتیں 5 ہہوگئیں،30 پولیس اہلکار زخمی ہوچکے
  • موٹروے ایم 4 کے قریب خوفناک ٹریفک حادثہ، 3 افراد جاں بحق
  • کندھکوٹ، ڈاکوئوں کے چنگل سے بازیاب ہونے والا پولیس کانسٹیبل
  • کندھکوٹ،5روز قبل اغوا اہلکار پولیس کابازیاب کرانے کا دعویٰ
  • پولیس کی بڑی کاروائی، مبینہ طور پر حبس بیجا میں رکھی ملازمہ سوفٹ ویئر ہاؤس سے بازیاب
  • ڈاسن شناکا ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ صفر پر آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے
  • اوکاڑہ: واپڈا اہلکاروں کے مبینہ تشدد سے خاتون جاں بحق
  • راولپنڈی، اغوا ہونے والی بچی چند گھنٹوں میں بحفاظت بازیاب، والدین سے ملا دی گئی
  • کراچی، پولیس کی سوفٹ ویئر ہاؤس میں کارروائی، ملازمہ بازیاب
  • کراچی، پولیس اہلکاروں پر پے در پے حملوں میں دہشتگرد گروپس کے ملوث ہونے کا انکشاف